وزیراعظم کی تقریر ایک ہفتہ بھی نہ چل سکی اور ٹھس ہوگئی، کیونکہ یہ تقریر "کھسیانی بلی کھمبا نوچے” سے زیادہ کچھ تھی ہی نہیں اس کا انٹرنیشنل دنیا پر اگر کوئی اثر پڑا بھی تھا تو وہ انڈیا کی ایک کم عمر کنہیا کی چار منٹ کی جوابی تقریر نے ہی ختم کر دیا تھا لیکن ہم چونکہ من حیث القوم جنابِ خادم رضوی سے متاثر ہیں تو ہم نے اس کنٹینری تقریر پر خوب بغلیں بجائیں، کشمیر ایشو پر پاکستانی مؤ قف اب غیر سنجیدہ سے مزاحیہ ہوتا جا رہا ہے کبھی ہم جمعہ نماز سے پہلے آدھے گھنٹے کے لئے سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں، کبھی ہم انڈیا کو پھوکی دھمکیاں لگاتے ہیں، کبھی لوگوں کو لائن آف کنٹرول پار کرنے سے روکتے ہیں، کبھی پوری دنیا کو ایٹمی جنگ کی وارننگ جاری کرتے ہیں تو کبھی ٹرمپ کی منت سماجت لیکن دنیا ہمارے موقف پر ہمارے ساتھ نظر نہیں آتی جس کا بھر پور اظہار خود جنابِ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کر چکے ہیں۔
یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ دنیا مودی کی بات بھی سنتی ہے اور اس ہی کی حمایت بھی کرتی ہے ہمارے برادر اسلامی ممالک کہ جن کے سربراہوں کی ہمارے وزیراعظم گاڑیاں چلاتے رہے انہی سربراہوں نے مودی کو ایوارڈز سے نوازا، پاکستان کے سعودی سفیر محمد بن سلمان بھی بدقسمتی سے مودی ہی کی حمایت کرتے ہیں، ٹرمپ نے مودی کے امریکی جلسے میں خطاب کیا اور مودی ہی کے موقف کو مضبوط کیا، لیکن ہم سے وہی پرانا مطالبہ ہے کہ طالبان کو ٹیبل پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ جانے اس بار ہم نے اس کام کے لیے کوئی قیمت بھی طلب کی ہے کہ ایک بار پھر پرویز مشرف کے جانشینوں نے بے دام کے غلام بننے کی ٹھانی ہے۔ کیونکہ جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس فلم کا ایکشن ری پلے ہے جو تاریخ میں کئی بار چلی کردار بھی وہی ہیں اور مطالبات بھی شکلیں تبدیل ہوگئی ہیں ہم نے ایک وقت میں انہی کو امریکی مطالبے پر مجاہدین کہا اور بقول ہمارے وزیراعظم انکی تربیت ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے کی پھر ہم نے امریکی مطالبے پر انکو دہشت گرد کہا اور ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے ان کے خلاف کامیاب آپریشن کیے، اب پھر ہم امریکی مطالبے پر انکو سینے سے لگا رہے ہیں، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی رح اور حضرتِ بہاول حق رح کا جانشین ملا عبد الغنی برادر کا استقبال دفتر سے باہر آ کر کرتا ہے یاد رہے کہ یہ وہی عبد الغنی برادر ہے جو پاکستان کی جیلوں میں سنگین نوعیت کے الزامات میں گرفتار تھا یہ وہی لوگ ہیں کہ جو اسی یا نوے ہزار معصوم پاکستانیوں کی اندوہ ناک شہادت کے بالواسطہ یا بلا واسطہ ذمہ دار ہیں، لیکن چونکہ امریکی فوج کے انخلا کا معاملہ درپیش ہے تو ہم اپنی پرانی نوکری پر مامور کر دیئے گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ جو کوئی کہہ دے کہ” امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے” مجال ہے کہ کوئی ہمارے وزیراعظم کو یہ یاد دلا دے کہ حضور آپ ہی کا فرمان عالی تھا ہمیں امریکہ کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
