احمد فراز کے ساتھ پہلی ملاقات کااحوال ہم اپنے ایک مضمون میں بہت تفصیل کے ساتھ تحریر کرچکے ہیں۔مارچ1980ء میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد جب ہم راولپنڈی گئے تو ایک روز احمد فراز سے ملاقات کیلئے پہلی باراسلام آباد کابھی سفر کیا۔فراز صاحب اس زمانے میں پاکستان نیشنل سنٹر اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے۔ ایک مختصر سی ملاقات میں ہم نے بس ان کے ساتھ مصافحہ کیا اور ان کا آٹوگراف لیکر واپس آگئے تھے۔اس کے بعد فراز صاحب کے ساتھ ایک طویل عرصہ ملاقات نہ ہوسکی۔ بعد کا زمانہ ضیاء آمریت کے عروج کا تھا ۔ احمد فراز سمیت بہت سے ترقی پسند دانشور یہ ملک چھوڑنے پر مجبورہوگئے۔فراز صاحب نے ایک طویل عرصہ لندن میں گزارا۔ہمیں کبھی کبھار ان کی کوئی تصویر ،ان کی غزل یا ان کا کوئی بیان اخبارات میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتاتھا۔پہلی ملاقات کے 14سال بعد احمد فراز سے ہماری دوسری ملاقات 1994ء میں ہوئی۔ملاقات کابہانہ وہ اہل قلم کانفرنس بنی جس کا انعقاد اکادمی ادبیات پاکستان نے کیاتھا اورجس میں ملک کے طول وعرض سے ادیبوں،شاعروں اوردانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔تین روزہ کانفرنس کے میزبان اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان تھے۔کانفرنس کی ایک نشست سے وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹو نے بھی خطاب کیا جبکہ 8اکتوبر 1994ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں اس وقت کے صدر فاروق احمدخان لغاری نے ادیبوں،شاعروں کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا۔شاکراور قمررضا شہزاد تو 1986یا 87کے دوران ہونیوالی اہل قلم کانفرنس میں بھی شرکت کرچکے تھے لیکن ہم پہلی بار اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ایوان صدر کو بھی اسی بہانے دیکھنے کا پہلی بارموقع ملا۔
ایوان صدر میں ان دنوں ملتان کے دوستوں کا راج تھا۔معروف سیاستدان اورہمارے دوست قسور سعید مرزا ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ ایوان صدر کے عہدے پر فائز تھے جبکہ نامورصحافی اوردانشور مظہر عارف بھی ان کے ساتھ ایوان صدر کے شعبہ تعلقات عامہ میں ہی اہم منصب پر فائز تھے۔مختلف ہوٹلوں سے ادیبوں،شاعروں کو بسوں میں بٹھا کر ایوان صدرلایاگیا اور معمولی سے سکیورٹی مراحل طے کرنے کے بعد تمام ادیب،شاعر ایوان صدر میں داخل ہوگئے۔ دوبرس قبل اہل قلم کانفرنس کے موقع پر ادیبوں اورشاعروں کو ایوان وزیراعظم میں داخلے کے وقت جس تذلیل کاسامنا کرناپڑا اورجس طرح ان کی طویل قطاروں کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی انہیں دیکھ کر ہمیں 1994ء کی کانفرنس بہت یاد آئی کہ ادیبوں اور شاعروں کو کس طرح انتہائی عزت و احترام اوروقار کے ساتھ ایوان صدر لے جایاگیا۔کشیدگی ا س زمانے میں بھی ہوتی تھی۔سیاسی تحریکیں بھی چلتی تھیں۔