عمران پاشا اردو ادب کے طالب علم ہیں ڈان نیوز میں کام کرتے ہیں ۔۔ تارڑ صاحب کے حوالے سے ان کا یہ کالم بتاتا ہے کہ ان کا کتاب کے ساتھ کتنا مضبوط تعلق ہے ۔ ’گرد و پیش ‘ میں ان کا پہلا کالم یقینی طور پرآپ کو ان کا مستقل قاری بنا دے گا (رضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کی جھلسا دینے والی دوپہرکی تپش،آک کااکلوتابُوٹابرداشت نہ کرسکاتواُس کے ڈوڈے نے اپنامنہ کھول دیا۔منہ کھلنے کی دیرتھی کہ مائی بوڑھی اپنے نرم و ملائم پروں کو وا کرتی اس میں سے برآمد ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کی وسعتوں میں اڑنے لگی۔اس کڑی دوپہر میں کہ جب چڑیاں تک اپنے گھونسلوں میں دُبک گئیں،وہ اسی لمحے کا منتظرکڑکتی دھوپ میں بیٹھا تھا۔مائی بوڑھی کو پکڑنے کا جنون ہی تھاجو اس سخت موسم میں بھی اسے کسی سایہ دار جگہ پرجانے سے روک رہاتھا۔اب جو دل کی مراد بھر آئی تو جیسے اس کے روئیں روئیں میں بجلیاں بھرگئیں اور وہ مائی بوڑھی کو پکڑنے کے لیے دیوانہ وار اس کا پیچھا کرنے لگا۔ایک کے بعد ایک منظر بدلنے لگالیکن مائی بوڑھی کاسفر ختم ہورہا تھانہ اس کاجنون دھیماپڑ رہاتھا۔ارے یہ کیا۔۔۔۔ یہ کون لوگ ہیں جوکلہاڑیاں اور برچھے اٹھائے ایک مردارپر پَل پڑے ہیں۔اُس شخص کو تو دیکھوجومردہ جانور کی ٹانگ کاٹتے کاٹتے اپنی ٹانگ زخمی کربیٹھا ہے۔اُدھر دوبچے کچے پکے نیولے کازیادہ حصہ لینے کے لیے چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں اورمردکیکر کے سَک کی کڑوی شراب پینے کے بعدبدمست ہوکرجھوم رہے ہیں۔اخ تھوہ ۔۔۔۔ کو ن ہیں یہ کُڑی ۔۔یہ کرخت آواز کس کی ہے،آخر تویہ بھی ایک مرا ہوا مرغا حاصل کرنے کے لیے فقیر بنا کسی دروازے پرکھڑا ہے،پھر اکڑ کیسی۔اور اُس کو تو دیکھو جو اپنی یاری نبھانے آرہاہے۔اپنی بیوی اور دو بچوں کو یار کے حوالے کرنے کہ بیوی اُس کے یار کی عاشق ہوگئی ہے۔کہیں دور ماہلو اپنی پینگ پر ہلارے لیتی میٹھے سروں میں پیار بھرے گیت گاکرکانوں میں رس گھول رہی ہے۔مائی بوڑھی اور اُس کے درمیان فاصلہ کبھی گھٹتاہے اور کبھی بڑھ جاتا ہے لیکن پیچھابدستورجاری ہے۔وہ ابھی تک اُس کے ہاتھوں کی پہنچ سے دورہے مگر نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی۔مشکل ہزار سہی پر نظروں کا حصار ہی تو ہے جو اسے اپنا ارادہ ترک نہ کرنے پر مجبور کررہاہے۔ابھی وہ سانپوں کی لہلہاتی فصل سے بچ کرنکلا ہی تھاکہ جہازوں کی ٹکر سے ریزہ ریزہ ہوتی بلند وبالا عمارتوں سے اٹھنے والی گردمیں اٹ گیا۔ منظربدلا۔ مائی بوڑھی تھکی تھکی اوروہ نڈھال لگ رہاہے اس لیے دونوں ایک باہمی سمجھوتے کے تحت آرام کرنے لگے ہیں۔وہ سندھو سائیں کی نرم گرم ریت پرپڑا سستا رہاہے اور مائی بوڑھی ذرا دورایک زنگ آلود سٹیمرکے گئیرپربیٹھ گئی ہے۔سارا سٹیمر گَل سڑ گیا ہے مگربراس کایہ گئیر ابھی تک حوادث زمانہ سے محفوظ ہے جس پر انگریزی زبان کا لفظ INDUSاب بھی واضح طورپرپڑھا جاسکتا ہے۔
