برادرِ عزیز شاکرِ عزیز
پہلے تو میں نے بدھ کو تمہیں خط لکھنا چاہا مگر نہ لکھ سکا ، پھر ٹرین میں بھی مہلت نہ ملی۔ ملتان میں عجب دھندوں میں الجھا رہا۔ رات وہاں سے روانہ ہوااور آج صبح لاہور پہنچا تو تمہارا پرسوں سے آیا ہوا خط میرا منتظر تھا۔سو اس کاجواب حاضر ہے۔ باوجود اس کے کہ میری آنکھوں میں رات کی نیند باقی ہے مگر خط تو تمہیں لکھنا ہے کیونکہ بہت سی باتیں
جمع ہوچکی ہیں۔ ایسی ایسی انہونی خبریں ہیں کہ تم پریشان نہ ہوئے تو حیران ضرورہوجاﺅگے۔ پہلی خبر یہ کہ ممتاز اطہر کے ساتھ عدالت میں جاکر مقدمہ واپس لے لیا۔جمعرات کی شام ملتان پہنچا ، جمعہ کی صبح سحر صاحب کے ساتھ بھٹی کے گھر گیا جہاں ممتاز بھی آگیا۔ سحر صاحب نے گلے ملوادیئے ،حالات کاتقاضا یہ تھا کہ ہم نے بھی صلح کرلی۔ یہ 21مارچ کی بات ہے۔ 22مارچ کو عدالت میں گئے وہ بھی وہاں پہنچا اور کیس ختم ہوگیا۔ واضح ہو کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ 22اپریل کو ہواتھا (اب تم کہو گے کہ میری یادداشت بہت بہترہے،تمہاری منگنی سے لے کر قاتلانہ حملے تک ہرتاریخ یادرکھتاہوں تو بھائی ہم نے تاریخوں اور تاریخ ( History)کے سوا کچھ یاد نہیں رکھا۔ گویا یہ کیس گیارہ ماہ بعد ختم ہوگیا۔ اب میں کیا کہوں زچگی بھی صرف نو ماہ کی ہوتی ہے اس نے تو دوماہ اوپر لگادیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سوگیاتھا اب منگل 25مارچ کو خط لکھ رہا ہوں ۔ ہاں تو بات ہورہی تھی صلح کی جس پر سب حیران ہیں۔ جب صلح نامے کے کاغذات تیارہوئے تو ہماری وکیل ریاض لطیفی نے متن میں باربار ممتاز اطہر کے ساتھ ”ملزم“ کالفظ لکھا ۔ممتاز اس پر تلملا جاتا تھا لیکن ہم کہتے تھے بھائی یہ عدالتی زبان ہے ہم کیا کریں۔ حالانکہ عدالتی زبان میں لفظ فریقین بھی استعمال ہوسکتاتھا۔ اس کارروائی کے بعد ہم نسیم شاہد کے گھر بھی چلے گئے کیونکہ ایک مرتبہ وہ ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاچکا تھا۔ سو ہم نے 1986ءکو امن کاسال بنادیا۔ اسی اثناءمیں قمررضا شہزاد ملتان آگیا ۔وہ کراچی میں ترقی پسندوں کی کانفرنس میں شرکت کرکے آیا ہے۔ ”صدف “ لے کر آیا تھا ،خوبصورت چھپا ہے تمہارے ہائیکو اس میں موجودہیں۔ سحر صاحب سے کافی ملاقاتیں رہیں۔” اہل قلم“ وصول کیا ۔لاہور والوں کے لیے پرچے بھی لے آیاہوں۔ 23مارچ کو قبلہ وزیری پانی پتی سے ملاقات ہوئی ، وہ ملتان آئے تھے۔ سارا دن ان کے ساتھ گزرا۔ 23مارچ کی شام پریس کلب ملتان کے زیراہتمام مشاعرہ ہوا میں نے بھی شرکت کی۔ جب سے ملتان چھوڑا ہے پہلی باراپنے شہر میں کچھ پڑھا۔ دو تین شعر ”کب سچ بول سکیں گے“ والی غزل کے سنائے اور پھر ”بندگی کیسے کریں“ والی غزل پڑھی۔ یہ شعر سب نے باربارسنا۔
