احمد فراز نے جب تواتر سے ملتان آنا شروع کیا تو ان کے چاہنے والوں نے ان کو ہمیشہ مصروف رکھا۔احمد فراز خود بھی اپنے مداحین میں وقت گزار کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ اگر اُن مداحین میں خواتین ہوتیں تو یہ معاملہ دوآتشہ ہو جاتا۔ ملتان کے ہر مشاعرے کے اختتام پر وہ خواتین میں گھِر جاتے، کوئی ان سے آٹوگراف لیتی، کوئی انہی کی کتاب پر اپنا نام لکھواتی ۔ کہیں تصویریں بنوائی جاتیں تو کوئی ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی ۔ ایک مرتبہ احمد فراز نے مجھ سے کہا شاکر مَیں ملتان کی دو شخصیات سے ملنے کے لیے ان کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ پہلا نام انہوں نے نامور گلوکارہ ثریا ملتانیکر کا لیا اور دوسرا نام ریڈیو ملتان کی نامور آواز عفت ذکی کا۔ ثریا ملتانیکر سے ان کا تعلق بہت پرانا تھا اور وہ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے مختلف پروگراموں میں اکٹھے ہوتے تھے ۔ ثریا ملتانیکر اُن سے شاعری سنتیں اور احمد فراز ان سے اپنے پسندیدہ گیت۔ عفت ذکی کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ ملتان میں فیض احمد فیض کی میزبان تھیں اور فیض صاحب ان کے ہاں ٹھہرنا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے کہ عفت ذکی ایک طرف ان کی مداح تھیں تو دوسری طرف وہ اپنی خوبصورت آواز میں جب فیض صاحب کا کلام پڑھتیں تو سب کو بہت بھلا لگتا۔ احمد فراز نے ہی بتایا کہ وہ کئی مرتبہ فیض صاحب کے ہمراہ اُن کے ہاں ٹھہرے ہیں۔ وہ ان دونوں شخصیات سے مل کر پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہتے تھے۔
ایک مرتبہ جب ملتان آئے تو فراز صاحب نے آتے ہی کہا اس مرتبہ مجھے میڈم ثریا ملتانیکر کے گھر لازمی جانا ہے۔ مَیں نے میڈم سے رابطہ کیاتو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ اُن دنوں میڈم اپنے نئے گھر نیو شالیمار کالونی میں منتقل ہوئی تھیں اور وہ علاقہ ابھی آباد ہو رہا تھا۔ بہرحال مَیں، احمد فراز اور رضی الدین رضی ڈھونڈتے ڈھونڈتے میڈم کے گھر پہنچ گئے جہاں پر ان کی بیٹی راحت ملتانیکر نے ہمارا استقبال کیا۔ محترمہ ثریا ملتانیکر احمد فراز کو اپنے گھر دیکھ کر پھولے نہ سما رہی تھیں۔ انہوں نے پُرتکلف چائے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اور ان کے بچوں کے پا¶ں خوشی سے زمین پر نہ لگتے تھے۔ وہ احمد فراز کے قریب بیٹھ کر ان تمام یادوں کو سن رہے تھے جس کو ثریا ملتانیکر اور احمد فراز یاد کر رہے تھے۔ یہاں پر بھی ان کے بچے اپنے ہاتھوں میں آٹوگراف بکس لیے موجود تھے۔ احمد فراز خوشی خوشی ان پر اپنے اشعار لکھ کر دے رہے تھے۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے فراز صاحب نے عفت ذکی کا تذکرہ کیا کہ ان سے ملاقات کب ہو گی۔ اس دوران مَیں ان کا پتہ کر چکا تھا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے کے لیے ملک سے باہر تھیں۔ سو احمد فراز جب تک ملتان آتے رہے ان کی پھر محترمہ عفت ذکی سے ملاقات نہ ہو سکی۔