اپوزیشن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کرتی تھی اور پارلیمنٹ اور ایوان صدر کے گھیراؤ کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں لیکن اس کے باوجود سکیورٹی کے مراحل تضحیک آمیز نہیں ہوتے تھے۔ایوان صدر کے لان میں اگرچہ ادیبوں اور شاعروں کیلئے کرسیاں بھی بچھائی گئی تھیں لیکن کرسیوں پر کس نے بیٹھنا تھا سب مختلف کونوں میں گروپوں کی صورت میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بنوائی جارہی تھیں۔کیمرے اس زمانے میں آج کی طرح عام نہیں تھے۔فلمیں لوڈ کرکے انہیں ڈویلیپ کرواناپڑتا تھا۔یہ ایک مہنگا کام تھا اس لیے لوگ غیرضروری تصاویر بھی نہیں بناتے تھے۔اب مجھے نہیں یاد کہ یہ تصویر سبطین رضالودھی کے کیمرے سے بنائی گئی یا سجاد حیدر پرویز نے مہربانی کی۔لیکن مجھے یہ ضروریادہے کہ ہمیں یہ تصویربنوانے کیلئے بہت دیر انتظارکرناپڑا تھا۔فراز صاحب اپنے پرستاروں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ تصویر بنوانے والوں کی ایک طویل قطار تھی۔احمد فراز کے ساتھ تصویربنوانے کا ہمیں بھی بہت اشتیاق تھا کہ ان کے ساتھ اس سے پہلے ہماری کوئی تصویر نہیں تھی اور ہوتی بھی کیسے ۔میری ان کے ساتھ دوسری اور شاکرکی پہلی ملاقات ہورہی تھی۔طویل انتظار کے بعد ہماری بھی باری آگئی۔احمد فراز کے ساتھ ایک سے زیادہ تصویریں بنوائی گئیں۔ایک تصویر میں مَیں اور شاکر ان کے ساتھ اکیلے تھے ۔ہم نے کسی اور کو اس گروپ میں شامل نہیں ہونے دیا لیکن اور بہت سی تصاویربھی تھیں جن میں مختلف نوجوان فراز صاحب کے ساتھ موجودہیں۔یقیناً وہ تصاویران سب نوجوانوں کے پاس آج بھی موجودہونگی۔آج جبکہ احمد فراز اس دنیا میں موجودنہیں اور وہ سب نوجوان بھی نوجوان نہیں رہے۔احمد فراز کے ساتھ یہ پہلی تصویر ہم نے بہت انتظار کے ساتھ بنوائی تھی۔لیکن بعد کے دنوں میں ان کے ساتھ بہت سی تصویریں بنوانے کا اتفاق ہوا۔کئی تقریبات میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ان کے ساتھ ہم سفر ہونے کااعزاز بھی حاصل ہوا۔جس طرح اس تصویر کیلئے ہمیں قطار میں اور انتظار میں رہنا پڑا بعد کے دنوں میں بہت سے نوجوانوں کو ایسی ہی کیفیت میں دیکھااور ہم نے اپنی جگہ چھوڑ کرانہیں فرازصاحب کے ساتھ تصاویر بنوانے کا موقع بھی دیا۔ہمارے البم میں فراز صاحب کی بہت سی تصاویر موجودہیں لیکن یہ تصویر ان سب میں سب سے اہم ہے کہ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی تصویر ہے۔
اسی تصویر میں عقب میں قمررضا شہزاد اورمبشر وسیم لودھی کا عکس بھی دکھائی دے رہا ہے۔میری طرح قمررضا شہزاد کیلئے بھی یہ کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی۔وہ اس طرح کہ کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل 29ستمبر 1994ء کو قمررضاشہزاد کی شادی ہوئی تھی۔ہم اس کی بارات کے ساتھ ساہیوال گئے تھے ۔اگلے روز 30ستمبر کو کبیروالہ میں ولیمہ ہوا اور ولیمے میں اور بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ متوقع کانفرنس میں قمررضا شہزاد کی شرکت بھی زیربحث رہی۔