اس حکومت کا موقف کمال ہے کہ ہم طالبان سے امریکہ کی مصالحت کرا سکتے ہیں، ہم ملا عبد الغنی برادر کو سٹیٹ گیسٹ کے طور پر قبول کر سکتے ہیں، ہم سانحہ اے پی ایس پشاور کے ماسٹر مائنڈ احسان اللہ احسان کو بھی ایڈجسٹ سکتے ہیں، ہم ایران اور سعودی عرب کے بیچ بچ بچا کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں کر سکتے تو وہ پاکستانی اپوزیشن پارٹیوں سے بات ہے، اور بقول ایک وزیر موصوف کے ہم تو ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس وقت اپوزیشن بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دی گئی ہے ن لیگ میں سوائے شہباز شریف کے کوئی بھی مرکزی رہنما باہر نہیں ہے، پیپلزپارٹی اپنا وزیر اعلیٰ بچانے کی فکر میں ہے، واحد مولانا فضل الرحمن ہیں جو متحرک ہیں آپ 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور حکومت گرانے سے کم کسی بات پر تیار نہیں ہیں، حکومت کہتی ہے کہ ہم مدارس کے بچوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے یہ وہی جماعت ہے کہ جو جب اپوزیشن میں تھی تو طاہر القادری کے مدارس کے بچوں کو ڈھال بنا کر اسلام آباد میں نواز حکومت گرانے کے لیے داخل ہوئی تھی اور انہی بچوں کے کچھ ساتھی لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں عمران خان اور طاہر القادری کی سیاسی نا پختگی کی بھینٹ چڑھے تھے، وہ بھی مدارس کے طلبا ہی تھے جن کو پی ٹی وی اور دوسری اہم سرکاری عمارتوں پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، مدارس کے طلبا نے ہی 126 دن کا پھسپھسا دھرنا دیا تھا کیونکہ عمران خان اور انکے حامی تو رات میں دو گھنٹوں کے لیے تفریح کرنے آتے تھے اور چلے جاتے تھے باقی وقت تو یہی مدارس کے طلبا نے دھرنا دئیے رکھا تھا..
لیکن اب اس سب کی اجازت نہیں ہے، حالات یہ ہیں کہ ملک کی بزنس کمیونٹی اب آرمی چیف سے مل کر نیب اور حکومت کی شکایت کرتی ہے اور چئیرمین نیب کو مجبوراً پریس کانفرنس کر کے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اب نیب کا کوئی افسر کسی بزنس مین کو فون کرکے دفتر میں طلب نہیں کرے گا اور بینکنگ اور ایکسائیز کے معاملات ایف بی آر دیکھے گا، کیا چئیرمین نیب یہ بتائیں گے کہ یہ فیصلہ اصولی طور پر لیا گیا ہے یا بزنس کمیونٹی کے پریشر پر اور اگر اصولی ہے تو کیا آپ اپنی گذشتہ روش پر معافی مانگیں گے؟ ڈھکی چھپی پالیسی یہ ہے کہ اب کسی بزنس مین سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اور منی ٹریل کیا ہے، بزنس کمیونٹی نے اپنی طاقت کا استعمال کیا اور بات منوا لی لیکن سوال یہ ہے کہ پیسوں کی پوچھ گچھ صرف اپوزیشن لیڈرز کے لیے ہی رہ گئی ہے؟ کیا معشیت اب آرمی چیف چلائیں گے کیونکہ مشیر خزانہ، چئیرمین ایف بی آر اور دوسرے تمام خزانچی انکے دائیں بائیں بیٹھے نظر آ رہے ہیں جبکہ آرمی چیف کو یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت یہی رہے گی آپ اس سے تعاون کریں….