سندھ ساگر کے کنارے یہ کیسی ہلچل ہے۔ایک کشتی سے اُس کے مکین بے دخل کیے جارہے ہیں ۔کچھ ہی دیر پہلے یہ کشتی اس کے مکینوں کا گھرتھاجواب خالی ہورہاہے۔میلی چیکٹ رضائیاں،اُپلے،مرغیاں،سب ایک ایک کر کے بےدخل کردیاگیا۔اب مستول پر ایک پرانا شیشہ ہی تو رہ گیا ہے،اسے بھی اتاردو۔اُجڑے گھر کی بے بس مالکن اپنی میلی قمیض ہٹا کرنچڑی ہوئی چھاتیوں سے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔مگر شاید وہ اُس کی مجبوری سے واقف نہیں تھی کہ مائی بوڑھی اب سندھ سائیں کے پانیوں کے اوپرمحوِپروازپُر نم ہواﺅں کالطف اٹھا رہی تھی اور پکڑ لینے تک ہرحال میں اسے مائی بوڑھی کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھنا تھا۔وہ ایک سے دوسرے ٹاپوپرایک کے بعد ایک بھٹکتے رہے مگر وہ مائی بوڑھی ہی کیا جو ہاتھ آجائے۔کشتی کا مالک دور بیٹھی مرغابیوں پرنشانہ باندھتاہے۔وہ اپنے کام میں ماہر ہے،اچھا نشانہ باز ہے مگر قسمت نے آج یاری نہیں کی۔ چَھرا لگنے سے مرغابی کا ایک پَر زخمی ہوجاتا ہے لیکن وہ اُڑ جاتی ہے۔نشانہ باز کی خوشیوں پر اوس پڑ جاتی ہے،حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ”چار مرغابیوں کاخوشی سے کوئی تعلق نہیں“۔ملاح پریشان مگر وہ سوچ رہاہے کہ مرغابیاں کیوں اس کے پاس نہیں آتیں۔کتنی یخ بستہ صبح تھی جب وہ منہ اندھیرے کشتی میں گھات لگائے بیٹھاتھا۔کوئی جنبش نہیں کہ مرغابیاں بدک نہ جائیں لیکن پھر بھی مرغابیاں بندوق سے نکلے کارتوس کے چھروں کی زد میں نہ آئیں۔مائی بوڑھی اب بھی اسے نظر آرہی تھی،لکشمی مینشن کے جھروکے سے۔وہ اپنے گھر کی چھت پرپریوں جیسی مسکراہٹ سے اس کی گرم نگاہوں کو ٹھنڈے بوسے دے رہی تھی مگر ابھی تک اس کی دسترس میں نہیں تھی۔اُس نے تو مائی بوڑھی کو اس وقت بھی اپنی نظروں کے ہالے میں رکھا جب شاہ عالمی سے اٹھنے والے کالے دھوئیں کی زد میں آکراُس کے پَرسیاہی مائل ہوگئے تھے۔یا اُ س وقت جب وہ گھوڑے پر سوار پہاڑی کی اس ڈھلان پر جا پہنچا تھا جہاں سے آگے صرف پیدل چلنے کاراستہ تھا۔تب بھی وہ دور کھڑی اس کے کندھے پرجھولتے چرمی بیگ کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ اس میں کس کے نام کی چٹھی ہے۔میں یہ کیا سوچ رہی ہوں۔میں طالب نہیں مطلوب ہوں۔مجھے زیب نہیں دیتاکہ سوچوں بھی کہ وہ کیا کررہاہے۔