وزیراعظم عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد تو شاید لوگوں کو اتنی یاد نہ ہو لیکن اسلام آباد کے دھرنے کے بعد سے جو کچھ عمران خان کہتے رہے ہیں وہ نہ میڈیا بھول پا رہا ہے اور نہ عوام بھولے ہیں۔ اب وزیراعظم کو احساس ہو چکا ہو گا کہ آفاقی خیالات‘ ان پر مبنی دعوﺅں اور زمینی حقائق میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عمران خان اور تحریک انصاف احتساب اور تبدیلی کے نعروں سے پہچانی جاتی رہی ہے اور آج بھی انہی نعروں پر قائم و دائم ہے۔ لیکن گزشتہ نو ماہ کے اقتدار میں جو احتساب ہوا ہے اور جو تبدیلی لائی گئی ہے اس پر بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے۔ ہر سو ہی ”تبدیلی“ کا سماں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں تنظیمی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ پنجاب کو رانا ثناءاللہ اور سردار اویس خان لغاری کے حوالے کیا گیا ہے۔ مریم نواز نائب صدر بن گئی ہیں۔ خواجہ آصف‘ رانا تنویر اوراحسن اقبال بھی اہم عہدیدار بن گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ سیاسی بیان بازی کے حملے اب باقاعدہ طور پر بلاول بھٹو زرداری کے سپرد ہیں۔ یہ کام وہ بنفس نفیس خود سرانجام دے رہے ہیں۔ پارٹی کی مختلف سرگرمیوں اور اجتماعات میں انتہائی فعال نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تو کافی تبدیلیاں ہو گئی ہیں۔ اسد عمر مذاکرات کرکے واشنگٹن سے لوٹے تو چلتے کر دیئے گئے۔ فواد چودھری صاحب ترجمان سے سائنسدان بنا دیئے گئے۔ وزیر صحت کو فارغ کر دیا گیا۔ غلام سرور خان کی وزارت تبدیل کر دی گئی۔ اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر کے سربراہوں کو گھر بھیج دیا گیا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ وزارت اطلاعات میں آ گئیں۔ وزارت خزانہ میں حفیظ شیخ آ گئے۔ ممتاز قانون دان مرحوم ایم ایس باقر کے صاحبزادے رضا باقر کو اسٹیٹ بنک کا گورنر لگا دیا گیا۔ ایم ایس باقر کو بھٹو صاحب نے اپنے دوراقتدار میں سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا۔ راقم کو باقر صاحب نے سوئٹزر لینڈ میں سفیر مقرر کئے جانے کی وجہ بھی بتائی تھی، میرے ان سے ذاتی مراسم تھے۔ خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ انہوں نے ملت پارٹی میں فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ ایف بی آر کےلئے پرائیویٹ سیکٹر سے شبر زیدی کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ یہ ٹیکس پالیسیوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے معاشی ماہرین کی ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے جو مالیاتی امور کو دیکھے گی۔ ان میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین‘ سابق گورنر اسٹیٹ بنک سلیم رضا اور صادق سعید شیر اعظم سرفہرست ہیں۔ اس ٹیم کی نگرانی جہانگیر ترین کر رہے ہیں جو اس ٹیم کے غیراعلانیہ سربراہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین جدید دنیا کی ہستی ہیں لیکن بدقسمتی سے نااہل قرار دے دیئے گئے ہیں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مشیر خزانہ حفیظ اے شیخ اور گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر کی تعیناتی سے قبل وزیراعظم سے کوئی ملاقات نہیں حالانکہ مقتدر اعلیٰ ایسی ا سامیوں پر تقرر کرنے سے پہلے ملاقات کرتا ہے۔ سوال جواب کئے جاتے ہیں۔ دونوں عمران خان صاحب سے کبھی نہیں ملے ، کہا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین نے کہہ دیا اور وزیراعظم نے لگا دیا۔ حفیظ شیخ کا ماضی سب کے سامنے ہے، ان کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے، یہ 2010ءسے 2013ءکے درمیان معیشت کے ساتھ بگاڑ کرکے گئے تھے۔ حفیظ شیخ کی معاشی مینجمنٹ دیکھی بھالی ہے۔ بطور وزیر نجکاری پی ٹی سی ایل کی ایتصلات کو فروخت ان کا کیا دھرا ہے۔ اب تک ایتصلات کمپنی نے بقایا 800ملین دینے سے انکار کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی تمام جائیدادیں ان کے نام کی جائیں جبکہ یہ بات معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو مایوس کیا تھا پھر حفیظ شیخ نے پیپلزپارٹی میں نقب لگائی اور آصف زرداری نے ان کو گود لے لیا۔ انہوں نے ہی حبیب بنک کو اونے پونے فروخت کیا تھا۔ یہ سرکاری عہدے پر براجمان ہوں تو پاکستان میں نظر آتے ہیں ورنہ یورپ میں رہتے ہیں۔ ان کی بیگم صاحبہ امریکی ہیں اور اولاد برطانوی شہری ہے۔ ان کی ہاں جب بھی کسی بچے کی ولادت کے دن نزدیک ہوں تو فیملی برطانیہ چلی جاتی ہے تاکہ آنے والا برطانوی شہری ہو۔بعض افراد انہیں عالمی مالیاتی رسہ گیروں کے نمائندے کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے واپس انہی اداروں میں جانا ہوتا ہے۔ یہ آئی ایم ایف کو دکھانے کے لئے اور سختی کریں گے۔ یہ جو ہم سفید پوش طبقات سے تعلق رکھنے والے زمین زادے ہوتے ہیں نظریات‘ غیرت‘ عزت نفس‘ وفاداری‘ دوستی‘تعلقات اور روایات یہ سب ہمارے طبقے کی ”عیاشیاں“ ہیں۔ اشرافیہ کے تینوں طبقے ہوں یا گارڈز فادر آف اشرافیہ کسی کو ان میں سے کوئی ایک بھی ”بیماری“ لاحق نہیں ہوتی۔ اپنے ہنرمندوں سے کام نہیں لیا جاتا اور انہیں دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔ کیا عمر ایوب خان سے وزارت خزانہ کا کام نہیں لیا جا سکتا تھا؟ کیا وہ قابل اور ذہین شخصیت نہیں ہیں؟ کیا محمد میاں سومرو کو عجائب گھر میں سجانا ہے؟ کیا ان کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق ان کا استعمال کیا جا رہا ہے؟اور قربان جاﺅں آپ کی بصیرت پر کہ آپ سومرو صاحب کو وزیر مملکت بنانے چلے تھے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان دنوں آپ کو وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے اس کا علم نہیں ہو گا۔ یہ یقیناً کسی اور کی مہین کاریگری تھی۔ محمد میاں سومرو کا پروفائل اس اسمبلی میں سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ سابق صدر‘ سابق وزیراعظم‘ سابق چیئرمین سینٹ کے علاوہ بنک آف امریکہ سے اٹھارہ سال کا تعلق ہے۔ لوائی کے بعد مسلم کمرشل بنک کے ہیڈ رہے ہیں، نیشنل بنک کی صدارت کی ہے، زرعی ترقیاتی بنک کے چیئرمین تھے، فیڈرل بنک فار کوآپریٹو کے سربراہ رہے اور بہت سے بنکوں سے تعلق رہا۔ خوشحال بنک کو مستحکم کیا اور بنایا، گورنر سندھ رہے، پاکستان میں ہیلتھ انشورنس سکیم لے کر آئے۔ ان کے دور گورنری میں ورلڈ بنک نے صوبہ سندھ کو براہ راست فنڈنگ کی۔ یہ جہاں جہاں بھی رہے انہوں نے رزلٹ دیئے۔ عجز و انکساری والے بندہ خدا ہیں۔ کم گو ہیں، چرب زبانی ان کوآتی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے ضروری ہے کہ مشیر اور مصاحب میں فرق رکھیں۔ حفیظ شیخ کا کچھ بھی داﺅ پر نہیں ہے۔ یہ مشیر ہیں قومی اسمبلی میں جا نہیں سکتے۔ ان کو اہمیت دی جائے کہ جن کا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ اسی طرح اسد عمر کی چرب زبانی ان کو لے بیٹھی اور ایف بی آر میں گروپ بازی کا شکار رہے۔ زندگی میں پہلی بار اہم وزارت ملی۔ کپتان کا بے پناہ اعتماد حاصل رہا لیکن ڈیلیور نہ کر سکے۔ اب سنا ہے کہ انہیں وزارت خزانہ کے لئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ نہ جانے اب یہ کون سا تیر چلا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ جو سبکی اسد عمر کی ہوئی ہے وہ ان کے دل سے تو جا نہیں سکتی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ اور کیا کرنا ہے۔ اسد عمر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے آئے تھے اور اگر آئی ایم ایف کا پریشر تھا تو کہتے اوکے۔ شرائط مان لیتے۔ اس وقت وزیر نہ ہٹاتے۔ اب یہ کام حفیظ شیخ اور رضا باقر کو لاکر کیا گیا۔