1972ءکے اوائل کا ذکر ہے۔ ہم نئے نئے ملتان میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ 1971ءکے دسمبر میں ملک دو لخت ہوا اور زخم ابھی تازہ تھے۔ ہماری رہائش گاہ چھائونی سے قریب ہی تھی اور جنگ کے باعث بند کالج ابھی کھلے نہ تھے لہٰذا دن بھر سیر و تفریح میں وقت گزرتا تھا۔ اخبارات اور رسائل میں جنگ کے واقعات اور شہداءکے حالاتِ زندگی پڑھ کر عسکری معاملات میں دلچسپی عروج پر تھی۔ یوں بھی تازہ تازہ جنگ اور مشرقی پاکستان کھو دینے کے بعد قومی جذبہ بیدار تھا اور وطن پر جان قربان کر دینے کا عزم جوان تھا۔ دن بھر چھائونی میں آلاتِ حرب اور ہوائی اڈے پر جنگی طیاروں کی آمد و رفت کا جائزہ، محاذ سے واپس آنے والی یونٹوں کا ہاتھ ہلا ہلا کر استقبال روزمرہ کے معمولات تھے۔
کینٹ بورڈ سکول کے کونے پر سی ایم ایچ کے پرانے گیٹ کے سامنے جو سڑک مارکیٹ کی طرف جاتی ہے وہاں سنگ مرمر کی ایک تختی پر ”میجر ضیاءالدین اوپل شہید روڈ“ درج تھا۔ میجر ضیاءالدین اوپل 1965ءکی جنگ میں شہید ہوئے تھے اور یہ سڑک ان کے نام سے موسوم تھی۔ مَیں روزانہ چھائونی کی طرف جاتے ہوئے اس تختی کو نہایت عقیدت سے دیکھتا اور فخر محسوس کرتا تھا کہ 1965ءکی جنگ کے ایک ہیرو کا تعلق اس علاقے سے ہے۔
ایک روز اخبار میں اشتہار چھپا کہ فلاں دن ایوب سٹیڈیم میں جانباز فورس کے لیے رضاکاروں کا چنائو ہو گا۔ مَیں اگرچہ کامرس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اس کے باوجود فوج میں کمیشن حاصل کرنے کا خواہشمند تھا۔ یہ کمیشن تو نہ تھا مگر مَیں جذبات سے مغلوب مقررہ دن اور وقت پر مذکورہ مقام پر پہنچ گیا۔ راستے میں ”میجر ضیاءالدین اوپل شہید“ کے نام کی تختی کا نہایت تقدس سے مشاہدہ کرتے ہوئے گزرا۔ ایوب سٹیڈیم میں ایک صوبیدار ہاتھ میں رجسٹر تھامے کھڑا تھا مگر کوئی بھرتی کا خواہش مند موجود نہ تھا۔ ذرا دیر میں ایک میجر صاحب سکوٹر پر نمودار ہوئے اور صوبیدار سے پوچھا
”ابھی کوئی نہیں آیا؟“
”بس ایک یہی آیا ہے۔“ صوبیدار نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ہوں“ میجر صاحب نے ایک زرد رو دبلے پتلے نوجوان پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور مایوس کن انداز میں سکوٹر کا گیئر لگایا اور روانہ ہو گئے۔ صوبیدار صاحب نے بھی رجسٹر سائیکل کے کیرئیر میں پھنسایا اور رخصت ہونے لگے اور یوں جانباز فورس میں میری بھرتی نہ ہو سکی۔ واپسی پر مَیں بطور خاص میجر ضیاءالدین اوپل شہید روڈ پر اپنی دانست میں ان کی کوٹھی تلاش کرتا رہا۔ پہلے سکول کی دیوار، دکانیں، کینٹ مارکیٹ اور بازار آیا، مگر مجھے ان کی رہائش گاہ نہ ملی۔ اور اگر مل بھی جاتی تو بابو محلے میں ریلوے کے ریٹائرڈ ہیڈ کلرک شیخ عبدالکریم سے شاید ملاقات ہو جاتی جو پچھلے چند برسوں میں اپنے دو جوان بیٹوں کی جدائی سے دل گرفتہ ہوتے۔ رضی الدین رضی اس دور میں آٹھ برس کے کمسن ”رضی“ تھے۔ مجھے بہرحال شہید کے خاندان سے نہ ملنے کا قلق رہا۔ پھر اس سڑک پر سے وہ تختی بھی غائب ہو گئی اور جذبے بھی مدھم پڑ گئے۔ رضی الدین رضی کی 2012ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”رفتگانِ ملتان“ میں ان کا مضمون ”پہلا جنازہ“ پڑھا تو سب یادیں تازہ ہو گئیں۔
رضی الدین رضی نے ”پہلا جنازہ“ میں اپنے والد محترم شیخ ذکاالدین اوپل کا جواں عمری میں سڑک کے ایک اندوہناک حادثے میں انتقال کا تذکرہ کیا ہے جبکہ خود ان کی عمر صرف ساڑھے تین برس تھی۔ اس واقعے سے لگ بھگ تین برس قبل ان کے تایا میجر ضیاالدین اوپل 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ ان دو واقعات نے ان کے دادا شیخ عبدالکریم کو ضعیف العمری میں المناک دکھ درد سے دوچار کر دیا تھا۔ اس مضمون میں رضی الدین رضی نے اپنے جذبات کا جس طرح اظہار کیا ہے ان کی دکھ اپنی ذات میں سمو لینے کی اہلیت، معاشرتی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کا سبق واضح ہے۔ اس جہدِ مسلسل میں رضی الدین رضی نے تعلیم مکمل کی، معاشی طور پر مستحکم ہوئے اور ادبی دنیا میں ایک مقام حاصل کیا۔
رضی الدین رضی سے غائبانہ تعارف تو بہت پہلے سے تھا۔ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی نے لگ بھگ نصف صدی کی اہم اخباری شہ سرخیوں پر مبنی پاکستان کی تاریخ کی ایک کتاب مرتب کی، دونوں کی تصاویر کتاب کے عقب میں چھپی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ مارچ 2008ءمیں میری ایک کتاب ”پیش رفت“ کی تقریب رونمائی پر رضی الدین رضی نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔ اس روز اس تقریب سے چند گھنٹے قبل پرویز مشرف نے صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور اس تناظر میں رضی الدین رضی کا تاریخی فقرہ بہت پسند کیا گیا کہ:
”آج طلعت جاوید کی کتاب کی رونمائی کا دن ہے اور پرویز مشرف کی منہ چھپائی کا دن“
یہ جمہوریت سے ان کے لگائو اور آمریت سے نفرت کا غماز تھا۔ پچھلے بیس برسوں میں رضی الدین رضی سے مختلف محفلوں اور اجتماعات میں بارہا ملاقاتیں رہیں مگر شاکر حسین شاکر کے برعکس ان کے ساتھ تکلف کا رشتہ بدستور حائل رہا۔ شاید ان کے قریبی دوستوں کی رائے مختلف ہو مگر مجھے وہ بھری محفلوں میں بھی کھوئے کھوئے اور تنہا سے لگے۔ انہیں دیکھ کر نجانے کیوں مجھے منیر نیازی کا
”عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی“
والا شعر یاد آنے لگتا ہے۔ رضی الدین رضی پائے کے نثرنگار اور خوبصورت جذبوں کے شاعر ہیں۔ لگ بھگ 16 کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے چار شاعری کی ہیں۔ رضی الدین رضی مختلف اخبارات اور ٹیلیویژن چینلوں کے ساتھ بھی وابستہ رہے ہیں اور یوں کہ حالات اور واقعات پر اپنی مخصوص نقطہ نظر سے وضع ہونے والی رائے کو کسی دبائو سے متاثر نہیں ہونے دیا۔ ملتان سے باہر گئے تو لاہور کی دشت نوردی کے بعد اچھے ملتانیوں کی طرح واپس لوٹ آئے۔ وہاں بھی رت جگے کیے، فاقے کاٹے، بھوک کو کڑک چائے کی پیالیوں سے مارا۔ رات رات بھر گلیوں کی خاک چھانی، پارکوں میں بسیرا کیا اور اس جرم میں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہوتے بچے۔ غرض رضی الدین رضی نے ہر اچھے قلمکار کی طرح خود کو ناموزوں حالات کی کٹھالی میں ڈھالا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کاش ”لوہا منوایا“ محاورہ ”سونا منوایا“ ہوتا جو ان کی جدوجہد کے تناظر میں زیادہ موزوں ہے۔
رضی الدین رضی کا ایک اہم کارنامہ جس کا شاید انہیں خود بھی ادراک نہیں ان کی دو کتابیں ہیں ”وابستگانِ ملتان“ اور ”رفتگانِ ملتان“۔ یہ مضامین کے مجموعے لامتناہی سلسلے ہیں جن میں ہر نئے ایڈیشن کے ساتھ ”وابستگانِ ملتان“ کے مضامین میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور کچھ مضامین ”وابستگانِ ملتان“ سے ”رفتگانِ ملتان“ میں منتقل ہوتے چلے جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