مائی بوڑھی جو جانتی تھی کہ اس کا پیچھا ہورہاہے اورکوئی اسے پکڑنے کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کررہاتووہ بھلا کیوں بھاو¿ دیتی۔جونہی مائی بوڑھی اُڑی،اس نے گھوڑے کو درخت کے ساتھ باندھااور اُس کے پیچھے ہولیا۔مگر یہ کیا….وہ توچند اُڑتے ہوئے پرندوں کے ہمراہ ہوگئی ہے۔ آخریہ کہاں جا رہی ہے۔اُس نے جھنجھلا کرسوچااور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔پرندوں کی آوازیں سنائی دیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو اپنا کوئی فیصلہ کروانے سیمرغ کے پاس جارہے ہیں ،پر یہ اُن کے ساتھ کیوں بھٹک رہی ہے۔شاید مجھے جلانے کے لیے،وہ جان جو گئی ہے کہ میں اس کا پیچھا کررہاہوں۔آخروہ نڈھال ہو کر گرنے لگی۔اس کی سانسیں بھی تو رُکی جارہی تھیں۔یہ کیا ماجراہے،بوکیسی ہے۔اِس سے پہلے کہ کچھ سمجھ پاتا،وہ اچانک کسی چیز سے ٹکرا کراوندھے منہ زمین پر جا گرا۔پر وہاں زمین تھی ہی کہاں۔ہر طرف لاشیں ہی لاشیں اور بارود کی بو۔ڈیزی کٹر میزائل،جس سے نکلنے والے مزید چھوٹے چھوٹے بموں نے انسانوں کو اعضاو¿ں میں تقسیم کرکے رکھ دیاتھا۔کہیں بازو پڑا ہے تو کہیں ٹانگیں۔دھڑ کہیں اور سر کہیں ۔یہ کس نے انسانی گوشت کی منڈی لگا رکھی ہے۔جان کے لالے پڑے تو وہ بھاگ کر قریبی تہہ خانے میں جا گھسا۔وہیں پر مائی بوڑھی بھی ایک مردہ گھوڑے پر ادھ موئی پڑی تھی۔جی میں آیا کہ بھاگ کر اسے پکڑ لوں ،مگربھاگنے کا یارا بھی توہو۔وہیں پر مارنے اور مرنے والوں کے کچھ بھائی بند بھی توتھے،جنھیں اُس وقت مارنے مرنے کی چاہ سے بڑھ کر بھوک نے مار رکھا تھااور وہ اسی گھوڑے کو کاٹ کر کھانے والے تھے جس سے اٹھے والی بساند نے وہاں سانس لینا بھی مشکل بنا رکھا تھا۔سفر جاری ہے۔کوئی ہار ماننے پر تیار نہیں اور فاصلہ بدستورقائم ہے۔ایک ڈھلان پر خیمہ بستی میں ماما روجھا کی طرح بڑی بڑی رس بھری چھاتیوں والی عورت کیا کہہ رہی ہے۔”آج مت جاو¿۔رات بارہ بجے جھیل تُھن پرآتشبازی ہونے والی ہے،تم یہ موقع نہ گنواو¿“۔کیاواقعی رات کو کوئی آتشبازی ہونے والی ہے۔شاید نہیں اوررات کو مائی بوڑھی بھی تو نظرنہیں آئے گی۔تو پھر وہ کیوں رک گیا ہے۔کیا کھیرنما اُبلے ہوئے چاول کھانے کے لیے۔لیکن نہیں ،خیمے سے آنے والی سسکتی ہوئی آواز نے راز اگل دیا”میری کمر نیچے کو کھسکی جارہی ہے“۔مائی بوڑھی شرما گئی۔اس نے انگلیوں سے محسوس کیا کہ وہ ابھی تک زرخیز ہے حالانکہ سرسوتی کا مقدس پانی کم ہونے سے سارے کھیت بنجر ہوگئے ہیں مگر وہ ابھی تک زرخیز ہے،اسی لیے تو پکلی نے اس کے جسم پر رنگوں کی قوس قزح اُلیک کراسے ایک بیل بنا دیاہے۔وہ بھی پاس ہی کھڑا ہے مگرپوری بیل میں سفید رنگ دکھائی نہیں دے رہا،مائی بوڑھی کا سفید رنگ۔