جیسا کہ مَیں پہلے بتا چکا ہوں پوری دنیا کی طرح ملتان میں بھی اُن کے چاہنے والوں میں خواتین کی تعداد ہمیشہ رہی۔ 1995ءکی بات ہے کہ میرے پاس مقامی سکول کی ٹیچر اپنا شعری مسودہ لے کر آئیں اور کہا اس کو شائع کرنا ہے۔ مَیں نے مسودہ دیکھا اور کہا پہلے آپ کسی استاد شاعر کو دکھا دیں تاکہ اس میں اوزان کی غلطیاں درست ہو سکیں۔ اس نے کہا کہ مَیں ملتان میں کسی بھی شاعر کو نہیں جانتی۔ مَیں نے شاعرہ کو عاصی کرنالی صاحب کے پاس بھجوایا۔ عاصی صاحب نے مناسب معاوضہ لے کر اس کا مجموعہ اشاعت کے قابل کر دیا۔ اب صورت یہ ہوئی کہ اس شاعرہ نے کہا کہ یہ کتاب مجھے پندرہ دن کے اندر اندر شائع کر دیں کیونکہ مَیں نے سنا ہے آنے والے دنوں میں احمد فراز ملتان ہوں گے اور مَیں ان کو اپنا شعری مجموعہ دینا چاہتی ہوں۔ اس شاعرہ نے برقعہ پہن رکھا تھا اور چہرہ بھی نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔ شاعرہ کی عمر اس وقت بمشکل 20، 22 سال ہو گی۔ مَیں نے حسبِ وعدہ 15 دن کے اندر کتاب شائع کر دی۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ احمد فراز سے ملاقات کیسے کرے گی؟ کیونکہ وہ آج تک کسی بھی مشاعرے میں نہ تو شریک ہوئی تھی اور نہ ہی اس کو ملتان کے کسی ادیب شاعر کا علم تھا۔ کتاب شائع ہونے پر وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے بعد شاعرہ نے مجھ سے پوچھا احمد فراز کب ملتان آ رہے ہیں۔ مَیں نے بتایا ان کی آمد اگلے ہفتے متوقع ہے۔ اس نے مجھے پابند کیا کہ احمد فراز جس تقریب میں آ رہے ہیں اس کا دعوت نامہ مجھے لازمی دیا جائے۔ اب میرے لیے یہ لازم ہو گیا تھا کہ مَیں احمد فراز کی آمد پر اس شاعرہ کو لازمی دعوت دوں جس نے احمد فراز کی آمد سے پہلے اپنا شعری مجموعہ شائع کروا لیا۔
پیر ریاض حسین قریشی نے انجمن ادب و ثقافت ملتان کے زیرِ اہتمام 22 دسمبر 1995ءکو رمادا میں (جو اُن دنوں ہالیڈے اِن تھا)شام کا اہتمام کیا۔ اور مَیں نے اس شاعرہ کو اُس شام میں آنے کی دعوت دے دی۔ نوآموز شاعرہ اپنے ہاتھ میں شعری مجموعہ لے کر خواتین کے حصے میں بیٹھی تھی۔ تقریب شروع ہوئی تو مَیں نے دیکھا وہ شاعرہ اپنے کیمرے سے احمد فراز کی تصاویر بنا رہی تھی۔ بھرپور تقریب کے اختتام پر پھر وہی منظر دیکھنے کو ملا جو ہر مرتبہ مَیں دیکھتا تھا کہ احمد فراز خواتین کے جھرمٹ میں گھرے ہوئے ہیں اور اس وقت انہیں وقت کے گزرنے کا احساس نہ ہوتا تھا۔ ایسے میں مجھے کشور ناہید کا لکھا ہوا وہ خاکہ یاد آیا جس میں انہوں نے احمد فراز کے بارے میں لکھا:
”فنون کے دفتر سے ملاقات گھروں تک پہنچی۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ مجھ سے بھی زیادہ احمد فراز کی یوسف کامران سے دوستی ہو گئی۔ سبب بھی مناسب تھا۔ ارغوانی شام اور مہتابی چہروں کے درمیان، یہ دونوں آپس میں مل کر خوب چہکتے تھے۔ کبھی کبھی مجھ سے چھپ کر، بلکہ میرے دفتر جانے کے بعد، کبھی کوئی خوش رو اور کبھی برقع میں لپٹی خاتون گھر آتی، گفتگو ہوتی، کبھی یوں ہوتا کہ دونوں رات گئے واپس لوٹتے تو جوتے اتار کر، دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوتے، آہٹ سے میری آنکھ کھل جاتی، ہنسی ہنسی میں اور کبھی غصے میں بات ٹل جاتی۔
