ضبط کی آہنی دیوار کو ڈھایا جائے
دوستو اب کوئی طوفان اُٹھایا جائے
ختم ہو جبر کی فرسودہ روی کا قصہ
اب ہواؤں کو چراغوں سے جلایا جائے
گرچہ اک ریت کا گرداب ہے چاروں جانب
سبز باغ اب نہ وفاؤں کا دکھایا جائے
اب تو ہر درد کی تعلیم دلائی جائے
اب تو بچوں کو ہر اک زخم پڑھایا جائے
اس کے گھر کو نہ پنہ گاہ سمجھ بیٹھوں مَیں
مجھے قاتل کا پتہ صاف بتایا جائے
عاصم ثقلین
فیس بک کمینٹ