سرسوتی میں سِلماکے بوٹے نہیں رہے،چارہ نہ ملنے کے باعث مقدس بیل مر گئے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کرنے والا پھر سے درختوں پر الٹالٹکنے کے لیے چلا گیا ہے مگر اب بھی اُس کی چاٹی میں مٹھی بھرگندم موجود ہے۔اندھیرے کنویں میں پانی کی چند بوندیں بھی ہیں مگراس کے باوجود وہ اپنے بچے کو یہ ماحول دکھانا پسند نہیں کرتی۔اسی لیے تووہ کشتی میں سوار ہو کردریا کے اُس پار جارہی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا ناخدا تو کب کا مائی بوڑھی کے پیچھے پکی اینٹوں سے اسارے اس نگر کی طرف جا چکا ہے ۔۔۔۔ روشنیوں کا وہ شہر جس کی چکا چوند کسی کو واپس نہیں آنے دیتی۔سفر ختم نہیں ہوا۔مائی بوڑھی ہاتھ نہیں آئی مگر وہ اپنی ترجیحات بدل رہاہے۔یاورحیات کا مرثیہ لکھتے ہوئے کہا”ٹیلی ویژن کے جس کھنڈر پر وہ دربار سجائے بیٹھے ہیں اُس میں سینکڑوں اداکاروں،میزبانوں،پروڈیوسروں،میک اپ کرنے والوںحالات حاضرہ پر معتدل تبصرہ کرنے والوں اور ڈرامہ نگاروں کا لہوہے۔یہ ان کی جدوجہداور تخلیقی کاوشوں سے تعمیر کردہ ایک تاج محل تھا جو اب ڈھے چکا ہے اور اب اس کھنڈر میں بھانت بھانت کے الو بولتے ہیں۔محمد نثار حسین،خواجہ نثار حسین،نصرت ٹھاکر،مصلح الدین،فیاض الحق،شہزاد خلیل،شعیب منصور،اقبال انصاری،ایوب خاور،خالد محمودزیدی، قنبر علی شاہ اور درجنوں نابغہ روزگارلوگوں کی وقف کردہ زندگیاں ہیں ۔۔۔۔میرا گمان ہے کہ ہر شب اس بربادے ،اس ویرانے،اس کھنڈر میں جمیل فخری،طاہرہ نقوی،سلیم ناصر،لطیفی،شفیع محمد،لاشاری،خالدہ ریاست،ظل سبحان،آفتاب احمد،اسماعیل شاہ،محمد یوسف،محمود علی،طاہرہ واسطی،خیام سرحدی اور ایسے بہت سے بے مثال اداکاروں کی روحیں بھٹکتی ہوں گی۔اور اب اُن میں یاور حیات کی روح بھی شامل ہوگئی ہے،جو اُن سے کہتی ہوگی”چن جی….میں تم سب کے بغیر بہت تنہا رہ گیا تھا۔اآو¿ا ن اندھیروں میںایک ڈرامہ گئے وقتوں کی یاد میں تخلیق کرتے ہیں ۔یاپھرکچھ انتظار کرتے ہیں اگرچہ انتظار حسین بھی یہاں ہیں پر تارڑ کا انتظار کرتے ہیں۔وہ بھی آنے والا ہوگا….جیسے اس نے میرے لیے ٹیلی ویژن کا پہلا منی سیریل”پرواز“لکھاتھا ا س سے ایک اور ڈرامہ ”فنا کی وادی“ نام کا لکھوائیں گے ۔۔۔۔ چن جی کچھ انتظارکرلیتے ہیں“۔پر میں پوچھتا ہوں کہ صاحب جس ایک خواہش کے پیچھے پوری زندگی لگادی،کیا اسے پورا کیے بغیر ہی چلے جاو¿ گے۔تارڑ جی ایسے تو ہم تمھیں کبھی نہ جانے دیں کہ گرمیوں کی جھلسا دینے والی دوپہرکی تپش آک کا ایک اور بوٹا برداشت نہیں کرسکا اور اس کے ڈوڈے نے اپنا منہ کھول دیا ہے….مائی بوڑھی۔
فیس بک کمینٹ