ہم نے ہوش سنبھالا تو دو ہی جماعتیں برسر پیکار تھیں۔ پیپلز پارٹی جو بائیں بازو یعنی ترقی پسند جماعت تصور ہوتی تھی اور مسلم لیگ جس کے کئی حصے بخرے اس وقت بھی موجود تھے، دائیں بازو کی کنزرویٹو جماعت تصور کی جاتی تھی۔1986 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ظاہر ہے کہ ہم عمر کے اُس حصے میں تھے جب سیاست کا قطعی علم نہ تھا مگر والد اور خاندان کے دیگر افراد سے بھٹو اور بھٹو کی بیٹی کی کہانی ضرور سنی تھی جو متاثر کن تھی۔سنہ 1988 کے انتخابات کے دنوں میں ہم گاؤں میں تھے اور گاؤں میں صرف ہمارے ہاں ٹیلی ویژن تھا، گاؤں بھر کے مرد اور خصوصاً عورتیں شام کو ہمارے بڑے صحن میں اکٹھی ہو جاتیں۔ عورتیں بی بی کی ایک جھلک دیکھنے آتیں۔نو بجے کے خبرنامہ میں سیاسی جماعتوں کو کوریج مل رہی تھی اور چونکہ ایک طویل عرصے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے پابندیاں ہٹائی گئی تھیں اور عام انتخابات کا انعقاد دس سال کے بعد ہو رہا تھا لہٰذا عوام میں خاصا جوش و خروش تھا۔ہر خاص و عام سیاست میں حصہ لے رہا تھا۔ گاؤں میں میلے کا سا سماں تھا۔ نو ستارے یعنی اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے تھے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ گاؤں میں بھانڈ ایک دوسرے سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں بڑے بڑے چمڑے کے لتر تھے جنھیں وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر مارتے تھے اور موضوع جنرل ضیا الحق تھا۔وہ بھانڈ جو بظاہر ان پڑھ مگر سیاسی طور پر درست تھے میری یادداشت میں آج بھی موجود ہیں۔ قصہ مختصر اسی سیاسی تفریق کے ساتھ ہم بڑے ہوئے۔ پیپلز پارٹی اپنی جدوجہد میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حامی تھیں۔پاکستان میں سیاسی سوچ کا آغاز قائداعظم کے بعد بھٹو صاحب سے ہی ہوا اور یہ ماننا پڑے گا کہ سیاست یا تو بھٹو مخالف تھی یا بھٹو کی حمایت میں۔ اُن کی صاحبزادی والد کا نظریہ لے کر آگے بڑھتی گئیں۔میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے حامی بلکہ پروردہ اور جنرل ضیاالحق کے سیاسی جانشین کہلاتے تھے۔ تصور نہیں تھا کہ کبھی ملک میں یہ حریف جماعتیں یا نظریے ایک صفحے پر آئیں گے لیکن ایسا ہوا۔مجھے آج بھی سنہ 2006 کا وہ دن یاد ہے جب میں پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں اپنے پروگرام کی تیاری میں تھی کہ خواجہ آصف کیفے ٹیریا میں داخل ہوئے۔ حسب سابق کیمرا لے کر اُن کی جانب بڑھی تو خواجہ صاحب مسکرائے اور کہا کہ بڑی خبر ہے میری پاس لیکن کیمرے پر کہنا قبل از وقت ہے۔کیمرہ سائیڈ پر کرانے پر خواجہ صاحب نے کہا کہ بی بی جدے میں میاں صاحب سے ملی ہیں اور اب ایک معاہدے پر دستخط کا امکان ہے جس کے مندرجات میں سب سے اوّل جنرل مشرف کے اقتدار کے خلاف ایک تحریک چلانا اور ایک دوسرے کو قبول کر کے سیاسی برداشت پیدا کرنا ہے۔میثاق جمہوریت کی خبر بریک کرتے ہوئے میں نے نہیں سوچا تھا کہ کبھی کوئی معاہدہ طے پائے گا جس میں حریف جماعتیں جمہوریت کے لیے ایک پیج پر اکٹھی ہوں گی۔سیاست کے اس پر پیچ دور میں جنرل مشرف احتساب کے مقدمے بھی دائر کر رہے تھے اور سیاسی قیادت کے ملک داخلے پر پابندی بھی تھی مگر پاکستان کے عوام کرپٹ کرپٹ کی گردان کے باوجود انھی سیاست دانوں کے اردگرد رہے۔یہ سمجھنا ہو گا کہ کچھ ہو جائے پاکستان کے عوام کے دل سے جمہوریت نکالی نہیں جا سکتی۔یہ سچ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے بدعنوانی کا تمغہ سینے پر سجایا ہے اور اس داغ کو دھونے کی کوشش بھی نہیں کی تاہم اپنی غلطیوں سے سیکھا ضرور ہے۔آج مریم اور بلاول میثاق جمہوریت کو بڑھاوا دینے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ میراث جمہوریت منتقل ہو رہی ہے لیکن ان نوجوانوں کو کچھ غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہے کیونکہ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔جمہوریت کو اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کو جگہ دینا ہو گی۔ جماعتوں میں تطہیر کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ نظریاتی سیاست کو عملی طور پر آزمانا ہو گا اور اپنی سیاسی جماعتوں کو ادارہ بنانا ہو گا۔بلاول بھٹو نے بہت قلیل وقت میں بہت سا سفر طے کیا ہے۔ انھوں نے اپنے نانا اور والدہ کی شہادت اور والد کی 11 سالہ جیل سے بہت سیکھا ہے اور وہ تلخ بھی ہیں۔مریم نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنی اور والد کی جیل اور اس سے قبل برطرفی سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔دونوں کو مصلحتوں سے نہیں، نظریوں سے آگے جانا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر عوام کو اعتماد دینا ہو گا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت ہی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بلاول بھٹو نے مختصر وقت میں نوجوان اور بزرگ سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔مجھے بحالی جمہوریت تحریک اے آر ڈی کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے ملنے، دیکھنے اور حزب اختلاف کی سیاست سمجھنے کا بڑا موقع ملا۔ کسی وقت اُن پر لکھوں گی لیکن یہاں یہ تحریر کرنا ضروری ہے کہ بلاول کے اندر بی بی کے ساتھ ساتھ نوابزادہ صاحب کی بھی جھلک ہے۔بلاول بھٹو نے میثاق جمہوریت کو میراث جمہوریت میں بدل دیا ہے۔ انھیں سیاسی اور جمہوری قوتوں کو اکٹھا کرنے میں دقّت نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ تاہم آنے والے دنوں میں اس میراث کو بچانا اہم امتحان ہو گا۔بلاول سیاست کی بساط پر اصل چال چلنے کے موقع سے کتنا فائدہ اٹھائیں گے یہ دیکھنا باقی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