جب یوسف رضا گیلانی کو ایک چیپ جسٹس نے مزاحیہ انداز میں برطرف کر کے اپنے چہرے پر تا حیات کالک پوتی تھی تو استاذی خالد سعید نے ایک جملہ کہا تھا کہ ملتان کی معلوم چار ہزار سال کی تاریخ میں اتنا کام نہیں ہوا جو یوسف رضا گیلانی نے چار سالوں میں کر دکھایا ہے۔۔
ملتان میں یوں تو کئی معروف سیاسی خاندان موجود ہیں لیکن معروف ہونا اور ہے اور نیک نام ہونا اور۔۔ نیک نامی جو گیلانی خاندان نے کمائی ہے ملتان کا کوئی اور سیاسی خاندان اس کے نزدیک بھی نہیں پہنچتا، باقی تو یہاں ایک پیر گھرانے کے گورنر ہوا کرتے تھے کہ جن کے پاس اگر کوئی حلقے سے اپنا کوئی کام لے کر چلا جاتا تھا تو وہ دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے اور کہتے کہ آپ بھی دعا کریں میں بھی کرتا ہوں بندہ پوچھے کہ اگر تم نے گورنر پنجاب ہوکر بھی دعا ہی کرنی ہے تو اللہ خیر کرے، اسُی گورنر کی اولاد آج بھی اقتدار پر قابض ہے اور کسی کا کام تو دور کسی حلقے کے شخص کی بات سننا بھی ان کو گوارا نہیں ہے، حال یہ ہے کہ ہمارے ایک نوجوان دوست اور مہربان سلمان نعیم نے پہلی بار الیکشن لڑتے ہوئے اس سیاسی بت کو منہ کے بل زمین پر ایسے دے مارا کہ کیا لات، منات گرے ہوں گے، لیکن عقل ٹھکانے پھر نہ لگی ۔۔
جاوید ہاشمی ہوں، فخر امام ہوں، سکندر حیات بوسن ہوں، صلاح الدین یا عامر ڈوگر ہوں، حافظ اقبال خان خاکوانی ہوں، اسحاق خان بُچہ ہوں یا کوئی اور۔۔ جو مقام و مرتبہ یوسف رضا گیلانی کو حاصل ہے باقی کوئی ملتان کا آدمی اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچتا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ عہدے اور مناصب ہیں کہ جن پر آپ پیپلزپارٹی جیسی جماعت میں ہوتے ہوئے متمکن رہے اور ہیں ۔۔ پیپلزپارٹی وہ جماعت ہے کہ جس میں ایسا ایسا نابغہِ سیاست موجود ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی تو کیا وہ رضا ربانی ہوں، تاج حیدر ہوں، فرحت اللہ بابر ہوں، شیری رحمان ہوں، اعتزاز احسن ہوں، قمر زمان کائرہ ہوں یا کوئی اور پاکستانی سیاست کی تمام متوازن اور سیاسی آوازیں پیپلزپارٹی ہی میں موجود ہیں ان تمام لوگوں کی موجودگی میں صرف گیلانی صاحب کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ پاکستان کے اہم ترین عہدوں کے لیے پیپلز پارٹی بھی انہی کو منتخب کرتی ہے پاکستانی سیاست میں کوئی اور سیاست دان ایسا نہیں ہے کہ جو اتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہا ہو آپ 1993 کی بی بی شہید کی حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی رہے، 2008 کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم رہے اور اب جب کہ مشترکہ اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو ہرانے کے لیے کسی شخص پر متفق ہونا چاہتی تھی تو سوائے یوسف رضا گیلانی کے اور کوئی اس کام کا اہل نہیں دکھائی دیا کہ کون ہے کہ جس کی Across The Board عزت ہو جس کے وقار اور متانت کی اس کے دشمن بھی گواہی دیتے ہوں، جو مصلحت اور سیاست دونوں جانتا ہو، جس کے اندر انتقام کی آگ چھوڑیں چنگاری تک نہ ہو، جس کے لیے کسی کا کام کرنے کو صرف اتنا تعلق کافی ہو کہ وہ جنوبی پنجاب کا رہائشی ہے یہ تمام وہ اوصاف ہیں جو گیلانی صاحب کو پاکستان کے ہر سیاست دان سے ممتاز کرتے ہیں..
