یہ کسی گوٹھ ،دیہات،قصبے یا گاﺅں کا قصّہ نہیں بلکہ کہانی ہے چھ صدیوں سے آباد ڈیرہ غازی خان کی،یہ مہذب دنیا سے کٹی ہوئی کسی وادی کی داستان بھی نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے جسم سے رستے زخموں کا لہو ہے کہ جو چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے،یہ اس شہر کا المیہ ہے جس کے بغیر نہ کبھی ملکی سیاست مکمل ہوئی اور نہ ادب و ثقافت کے نقوش نکھر سکے،یہ جنوبی پنجاب کے مری، فورٹ منرو سے عدم توجہی کا درد نہیں اور نہ ہی کوہ سلیمان سے آتی اور ضائع ہوتی رودکوہیوں کی آپ بیتی ہے،یہ موٹر ویز کے شور اور سی پیک کے روٹ کے جشن میں گم گشتہ مظفر گڑھ سے ڈیرہ غازی خان تک کے سنگل روڈ کی خونچکاں داستان بھی نہیں اور نہ ہی تونسہ بیراج پر کئی عشروں سے بننے کے منتظر پاور ہاﺅس کی کُوک ہے،یہ نہ تو شہر بھر میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی سڑاند کی بات ہے اور نہ ہی سڑکوں کے اطراف گرین بیلٹ کی عدم موجودگی کی چیخ ہے،یہ نہ کوئٹہ روڈ پر آئے روز رستہ بلاک کردینے والے ٹرک اڈے کا معاملہ ہے اور نہ ہی کسی دوسرے خود ساختہ مسئلے کی نشاندہی ہے، بلکہ یہ تو شہر کے قلب میں واقع اجڑتے، جنگل بنتے غازی پارک کا نوحہ ہے،وہ غازی پارک کہ جو وجود رکھتے ہوئے بھی عدم آباد ہو چکا ہے،جنگل کا منظر پیش کرتی گھاس اور جھاڑیاں، بند پڑے جھولے، تباہ حال راستے، کروڑوں کی رُلتی مشینری،عملے کے نام پر محض ٹکٹ وصول کرتا چوکیدار، خورد و نوش کے بند پڑے منہ چڑاتے سٹالز،بھٹکتے ہوئے آ نکلنے والے شہری،کثرت سے پائے جانے والے حشرات اور جانور ہی اس پارک کا تعارف ہیں۔اگر رسائی کے لحاظ سے دیکھیں تو اس وقت شہر میں غازی پارک کو شہر کے وسط میں کہا جا سکتا ہے،ایک بڑی آبادی یہاں تک پیدل آ سکتی ہے،اس کے باوجود اس پارک کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ماڈل ٹاون میں ایک نیا پارک آباد کیا گیا جو شہر سے باہر ہے اور شہر کے کسی بھی بلاک کی رسائی میں نہیں،غازی پارک کا ٹوٹا پھوٹا داخلی گیٹ آغاز سے ہی اپنے ماتھے پر لکھی تباہی کی داستان سناتا محسوس ہوتا ہے۔ غازی پارک میں قیمتی جھولے ،ٹرین وغیرہ موجود تو ہیں لیکن نہ انہیں آپریٹ کرنے والا موجود ہے اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کرنے والا،پورے پارک میں پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں،بند سٹالز گئے دنوں کی کہانی بیان کرتے نظر آتے ہیں جب یہاں رونق ہوا کرتی تھی مگر اب تو صحرا کی سی ویرانی ہے،کبھی کبھار کوئی صنعتی نمائش لگا کر اس پارک سے فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے مگر اس کے بعد سنجیاں گلیاں اور مرزا یار کی دشت نوردی ہی اس پارک کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ اس پارک کو ختم کر کے اس میں ہسپتال بنانے کے منصوبے ہیں،دنیا کی کسی بھی مہذب قوم نے ایسا مذاق کیا ہے کہ پارک ختم کر کے کوئی اور منصوبہ بنایا ہو؟ پارک کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی لاءکالج کو دیا جا چکا ہے جس کے خلاف نہ تو کسی سیاسی شخصیت نے آواز بلند کی اور نہ ہی کسی سماجی شخصیت نے مطالبہ کیا،نوکر شاہی تو محض احکام بجا لانے کی پابند ہوتی ہے،ان باتوں پر غور کریں تو پارک کے انہدام کے منصوبے کی افواہوں اور خدشات کو تقویت ملتی ہے۔پارک میں لگے تین جھولے نہ چلانے کا حکم انتظامیہ کی جانب سے صادر کیا گیا ہے،وجہ اس ”تدبیرِ بے پایاں“کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ ساہیوال کے ایک پارک میں کشتی نما جھولا ٹوٹ کراسی سال جولائی میں گرا جس سے چالیس افراد زخمی ہوگئے،بس پھر کیا تھا،پنجاب کے تمام پارکس میں ایسے تمام جھولے بند کر دیے گئے جو لاکھوں کی لاگت سے لگائے گئے تھے مگر گر کر نقصان پہنچا سکتے تھے،نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری،ایسے حل وطنِ عزیز میں ہی نظر آتے ہیں،کاش ایسا ہی کوئی حل قومی ائر لائن بھی سوچ لیتی تو واقعی کافی فائدہ ہو جاتا۔پارک میں کچھ اور ہو نہ ہو حشرات اور آوارہ کتے بلیاں کافی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں اور رونق لگائے رکھتے ہیں۔ایک گراونڈ میں کپڑا ڈال کر پارک کی گئی گاڑیاں بتاتی ہیں کہ چوکیدار کی آمدنی کا ذریعہ تو بنا ہی ہوا ہے۔غازی پارک کے اجڑنے کی وجہ سے عوام مجبوراً چڑیا گھر کا رخ کرتی ہے جہاں گنتی کے چند پرندے اور خالی پڑے پنجرے دیکھ کر جی بہلا لیتی ہے مگر چڑیا گھر تک جانا بھی رکشے یا ذاتی سواری کے بغیر ممکن نہیں،کیا ہی اچھا ہوتا کہ غازی پارک کی صفائی،عملے،سٹالز،سہولیات پر توجہ دی جاتی،عوام کاا عتماد بحال کیا جاتا،اسے ایک عمدہ تفریح گاہ کا روپ دیا جاتا، عوام کے لئے تفریح اور حکومت کے لئے آمدنی کا ذریعہ پیدا ہوتا،جب نجی شعبہ مظفر گڑھ عبور کر کے چناب پارک بنا کر ڈیرہ غازی خان تک کی عوام کو وہاں تک کھینچ سکتا ہے تو اربابِ اختیارکو ایسے منصوبے دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟مگر عوام کے لئے کون سوچے؟کون غازی پارک کی افادیت اور ضرورت کو ثابت کرے ؟جون ایلیا نے کہا تھا
کس کو فرصت ہے
کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ
میرا وجود
زندگی کے لئے ضروری ہے!!
فیس بک کمینٹ