یہاں اس حکومت سے مختلف موضوعات پر چند سوالات ہیں کہ آپ کا کشمیر پر جو بھی موقف ہے وہ سر آنکھوں پر لیکن کیا یہی موقف آپ فلسطین اور یمن کے حالات پر بھی رکھتے ہیں؟ آپ انڈیا پر جب یہ الزام لگاتے ہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے اور آر ایس ایس ایک انتہا پسند ہندو جماعت ہے تو اس کا جواب انڈیا یہ دیتا ہے کہ آپ کے اپنے ملک میں ہندو بچیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے اور انکی شادیاں زبردستی مسلمان لڑکوں سے کی جا رہی ہیں آپکی ریاست کا اس عمل پر کیا ردعمل ہے؟اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں کو آپ کتنا تحفظ دے پا رہے ہیں یا ریاستی بیانیے میں اس بات کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟
آپ فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے نیتن یاہو اور یمن میں ظلم کرنے والے محمد بن سلمان کو کس طرح مودی سے مختلف ثابت کرتے ہیں؟؟
کیا امریکہ کی اس کے فوجیوں کے انخلا کے سلسلے میں مدد کرنے کو آپ وہی غلطی نہیں تصور کرتےجو ماضی میں اسکی مدد کرکے کی گئی تھی؟کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ امریکہ کو واضح طور پر کہا جائے کہ ہم کسی طرح بھی آپ کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟اگر سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے آ جاتے ہیں تو آپ کس کا ساتھ دیں گے؟سعودی عرب اور ایران کی جنگ کی صورت میں آپ نیوٹرل کس طرح رہیں گے جبکہ راحیل شریف اس وقت سعودی نوکری پر ہیں اور آپ نے ان سے بڑی رقوم لے رکھی ہیں؟
ہم بحیثیت پاکستانی یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ ہماری ریاست معاملات کو کس طرح ڈیل کر رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر ہم ایک ریاست کے طور پر تنہا نظر آتے ہیں، اندرونی حالات یہ ہیں کہ اگر آپ حکومت کے خلاف ہیں تو آپ یا تو غدار ہیں یا کرپٹ، ملک میں شدت پسندی ریاستی بیانیہ بنا دیا گیا ہے کبھی خبر آتی ہے کہ اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبا کا ڈوب ٹیسٹ کیا جائے گا تو کبھی خیبر پختون خوا کے سکولوں میں برقعے تقسیم کیے جاتے ہیں وزار ہر بات پر اللہ رسول کی جھوٹی کی قسمیں کھاتے ہیں اور بات بات پر مذہبی تاویلات پیش کرتے ہیں جن کا سیاق و سباق سے کوئی میل جول نہیں ہوتا، تمام اخلاقی اور سیاسی حدود اپوزیشن پر لاگو ہوتی ہیں حکومت اس سب سے مبرا ہے، وزیراعظم کا طرہ امتیاز ہی یوٹرن ہے، عمران خان اور تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے کو بین کر دیا جاتا ہے چاہے وہ عمران خان کا بہنوئی ہی کیوں نہ ہو۔
آج کا عمران خان ہمیں کل کے نواز شریف اور الطاف حسین کی یاد دلاتا ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی یہی مہربانیاں پرسوں تک نواز شریف اور کل تک الطاف کے لیے مخصوص تھیں آپ کراچی کے کسی تھڑے پر بیٹھ کر الطاف بھائی کے خلاف بات نہیں کر سکتے تھے لیکن آج الطاف بھائی ماضی کا ایک عبرت ناک باب ہیں…کب تک ہم پر رہنما مسلط کیے جائیں گے کب تک اسٹیبلشمنٹ کی فیکٹری ہی سیاست دان بنائے گی؟ آج جو لوگ نواز شریف کو گالیاں دیتے ہیں ان سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف عوام کا لیڈر تھا کیا عوام کا کوئی طبقہ اس کو اٹھا کر لایا تھا کیا کسی عوامی تحریک کی قیادت کی وجہ سے نواز شریف لیڈر بنا؟ اگر ہم سب یہ مانتے ہیں وہ ضیاء کا پروردہ تھا تو گالی کی کتنی گنجائش بنتی ہے؟ آخر میں بحیثیتِ پاکستانی میں اپنے مقتدر اداروں سے یہ کہنا چاہتا ہوں اس ملک کے مسائل تب تک حل نہیں ہوں گے جب تک آپ لیڈر بنانے کی فیکٹری بند نہیں کرتے لوگوں کو انکے حقیقی لیڈرز چننے دیجئے پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت نہیں آسکی تو دنیا کیوں آپ کی بات پر بھروسہ کرے؟؟