قمر رضا شہزاد کے بارے میں بہت سے دوستوں کی رائے یہ تھی کہ اسے تو اگلے ہفتے ہنی مون کیلئے جانا ہوگا سو وہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے گا لیکن حیرت سب کو اس وقت ہوئی کہ جب قمررضا شہزاد بھی ہمارے ساتھ اسلام آباد میں موجودتھا۔شادی کے سوٹ اس کے پاس تھے ۔ہرروز دلہا بن کرکانفرنس کے سیشن میں شریک ہوتا اور ادیبوں اور شاعروں سے شادی کی مبارکباد وصول کرتا۔ایوان صدر کی اسی تقریب کے دوران جب صدر فاروق خان لغاری کو معلوم ہوا کہ کانفرنس میں ایک نوبیاہتا شاعر بھی موجودہے توان کی جانب سے قمررضا شہزاد کو شادی کاتحفہ بھی دیاگیا۔کانفرنس میں شرکت کیلئے تو ہم سب دوست ایک ساتھ گئے تھے لیکن واپسی کاسفر الگ الگ ہوا اور وہ سفر مجھے اس لیے بھی یاد ہے کہ اس کے ساتھ میری ایک تلخ یاد وابستہ ہے۔مجھے یاد ہے کہ کانفرنس کے دوسرے روز شاکر حسین شاکر ملتان واپس آگئے تھے ۔قمررضا شہزاد کانفرنس کے بعد بھی اسلام آباد میں ہی رہے کہ انہیں وہاں کچھ دوستوں کے ساتھ ملاقات کرناتھی۔میں 11اکتوبر کی صبح ملتان کیلئے روانہ ہوا ۔اب تو خیر ملتان اوراسلام آباد کاسفر موٹروے کی وجہ سے بہت آسان ہوگیا ہے ۔اس زمانے میں ابھی موٹروے تعمیر نہیں ہوئی تھی۔جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کیاجاتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں دوپہر دویا تین بجے کے قریب لاہور پہنچا ۔لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب کوچز کے جو سٹینڈ ہیں وہیں سے مجھے ملتان کیلئے کوئی بس لینا تھی ۔لاہور ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک ہوٹل پر کھانے کے دوران میرا جی چاہا کہ میں طفیل ابن گل کے ساتھ رابطہ کروں ۔طفیل ابن گل کے ساتھ میری کوئی دوتین ماہ پہلے جو ملاقات ہوئی تھی اس میں اس نے مجھے بیڈن روڈ کے کچھ ٹیلی فون نمبرز دیئے تھے اور کہا تھا کہ کبھی لاہور آؤتو ان نمبروں پر ضرور رابطہ کرنا۔میراخیال تھا کہ ابھی دوتین بجے ہیں اگر طفیل کے ساتھ رابطہ ہوجاتا ہے تو دوتین گھنٹے اس کے ساتھ گزار کر ملتان چلاجاؤں گا۔میں نے کوشش کی مگر کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔چاربجے کے قریب میں ملتان کیلئے روانہ ہوگیا۔رات بارہ بجے جب میں اپنے گھرپہنچا تو والدہ نے مجھے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں۔تم بہت دیر سے واپس آئے ۔ہم دن بھر تم سے رابطہ کی کوشش کرتے رہے۔طفیل ابن گل کا انتقال ہوگیاہے۔شام کو اس کاجنازہ تھا۔اس کے بعد انہوں نے کیا کہا مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔
ایوان صدر میں ان دنوں ملتان کے دوستوں کا راج تھا۔معروف سیاستدان اورہمارے دوست قسور سعید مرزا ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ ایوان صدر کے عہدے پر فائز تھے جبکہ نامورصحافی اوردانشور مظہر عارف بھی ان کے ساتھ ایوان صدر کے شعبہ تعلقات عامہ میں ہی اہم منصب پر فائز تھے۔مختلف ہوٹلوں سے ادیبوں،شاعروں کو بسوں میں بٹھا کر ایوان صدرلایاگیا اور معمولی سے سکیورٹی مراحل طے کرنے کے بعد تمام ادیب،شاعر ایوان صدر میں داخل ہوگئے۔ دوبرس قبل اہل قلم کانفرنس کے موقع پر ادیبوں اورشاعروں کو ایوان وزیراعظم میں داخلے کے وقت جس تذلیل کاسامنا کرناپڑا اورجس طرح ان کی طویل قطاروں کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی انہیں دیکھ کر ہمیں 1994ء کی کانفرنس بہت یاد آئی کہ ادیبوں اور شاعروں کو کس طرح انتہائی عزت و احترام اوروقار کے ساتھ ایوان صدر لے جایاگیا۔کشیدگی ا س زمانے میں بھی ہوتی تھی۔سیاسی تحریکیں بھی چلتی تھیں۔اپوزیشن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کرتی تھی اور پارلیمنٹ اور ایوان صدر کے گھیراؤ کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں لیکن اس کے باوجود سکیورٹی کے مراحل تضحیک آمیز نہیں ہوتے تھے۔ایوان صدر کے لان میں اگرچہ ادیبوں اور شاعروں کیلئے کرسیاں بھی بچھائی گئی تھیں لیکن کرسیوں پر کس نے بیٹھنا تھا سب مختلف کونوں میں گروپوں کی صورت میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بنوائی جارہی تھیں۔کیمرے اس زمانے میں آج کی طرح عام نہیں تھے۔فلمیں لوڈ کرکے انہیں ڈویلیپ کرواناپڑتا تھا۔یہ ایک مہنگا کام تھا اس لیے لوگ غیرضروری تصاویر بھی نہیں بناتے تھے۔اب مجھے نہیں یاد کہ یہ تصویر سبطین رضالودھی کے کیمرے سے بنائی گئی یا سجاد حیدر پرویز نے مہربانی کی۔لیکن مجھے یہ ضروریادہے کہ ہمیں یہ تصویربنوانے کیلئے بہت دیر انتظارکرناپڑا تھا۔فراز صاحب اپنے پرستاروں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ تصویر بنوانے والوں کی ایک طویل قطار تھی۔احمد فراز کے ساتھ تصویربنوانے کا ہمیں بھی بہت اشتیاق تھا کہ ان کے ساتھ اس سے پہلے ہماری کوئی تصویر نہیں تھی اور ہوتی بھی کیسے ۔میری ان کے ساتھ دوسری اور شاکرکی پہلی ملاقات ہورہی تھی۔طویل انتظار کے بعد ہماری بھی باری آگئی۔احمد فراز کے ساتھ ایک سے زیادہ تصویریں بنوائی گئیں۔ایک تصویر میں مَیں اور شاکر ان کے ساتھ اکیلے تھے ۔ہم نے کسی اور کو اس گروپ میں شامل نہیں ہونے دیا لیکن اور بہت سی تصاویربھی تھیں جن میں مختلف نوجوان فراز صاحب کے ساتھ موجودہیں۔یقیناً وہ تصاویران سب نوجوانوں کے پاس آج بھی موجودہونگی۔آج جبکہ احمد فراز اس دنیا میں موجودنہیں اور وہ سب نوجوان بھی نوجوان نہیں رہے۔احمد فراز کے ساتھ یہ پہلی تصویر ہم نے بہت انتظار کے ساتھ بنوائی تھی۔لیکن بعد کے دنوں میں ان کے ساتھ بہت سی تصویریں بنوانے کا اتفاق ہوا۔کئی تقریبات میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ان کے ساتھ ہم سفر ہونے کااعزاز بھی حاصل ہوا۔جس طرح اس تصویر کیلئے ہمیں قطار میں اور انتظار میں رہنا پڑا بعد کے دنوں میں بہت سے نوجوانوں کو ایسی ہی کیفیت میں دیکھااور ہم نے اپنی جگہ چھوڑ کرانہیں فرازصاحب کے ساتھ تصاویر بنوانے کا موقع بھی دیا۔ہمارے البم میں فراز صاحب کی بہت سی تصاویر موجودہیں لیکن یہ تصویر ان سب میں سب سے اہم ہے کہ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی تصویر ہے۔