رائل پارک کے گھر والے زمانے میں فراز کو فلموں میں لکھنے کا شوق ہوا تھا۔ اسی شوق میں ایک ایسی ماہ روئے عشق بھی تھی جس کا دروازہ ماڈل ٹا¶ن میں کھلتا تھا۔ اس کی آواز میں ایک فلم کے لیے فراز نے گانا بھی لکھا مگر ہر فلمی اماں کی طرح اس خاتون کی اماں بھی ظالم سماج بن کر سامنے آ گئی۔ اس کے باوجود ٹیلیویژن والوں نے فراز کو سامنے بٹھا کر اس خاتون سے کئی غزلیں ریکارڈ کیں اور یہ پروگرام ٹیلیویژن پر چلا۔
ایک دفعہ احمد فراز کے جانے کے بعد ٹیلیفون کے بل میں کوئٹہ کے لیے ہر روز بکنگ ملی یوسف نے کہا چپ کرو، مَیں چپ ہو گئی فراز سے خود پوچھ لیا اور کچھ عرصے بعد اس خاتون سے ملاقات ہو گئی۔ صادقین کی اوپن ایئر تھیٹر گیلری میں وہ آئی تھی۔ معلوم ہوا کہ کوئٹہ سے لاہور آ گئی ہیں۔ اب تو چاہے ابنِ انشا ہوں کہ فیض صاحب، صادقین ہوں کہ احمد فراز کہ محمد طفیل ہر کسی کا کعبہ اُدھر ہی ہوتا۔
احمد فراز کی زندگی میں آخر ایک موڑ ایسا آ ہی گیا کہ فراز کو فرحت علی جیولرز کی دکان سے ساڑھی اور انگوٹھی خریدنی پڑی۔ ہرچند کئی دفعہ وہاں سے گزرتے ہوئے فراز نے یہ ارادہ کیا مگر اس دفعہ ارادے نے نکاح کی کمند ڈال دی اور یوں فراز کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو گیا۔ اپنی تعریف سننا کس کو اچھا نہیں لگتا مگر فراز کو وہ محفل نہیں بھاتی جہاں دوسروں کے بارے بات کی جائے۔ ہر وقت توجہ کا طلب گار شخص بے ایمان نہیں البتہ عورت کے بارے میں نیت خراب رکھنے کی عادت کو وہ چھپاتا نہیں ہے۔ کسی محفل میں جتنے لوگ بھی شریک ہوں ان میں اگر خواتین کوئی بھی فرمائش کرے تو وہ تازہ غزل سنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
مَیں جس گھر میں بھی رہی ہر جگہ احمد فراز اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے۔ ان تمام گھروں میں مختلف ناموں کی لڑکیوں کے فون بھی آتے تھے۔ کچے عشق کی ماری یہ لڑکیاں سمجھتی تھیں کہ اب ان کے گھر ڈھولکی رکھ دی جائے گی۔ اسی تمنا میں وہ تلاش کرتی اپنے محبوب شاعر کو ایک ایسے شخص کے روپ میں جس کا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔“
جب مَیں یہ خاکہ پڑھ رہا تھا تو مجھے یہ کتاب لکھتے ہوئے ملتان کی وہ نوآموز شاعرہ یاد آگئی جس نے کچھ سالوں بعد فروری کی 15 تاریخ کو مجھے فون کر کے یہ بتایا کہ شاکر صاحب مجھے میرا محبوب مل گیا ہے۔ اس مرتبہ مَیں نے 14 فروری اپنے ویلنٹائن کے ساتھ گزارا۔ مَیں نے نام پوچھا اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ آپ وہ نام سننے کے بعد غصہ نہیں کریں گے او رمجھے کوئی لیکچر نہیں دیں گے۔ مَیں نے وعدہ کیا تو اس نے آہستہ سے احمد فراز کا نام لیا۔ یہ نام سنتے ہی مَیں نے یقین کر لیا کہ احمد فراز نے یقینا اس شاعرہ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہو گاکہ احمد فراز نے اُس شاعرہ کی ایک کتاب کی رونمائی میں نہ صرف بطور صدرِ محفل شرکت کی بلکہ اس کی عامیانہ شاعری کو یہ کہہ کر سراہا کہ آغاز میں لڑکیاں اسی قسم کی شاعری کیا کرتی ہیں اور مجھے اس شاعرہ سے بڑی اُمیدیں ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں ایک اچھی شاعرہ کے طور پر سامنے آئے گی۔(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