میرے چار سو منظر بکھرے ہیں، روکنے والے منظر، سوچنے پر مجبور کر دینے والے منظر، تڑپا دینے والے منظر، شرما دینے والے منظر!! منظر یہ بھی ہے کہ ایک گاڑی آپ کے سامنے سے آتی ہے،ڈرائیور نما شوہر کے ساتھ بیٹھی ایک ماڈل نما بیگم، کھلے گیسو،ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں کالا چشمہ،دوپٹہ غائب ، قہقہوں کے جلترنگ، چہرے پر احساسِ برتری۔ دل و دماغ فوراً سوال کرتے ہیں کہ یہ سب بناؤ سنگھار کس کے لئے ہے؟ کیونکہ شوہر تو روز ساتھ ہی ہوتا ہے، پھر یہ اہتمام کس سوچ کے تحت ہے، جواب ہم سب جانتے ہیں مگر اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں، ایک اور منظر یہ بھی ہے کہ گھر گھر گھومنے پھرنے والی، پارٹیاں منعقد کرنے والی، ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ’’یار،یار‘‘ کی تکرار کرنے والی، گھر کے علاوہ ہر جگہ نظر آنے والی چند الٹرا ماڈرن بیگمات بیٹھی ہیں، ان کے درمیان کسی ایسی خاتون کا ذکر آتا ہے جو حجاب کرتی ہے، جو اُن کی طرح نہیں ہے، جو گھر میں رہنا بہتر سمجھتی ہے، جو شمعِ محفل نہیں ہے، تو اسے فوراً ہی ’’پینڈو، دقیانوسی، بورنگ‘‘ کہہ کر بات بدل لی جاتی ہے، مجھے ذرا سا اطمینان ہے کہ شاید آنے والی نسل بہتر ہو گی، مگر منظر پھر بدلتا ہے، پانچویں جماعت کی چند بچیاں محوِ گفتگو، ایک بچی کھلے سر اور کھلی زلفوں کے ساتھ، درمیان میں موقع پر غیرحاضر ایک دوست کا ذکر چلتا ہے تو پہلی بچی منہ بنا کر کہتی ہے’’چھوڑو یار،اسے نہیں بلاتے، وہ بہت بورنگ ہے‘‘ منظر پھر بدلتا ہے، بیٹی نے سکارف لیا، ماں نے اسے ڈانٹا اور اس کے سر سے سکارف اتار پھینکا ’’مجھے شرم آتی ہے تمہارے اس حلیے میں ساتھ جانے سے، یہ تم کیا بوڑھوں جیسا حلیہ بنائے رکھتی ہو‘‘، منظر پھر بدلتا ہے، مجھے اپنی میٹرک کلاس کے مایہ ناز ٹیچر رانا مہدی حسن صاحب یاد آتے ہیں، ایک دن کلاس میں کہنے لگے کہ آج میری بیٹی اپنی ایک سہیلی کو’’یار‘‘کہہ کر بات کر رہی تھی، میرا دل چاہا کہ تھپڑ مار کر اس کا منہ توڑ دوں مگر آج ہر طرف اس لفظ کی تکرار ہے، بیٹا چاہے بیٹا ہو نا ہو مگر وہ یار ضرور ہے، بیٹی ماں کی بیٹی بنے نا بنے مگر وہ یار ضرور ہے، بیوی اپنا بیوی ہونا ثابت کرے یا نہ کرے، اپنے میاں کی یار ضرور ہے، جانے اصل رشتے کہاں رہ گئے، بس ایک لفظ یار ہے جو زندہ و جاوید ہے، یہ زلفوں کا بھی ترقی سے کوئی تعلق ہے ضرور، ہے کیا یہ مجھے نہیں معلوم، جب تک زلفیں کھل نہ جائیں ترقی ہوتی ہی نہیں، لباس جتنا مختصر ہو اتنا ہی ترقی کا سفر آسان اور تیز ہو جاتا ہے مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب مجھے بھی نہیں معلوم، مجھے اس بات کی بھی ٹینشن نہیں کہ کون کس کے بارے میں کیا رائے دیتا ہے، کون کیا تبصرہ کرتا ہے مگر فکر کی اصل بات یہ ہے کہ غلط صحیح بن گیا ہے، گناہ فخر بن گیا ہے، شریعت پر چلنا پینڈو اور گنوار پن کی علامت بن چکا ہے، سیدھے راستے پر چلنے والے کو یہ معاشرہ چند دنوں میں ہی خود پر غور کرنے پر مجبور کردیتا ہے، وہ شک میں پڑ جاتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں یا دوسرے ٹھیک ہیں، حجاب لینے والوں کو دیہاتی یا طالبان ٹائپ کی چیز امریکا سمجھے نا سمجھے ہم خود ضرور سمجھتے ہیں، مکمل برقع والوں کی بات تو دوکاندار بھی نہیں سنتا، وہ بھی جینز میں ملبوس بیگم صاحبہ کے آگے بچھا بچھا جاتا ہے، اپنے مہنگے ٹچ موبائل کو پاؤچ میں ڈال کر بھلا بیگ میں کون رکھتا ہے، آخر خرچہ کیا ہے تو نظر بھی آنا چاہیے، تنگ جینز، کھلے بال، سکن ٹائٹ شرٹ کو ترقی سے مشروط کر دیا گیا ہے، اردو بولنے والا بس ایویں ہے، بات بات میں انگلش کے الفاظ کا تڑکا لگے تو بندہ بلا وجہ پڑھا لکھا محسوس ہونے لگتا ہے، گھر کے کام نہ کرنے کا ذکر فیشن بن چکا ہے، ’’بے بی روٹی کھالے تو اسے وومٹنگ ہونے لگتی ہے، برگر پیزا، میکڈونلڈ، کے ایف سی ہی پر گزارہ ہے‘‘ یہی تفاخر ہے جو ہر طرف نظر آتا ہے، ہاتھ سے کام کرنے والی اور ماسی نہ رکھنے والی خاتون کو کنجوس اور غریب تصور کیا جاتا ہے، ماسی کو ماسی کہنا جہالت ہے، وہ’’میڈMAID‘‘ہے، جب تک آپ اسے میڈ نہیں کہیں گے آپ جاہل ہیں،’’wow‘‘کا کثرت سے استعمال، ’’literally‘‘ کا تڑکا، ’’awesome‘‘ کا گھوٹا لگانا، یہی تو قابل انسان کی نشانیاں ہیں، والدین کو زمین دار نہیں کہنا بلکہ لینڈ لارڈ کہنا ہے، زمینوں کو فارم ہاوس کہنا ہے، اسی سے مقام اونچا ہو گا، جانے یہ کیا دوڑ ہے، جانے یہ کیسی نسل ہے، جانے والدین کس سمت جا رہے ہیں، جانے پردہ دار ماں کے ہمراہ شاپنگ مال میں ساتھ گھومتی، چست لباس، کھلے بالوں والی بیٹی ماں کو گھر سے نکلتے نظر کیوں نہیں آئی، ہم جنگلوں کی طرف سفر اور پتھر کے زمانے میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں، یہی ترقی کا معکوس سفر ہے۔
فیس بک کمینٹ