دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
احمد فراز کا یہ شعر اصل میں میں نے افضال احمد کے لیے لکھا ہے کہ جنہوں نے کل مجھے کلیات احمد فراز بھجوا کر یہ شعر یاد کروا دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے جناب احمد فراز کی کتابیں مارکیٹ سے غائب تھیں اور ہم سن رہے تھے کہ سنگ میل پبلیکیشنز ان کا کلیات شائع کر رہا ہے اور اس سال جب ان کی برسی آ ئی تو ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد میں ان کے بیٹوں نے احمد فراز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سنگ میل پبلیکیشنز کی شائع کردہ کلیات کی تعارفی تقریب رکھی،میں ملتان میں بیٹھا اس تقریب کی تصاویر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر احمد فراز زندہ ہوتے تو اس خوبصورت کلیات کی تعارفی تقریب میں مجھے اور ملتان کے دوسرے دوستوں کو لازمی یاد کرتے ہیں لیکن میں شبلی فراز اور سعدی فراز کے ساتھ اسلام آ باد کے ان دوستوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے احمد فراز کی برسی کے موقع پر ان کے لیے ایک خوبصورت تقریب سجائی اور اپنے اپنے انداز سے جناب احمد فراز کو یاد کیا۔
احمد فراز کی شاعری سے ملاقات تو ایک زمانے سے تھی لیکن ان سے ملنے کے لیے ہم ہمیشہ یہ سوچا کرتے تھے کہ وہ کب ملتان آ ئیں اور ان سے لمبی نشست ہو ملتان میں ان سے ہماری ملاقات 1995 میں ہوئی جب ہمارے پیارے دوست قسور سعید مرزا نے ایک تقریب کی صدارت کے لیے انہیں ملتان دعوت دی،اس تقریب سے قبل ہم ان سے اسلام آباد میں اہل قلم کانفرنس میں مل چکے تھے اور اس کانفرنس کے ہر سیشن میں ان سے ملاقات کا ہم بہانہ ڈھونڈتے رہے،کانفرنس کے آ خری دن ایوان صدر میں جب ڈنر چل رہا تھا تو ہم نے احمد فراز کو ملتان آ نے کی دعوت دی جس پر ایوان صدر کے افسر تعلقات عامہ قسور سعید مرزا نے مجھے کہا شاکر بھائی احمد فراز کو ملتان لانا میرا کام ہے اور پھر آ خر کار قسور سعید مرزا ہی انہیں ملتان لانے میں کامیاب ہوئے ۔
احمد فراز کا اس زمانے میں ملتان کا بڑا بھرپور دورہ تھا جس میں انہوں نے ملتان اور شجاع آباد میں مختلف تقریبات میں شرکت کی یہاں سے جانے کے بعد ایک دن ان کے پی اے محمد صدیق کا فون آ یا کہ جناب احمد فراز اسلام آ باد سے آ پ سے بات کرنا چاہتے ہیں میں بہت حیران ہوا کہ احمد فراز صاحب کے پاس میرا نمبر کہاں سے آ گیا بعد میں معلوم ہوا احمد فراز کے سیکرٹری نے میرا فون نمبر فاؤنڈیشن ملتان کے انچارج غلام مرتضی سے لیا تھا غلام مرتضی اس زمانے میں گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کے سامنے (جہاں پر اب ملتان کتاب گھر ہے) نیشنل بک فاؤنڈیشن میں کام کرتے تھے۔اس دن احمد فراز نے مجھ سے ملتانی ٹائلز کے بارے میں معلومات لی جس کو وہ اپنے اسلام آباد والے گھر میں لگوانا چاہتے تھے ۔
کچھ عرصے بعد ہم نے احمد فراز سے رابطہ کیا اور ملتان میں منعقدہ ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ڈرتے ڈرتے دیا احمد فراز نے فوراً حامی بھری اور کہا کہ مجھے ملتان آنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے یہاں پر میرے بہت سے دوست رہتے تھے جن میں قسور گردیزی، معروف گلو کارہ ثریا ملتانکر ریڈیو پاکستان ملتان کی معروف صداکارہ عفت زکی اور عبدالرحمن پاسلوی اور دیگر شامل تھے انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ جب میں ملتان آؤں تو آ پ نے مجھے محترمہ ثریا ملتانیکر کے گھر لے کر جانا ہے میں نے فوراً کہا آپ جہاں کہیں گے ہم آپ کو لے کر جائیں گے پھر احمد فراز ملتان تشریف لائے تقریبات میں شرکت کے بعد وہ ایمرسن کالج کے سامنے نیشنل بک فاؤنڈیشن ملتان کے دفتر گئے وہاں پر انہوں نے غلام مرتضی سے کاغذ قلم مانگا اور ایک غزل کہنی شروع کر دی احمد فراز جب ملتان سے اسلام آباد روانہ ہونے لگے تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہ غزل نہ صرف غیر مطبوعہ ہے بلکہ اس غزل کے پہلے سامع بھی آپ ہو اور اب یہ غزل میں آپ کو بطور تحفہ کے دے کر جا رہا ہوں بعد میں وہ غزل ان کے ایک مجموعے کلام میں شامل ہوئی لیکن جو غزل میرے پاس موجود ہے وہ اس سے مختلف تھی جو انھوں نے اپنی کتاب میں شامل کی۔