اسی تصویر میں عقب میں قمررضا شہزاد اورمبشر وسیم لودھی کا عکس بھی دکھائی دے رہا ہے۔میری طرح قمررضا شہزاد کیلئے بھی یہ کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی۔وہ اس طرح کہ کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل 29ستمبر 1994ء کو قمررضاشہزاد کی شادی ہوئی تھی۔ہم اس کی بارات کے ساتھ ساہیوال گئے تھے ۔اگلے روز 30ستمبر کو کبیروالہ میں ولیمہ ہوا اور ولیمے میں اور بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ متوقع کانفرنس میں قمررضا شہزاد کی شرکت بھی زیربحث رہی۔قمر رضا شہزاد کے بارے میں بہت سے دوستوں کی رائے یہ تھی کہ اسے تو اگلے ہفتے ہنی مون کیلئے جانا ہوگا سو وہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے گا لیکن حیرت سب کو اس وقت ہوئی کہ جب قمررضا شہزاد بھی ہمارے ساتھ اسلام آباد میں موجودتھا۔شادی کے سوٹ اس کے پاس تھے ۔ہرروز دلہا بن کرکانفرنس کے سیشن میں شریک ہوتا اور ادیبوں اور شاعروں سے شادی کی مبارکباد وصول کرتا۔ایوان صدر کی اسی تقریب کے دوران جب صدر فاروق خان لغاری کو معلوم ہوا کہ کانفرنس میں ایک نوبیاہتا شاعر بھی موجودہے توان کی جانب سے قمررضا شہزاد کو شادی کاتحفہ بھی دیاگیا۔کانفرنس میں شرکت کیلئے تو ہم سب دوست ایک ساتھ گئے تھے لیکن واپسی کاسفر الگ الگ ہوا اور وہ سفر مجھے اس لیے بھی یاد ہے کہ اس کے ساتھ میری ایک تلخ یاد وابستہ ہے۔مجھے یاد ہے کہ کانفرنس کے دوسرے روز شاکر حسین شاکر ملتان واپس آگئے تھے ۔قمررضا شہزاد کانفرنس کے بعد بھی اسلام آباد میں ہی رہے کہ انہیں وہاں کچھ دوستوں کے ساتھ ملاقات کرناتھی۔میں 11اکتوبر کی صبح ملتان کیلئے روانہ ہوا ۔اب تو خیر ملتان اوراسلام آباد کاسفر موٹروے کی وجہ سے بہت آسان ہوگیا ہے ۔اس زمانے میں ابھی موٹروے تعمیر نہیں ہوئی تھی۔جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کیاجاتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں دوپہر دویا تین بجے کے قریب لاہور پہنچا ۔لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب کوچز کے جو سٹینڈ ہیں وہیں سے مجھے ملتان کیلئے کوئی بس لینا تھی ۔لاہور ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک ہوٹل پر کھانے کے دوران میرا جی چاہا کہ میں طفیل ابن گل کے ساتھ رابطہ کروں ۔طفیل ابن گل کے ساتھ میری کوئی دوتین ماہ پہلے جو ملاقات ہوئی تھی اس میں اس نے مجھے بیڈن روڈ کے کچھ ٹیلی فون نمبرز دیئے تھے اور کہا تھا کہ کبھی لاہور آؤتو ان نمبروں پر ضرور رابطہ کرنا۔میراخیال تھا کہ ابھی دوتین بجے ہیں اگر طفیل کے ساتھ رابطہ ہوجاتا ہے تو دوتین گھنٹے اس کے ساتھ گزار کر ملتان چلاجاؤں گا۔میں نے کوشش کی مگر کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔چاربجے کے قریب میں ملتان کیلئے روانہ ہوگیا۔رات بارہ بجے جب میں اپنے گھرپہنچا تو والدہ نے مجھے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں۔تم بہت دیر سے واپس آئے ۔ہم دن بھر تم سے رابطہ کی کوشش کرتے رہے۔طفیل ابن گل کا انتقال ہوگیاہے۔شام کو اس کاجنازہ تھا۔اس کے بعد انہوں نے کیا کہا مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔
فیس بک کمینٹ