اس کے بعد اپوزیشن نے پھبتی تو کسنی تھی کہ آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے ہیں۔ خود مان لیتے۔ جگ ہنسائی کی کیا ضرورت تھی آئی ایم ایف کو اس وقت سر پر بٹھانا کوئی عقل مندی نہیں تھی۔ ویسے بھی جو بوجھ ہم پر آئی ایم ایف کے ذریعے گرے گا کیا یہ ہمارے لئے ان کی سپورٹ ہو گی یا ظلم۔ 39ماہ میں ملنے والے چھ سات ارب ڈالر اس وقت اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں۔ ہم ایک بند گلی کی طرف جا رہے ہیں۔ نظام زر کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹماٹر اور لیموں کے نرخ تو آپ سے کنٹرول نہیں ہورہے ڈالر کو کیسے کنٹرول کرو گے۔ رمضان المبارک میں غریب تو غریب سفید پوشوں کا مہنگائی کے ہاتھوں کچومر نکل گیا ہے۔ کیسی حکومت اور کہاں کی تبدیلی۔ کیسا رمضان بازار اور کہاں کے یوٹیلٹی سٹورز‘ مجال ہے جو گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں پر ضلعی انتظامیہ نے ہاتھ ڈالا ہو۔ یا دوکانوں پر مجسٹریٹوں نے چھاپے مارے ہوں۔ کیا یہ کام بھی آئی ایم ایف نے کرنا تھا۔ اگر معیشت میں جان ڈالنی ہے تو ان کو نشان عبرت بتاﺅ جن کی وجہ سے عوام نشان عبرت بنتے چلے جا رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے دور کا قرضہ کیسے ادا ہو گا۔ پانچ برسوں کے لئے آئی ایم ایف سے لئے گئے اٹھائیس ارب ڈ الر جو قرضے اتارنے کے لئے حاصل کئے گئے تھے وہ کہاں منتقل ہوئے۔ گیس کے ایک سو ستاون ارب روپے کون دے گا۔ یہ فضول تنقید ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے۔ کیا ہم پہلی مرتبہ ان کے پاس گئے ہیں۔ کبھی زرداری حکومت اور شریف حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا تھا۔ آئی ایم ایف نامی ادارے کو الزام دینا بھی ایک بھونڈی اور بھدی حرکت ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے جو کیا اور جو کرے گا وہ اس نے نہ گن پوائنٹ پر کیا اور نہ کرے گا۔ آپ نے خود کرایا اور ان کے در پر حاضریاں دے دے کر کرایا۔ اس کا کیا قصور۔ کیونکہ کمزور اور طاقتور میں معاہدہ طاقتور کی شرائط پر ہوتا ہے۔ سابقہ حکمران بھی ہمارا انتخاب تھے۔ ظاہر ہے سزا بھی ہمیں ہی ملے گی۔ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بنک جتنے بھی عالمی فنانشل ادارے ہیں یہ اصل میں سیاسی ادارے ہیں، یہ خودمختار ادارے نہیں ہیں جو امریکہ کہے گا وہی آئی ایم ایف کرے گا۔ پاکستان کو نظریاتی اور سرحدی سمجھوتوں پر مجبور کیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب‘ میرے خیال میں آپ نے اپنی معاشی ٹیم تو ترتیب دے لی ہے۔ اب اس ٹیم پر اپنے پارلیمنٹ کے منتخب رکن کو وزیر خزانہ لگایا جائے تاکہ ٹیکنوکریٹ اور منتخب ممبران کے درمیان توازن قائم رہے۔ جو آپ کی حکومت کے استحکام کےلئے ضروری ہے۔ آپ کے اراکین پارلیمنٹ تشویش میں مبتلا ہیں۔ آپ کو کوئی نہ بتائے تو اور بات ہے۔ صاف صاف تحریر کردیتا ہوں کہ ان مشیران کے ہوتے ہوئے امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان میں سی پیک کے عظیم الشان منصوبے کو ناکام بنانے کی ہر طرح کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کو ڈی نیو کلیئر کرنے اور فوجی اخراجات میں کمی لانے اور ایران کے مدمقابل کھڑا کر دینے کے حربے استعمال کرے گا۔ ان خطرات کا داخلی استحکام اور مفاہمت کے جذبے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور پارلیمان پر لازم ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ عجلت یا ضد بازی میں نہ کیا جائے۔ وزارتیں تبدیل کرنے سے کیا ہو گا ۔
ہوش‘ بصیرت‘ تحمل‘ حوصلہ‘ بردباری سے کام نہ لیا گیا تو اگلا منظر نہ صرف خوفناک ہے بلکہ خطرناک ہو گا کیونکہ باقی تبدیلیاں بھی جلد آنے والی ہیں اور یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ گھر والے خود مجرم کو شہر کا چکر لگواکر جیل چھوڑ کر آتے ہیں۔ کیا خبر یہ شہرت ہے کہ رسوائی ہے۔
فیس بک کمینٹ