اس غزل کا عکس میری آنے والی اس کتاب میں شامل ہے جو افضال احمد اپنے ادارے سنگ میل سے شائع کر رہے ہیں ۔ جس میں احمد فراز اور ملتان کی یادوں کے حوالے سے بے شمار ایسے واقعات ہیں جو اس سے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئے ملتان میں ان کے بے شمار دوست تھے جن کے پاس وہ اپنا وقت گزارا کرتے تھے اور میرے ساتھ ان کی محبت کے معاملات کچھ اور ہی طرح کے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں دوست پبلیکیشن کے ساتھ جب اپنی کتابوں کی اشاعت کا معاہدہ کیا تو مجھے کہنے لگے کہ لاہور کے کچھ پبلشرز نے میری کتابوں کے ہزاروں کی تعداد میں ایڈیشن شائع کر کے رکھے ہوئے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ختم ہونے کو نہیں آ رہے ان کا اشارہ اپنی کتابوں کے ان ایڈیشنز کی طرف تھا جو کتابی سائز میں لاہور سے دو ادارے شائع کر رہے تھے اسلام آباد میں جب انہوں نے آصف محمود سے اپنی کتابوں کی اشاعت کا معاہدہ کیا تو انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ان کی کتابوں کے خوبصورت ایڈیشن کی تعریف کی کیونکہ شاید پہلی مرتبہ اچھے کاغذ ،حروف کی عمدہ پروف ریڈنگ کی وجہ سے غلطیوں کے بغیر اور خوبصورت سرور ق کے ساتھ جب ان کی کتابیں پورے پاکستان میں ہر بک سٹور پر دکھائی دینے لگی تو وہ بہت خوش ہوئے، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے لاکھوں نہیں کروڑوں دلوں پر حکمرانی کی۔ انتقال کے بعد ان کی کتابیں آہستہ آہستہ مارکیٹ سے غائب ہونے لگی اور پھر دوست پبلیکیشن اسلام آباد نے بھی ان کی کتابوں کو شائع کرنے میں دلچسپی نہ لی ایسے میں ان کے بیٹوں شبلی فراز اور سعدی فراز نے پاکستان کے سب سے معتبر اور بڑے ادارے سنگ میل پبلیکیشنز سے رابطہ کیا اور پھر جناب افضال احمد ،علی اعجاز اور ایاز احمد نے مل کر احمد فراز کے شایان شان ایک ایسا کلیات شائع کیا جو پاکستان کی پبلشنگ کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ خوبصورت جلد، بڑا سائز ،ملائم پیپر اور سنگ میل کا روایتی لمیٹڈ ایڈیشن جسے دیکھ کر ہر ایک کا دل چاہے کہ اسے اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیا جائے ۔
کلیات کے آغاز میں جناب احمد فراز کے بیٹوں کی طرف سے کچھ باتیں کی گئی ہیں اور پھر ان کی 13 کتابوں کو جس انداز سے اکٹھا کر کے شائع کیا گیا میں تو یہی کہوں گا پاکستان کی پبلشنگ کی تاریخ میں سب سے خوبصورت کتاب اگر کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو وہ کلیات احمد فراز ہے جس کو سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ایک ایسی کتاب جس کو ہر لائبریری میں ہونا چاہیے اور ہر صاحب ذوق کے گھر کا حصہ بننا چاہیے جو شخص اچھی شاعری کا شائق ہے اس کے پاس یہ کتاب ہونی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسی کتابیں بلکہ ایسی خوبصورت کتاب کبھی کبھار شائع ہوتی ہیں اس کلیات کی اشاعت پر میں پیر و مرشد احمد فراز کے بچوں کا اور سنگ میل کے ان تمام افراد کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہم سب کے لیے 2023 کا ایک نادر و نایاب تحفہ شائع کیا جس کا ہم کئی برسوں سے انتظار کر رہے تھے اخر میں ہم آ پ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس کلیات کی قیمت 9 ہزار روپے ہے بظاہر اس کی قیمت ہمیں زیادہ لگتی ہے ۔ لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ اگر آج ہم کسی برانڈ کا اچھا سا سوٹ لینے جائیں تو وہ بھی 20، 25 ہزار سے کم نہیں ملتا اور چار دوست اگر ون ڈش کے لیے کسی اچھے ہوٹل کا انتخاب کریں تو اس کا بل بھی 10 ہزار سے کم نہیں بنتا ایسے میں اگر نو ہزار روپیہ خرچ کر کے اآپ ایک خوبصورت کتاب کے مالک بن جائیں تو یہ قطعا خسارے کا سودا نہیں ہے شکریہ سنگ میل ہبیلی کیشنیز، اپ نے ہمیں اتنا قیمتی تحفہ عطا کیا جس کے ہم ایک عرصے سے منتظر تھے ۔
فیس بک کمینٹ