شاعری تو خوشبوئیں ہی بانٹنے کانام ہے
پھول سا سب مرجھاگئے ہیں شاعری کیسے کریں
مشاعرے میں انور جمال ،جبار مفتی اورولی محمد واجد ملے ۔ واجد صاحب تمہارا حج والا مضمون پڑھ کر ہنستے ہوئے بولے ” اونہوں کی ہوگیا اے، “ یہ تو تھا ملتان کااحوال ۔ اب لاہور آتا ہوں۔ بشری رحمان نے کل قدسیہ ہما کو ”وطن دوست“ سے نکال دیا۔ وہ دفتر میں بیٹھ کر حنا دائجسٹ کا کام کرتی تھی۔ ابھی ویسے وہ اس ماہ کے آخر تک دفتر آئے گی مگر اس کے بعد نہیں۔ بشری رحمان مجھے بھی مخاطب ہوئیں کہ اگر تمہیں بھی کہیں کوئی کام ملتاہے تو کرلو ۔۔ میں کیا جواب دیتا خاموش رہا ۔
اورسنو میں” اردو ادب کے والد“ عبدالعزیز خالد سے بھی مل آیا ہوں۔ سحر صاحب نے ان کے لیے اہل قلم کا شمارہ دیاتھا۔ تم نے مجھے غالب کاچچا قراردے دیا۔حالانکہ غالب ہم سب شاعروں کا مشترکہ چچا ہے۔ اگر احتجاجاً تم بھی غالب کاانداز اپنانا چاہتے ہو تو ، ”میاں لکھو بصدشوق تم بھی انداز میں غالب کے کہ ہم بھی اٹھاسکیں گے لطف تمہارے خط سے اوراضافہ ہو گا اس سے ہمارے علم اور تمہارے علم میں بھی ہوگا۔“
تمہارا جدہ کافون نمبرپڑھا اتنے لمبے نمبر کہاں یاد رہتے ہوں گے۔ اس سے کم اعدادو شمار تو ہمارے ہاں ریلوے کے بجٹ کے ہوتے ہیں۔ حیرت تو مجھے اعلی حضرت پیر ومرشد قبلہ وکعبتین سیدنا احمد فراز دیوبندی درشہر جدہ والی خبر پرہوئی کہ موصوف عمرہ کرنے آئے ہیں میں تو انہیں شریف آدمی سمجھتاتھاوہ بھی تم جیسے نکلے۔ کل رفیق ڈوگر سے ملاقات ہوئی وہ بتارہے تھے کہ ہوتل بابا کے بارے میں اور بھی کئی خطوط آئے ہیں۔ لو بھائی مارچ ختم ہورہا ہے اوراپریل آنے کوہے۔ اب کے تو رمضان بھی مئی میں آجائے گا۔ اور عید جون میں ہوگی۔ اسلام تبسم کو خط لکھ دینایار وہ تمہارا منتظر رہتاہے۔
والسلام
رضی الدین رضی
25مارچ1986
نئی غزل کے چند اشعار
ہونٹ تو چپ تھے برنگِ چشم نم اس نے کہا
کل جواس کے دل میں اک پنہاں تھا غم اس نے کہا
ہم محبت ساحلوں کی ریت پرلکھتے رہے
بات کم میں نے کہی اور مجھ سے کم اس نے کہا
میں نے یہ پوچھا ”تمہیں اب خوف ہے کس چیز سے “
”دل جواں ، سوچیں نئی، سچا قلم “۔۔ اس نے کہا
اپنی آوازوں سے ورنہ ہاتھ دھوبیٹھو گے تم
دشتِ وحشت میں نہ پھررکھناقدم اس نے کہا
25مارچ1986
فیس بک کمینٹ