گیلانی خاندان نے ملتان میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہت نمایاں کام کیا اور یہاں تعلیمی ادارے بنانے اور چلانے کی طرح ڈالی ولایت حسین کالج ہو یا علمدار کالج ہو یا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور نشتر اسپتال کے لیے زمین عطیہ کرنے کا معاملہ ہو یہ صرف گیلانی خاندان ہے کہ جو آگے آیا اور معاملات کو آسان بنایا مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کا دور تھا اور گیلانی صاحب جیل میں تھے تو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں موجود گیلانی لا کالج کا نام تبدیل کرکے یونیورسٹی لا کالج کر دیا گیا تھا جس پر مبینہ طور پر گیلانی صاحب کی اہلیہ نے یونیورسٹی وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اللہ کو فون کرکے احتجاج کیا جس پر آگے سے بدتمیزی کی گئی خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے قسمت کی کرنی یہ ہوئی کہ گیلانی وزیراعظم بن گئے تو راتوں رات ہماری آنکھوں کے سامنے یونیورسٹی لا کالج کا نام دوبارہ گیلانی لا کالج ہوگیا، گیلانی ملتان آئے یونیورسٹی کا دورہ بطور وزیراعظم کیا تو ہم نے جو ہوائیاں اڑی اسُی وائس چانسلر کی دیکھیں ایسے ہم نے یونیورسٹی میں کسی مالی کو بھاگتے اور پریشان نہیں دیکھا تھا، مجھے یاد ہے کہ خواجہ علقمہ جو کہ ہمارے استاد اور یوسف رضا گیلانی کے کلاس اور ہاسٹل فیلو بھی رہے تھے نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر ظفر اللہ فضول میں پریشان ہے گیلانی نے اس کو کچھ بھی نہیں کہنا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کی طبیعت میں رتی برابر بھی انتقام نہیں ہے اور وہی ہوا گیلانی صاحب نے باوجود کئی شکایتوں کے ڈاکٹر ظفر اللہ کے لئے کسی قسم کی مشکلات کھڑی نہیں کیں۔۔
جو لوگ 2008 سے پہلے کے ملتان کو جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ اگر گیلانی وزیراعظم نہ بنتے تو آج بھی ملتان شہر ایک پس ماندہ شہر ہی ہوتا ان چار سالوں میں ملتان کو ترقی کے وہ گیئرز لگے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتے تھے، ملتان میں ہر شعبے میں کام ہوا سب سے پہلے ملتان کو گرد و نواح کے چھوٹے لیکن اہم شہروں اور قصبوں سے ملانے کے لئے رابطہ سڑکیں اور دریائے چناب پر پُل بنائے گئے مظفر گڑھ، لیہ، چوک ا عظم، ڈی جی خان، رنگ پور، احمد پور سیال، گڑھ موڑ، جھنگ، کبیر والا، کوٹ ادو اور کئی مقامات سے ملتان کا فاصلہ آدھے سے بھی کم رہ گیا، نئے ملتان انٹر نیشنل ائیر پورٹ کے کام کا آغاز ہوا، شہر میں گیارہ فلائی اوورز بنائے گئے اور موجودہ سڑکوں کو کشادہ کیا گیا کہ جن کی وجہ سے ملتان کی پھنسی ہوئی ٹریفک رواں ہوئی، نشتر اسپتال فیز 2 کی پلاننگ ہوئی اور فنڈ مختص کیا گیا، پاکستان ٹیلی ویژن کی نئی اور شاندار بلڈنگ بنائی گئی اور اس کا افتتاح ہوا، وومن یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا، میاں شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر ملتان کو بگ سٹی قرار دلوایا گیا جس سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے یہاں میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا، اسکے علاوہ میاں شہباز شریف سے شہر کو پانچ DHQ’s ہسپتال، کڈنی سینڑ نشتر اسپتال، ملتان کارڈیولوجی کی ایکسٹینشن، پانچ ڈگری کالج اور نواز شریف ایگری کلچر یونیورسٹی بھی لیکر دئیے، متی تل پر بننے والے پاکستان کے سب سے بڑے جوڈیشل کمپلیکس کی زمین اور مالی معاونت بھی گیلانی صاحب کی دین ہے جو اب اپنے تکمیل کو پہنچ چکا ہے، یہ سب وہ سرکاری سٹرکچر ہے جس نے پرائیویٹ انویسٹر کی توجہ کو ملتان کی جانب مبذول کرایا اور ملتان میں برانڈز کی بہار آ گئی ہر طرح کا برانڈ جس سے خریداری کے لیے ملتان کے لوگوں کو لاہور اور اسلام آباد جانا پڑتا تھا ملتان میں کھلنے لگے تو کیا وہ کپڑے ہوں، جوتے ہوں ریسٹورنٹس ہوں یا گروسری سٹورز آج ملتان میں سب کچھ ہے جو 2008 سے پہلے یہاں کے لوگ تصور بھی نہیں کرتے تھے اس سب کے آنے سے کئی کام ہوئے ایک طرف جہاں شہر میں جدت پیدا ہوئی وہیں دوسری طرف ہزاروں نوجوانوں کو روزگار میسر آیا اس کے ساتھ ساتھ ملتان کے لوکل انویسٹر کے لئے بھی بہت سی راہیں کھلیں دیکھتے ہی دیکھتے ملتان ایک پس ماندہ شہر سے اٹھ کر جدید شہر بنتا گیا اور سی پیک (جو کہ صدر زرداری اور گیلانی حکومت کا ایک کارنامہ ہے) کے روٹ میں آج ایک کلیدی اہمیت حاصل کر چکا ہے یہ بھی گیلانی حکومت کی پلاننگ تھی کہ ملتان سے ڈی جی خان کے درمیانی راستے کو ڈرائی پورٹ قرار دے دیا جائے کیونکہ یہ وہ مقام ہے کہ جو پاکستان کا مڈ یعنی فاصلاتی اعتبار سے گوادر اور چائنہ باڈر کا درمیان بنتا ہے اور سی پیک کے مغربی اور مشرقی روٹ کا کم سے کم فاصلہ ملتان اور ڈی جی خان ہیں اس پورے راستے کو ڈرائی پورٹ قرار بھی گیلانی حکومت نے دلوایا، یہ وہ منصوبہ ہے کہ جو اس جنوبی خطے کے لیے گیم چینجر ہوگا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق سن 2030 تک ملتان اور ڈی جی خان کے درمیان ساٹھ ہزار گودام بنیں گے کہ جن میں مال سٹور کیا جائے گا اس میں وہ مال بھی ہوگا کہ جو گوادر پورٹ پر اترے گا اور چائنا جا رہا ہو گا اور وہ مال بھی ہوگا کہ جو چین سے پاکستان میں داخل ہوگا اور پورٹ سے ہوتا ہوا پوری دنیا کو جائے گا۔
یہ سب کچھ گیلانی نے اس وقت کیا کہ جب ان پر ان کی زندگی کا شاید سب سے مشکل وقت تھا پیپلزپارٹی کہ جس کی لیڈر سڑک پر مار دی گئی تھی، جس کی موجودہ لیڈر شپ یعنی آصف علی زرداری پر طرح طرح کی گندی بات ہر طرح کا الزام یہاں تک کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی عائد کیا جا رہا تھا، جب میمو گیٹ جیسا سکینڈل پیپلزپارٹی کی گردن پر سوار تھا، جب اسُامہ بن لادن پاکستان سے پکڑا گیا تھا، جب اس ملک میں ہر روز دھماکہ ہوتا تھا ہر گھنٹے میں کوئی نہ کوئی پاکستانی دہشتگردی کا نشانہ بنتا تھا، جب چوبیس گھنٹوں میں سے بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، جب لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر جا رہے تھے، جب ایک چیف جسٹس انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اور روز وزیراعظم سپریم کورٹ کے کٹہرے میں لایا جاتا تھا، جب آرمی چیف ایکسٹینشن کے لئے پستول کنپٹی پر رکھ کر کھڑا تھا لیکن کیا آپ نے کبھی سنا کہ گیلانی نے اس سب کا تذکرہ کیا ہو، کیا کبھی سنا کہ گیلانی نے پوچھا ہو کہ مجھے کیوں نکالا؟؟ کبھی کسی مخالف کے تذکرے پر تھوڑی پر ہاتھ پھیرے ہوں یا کبھی کسی کی کردار کشُی کی ہو ۔۔
میرا ماننا تھا کہ بینظیر بھٹو کے چلے جانے سے سیاست با لکل بے توقیر ہوگئی لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایک وزیراعظم ہے کہ جس کی پارلیمنٹ میں حاضری ستانوے فیصد رہی، جس نے ن لیگ کے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا، جس نے لیڈر آف دی اپوزیشن کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئر مین بنا دیا، جس کو پاکستان کی چار سیاسی جماعتوں نے مل کر پہلی بار متفقہ وزیراعظم بنوایا، جس کو مزاحیہ انداز میں برطرف کیا گیا لیکن نہ اس نے کسی شخص کے متعلق کوئی غلط بات کی نہ اداروں کے خلاف، تو مجھے تسلی ہوئی کہ نہیں ابھی اتنی تاریکی بھی نہیں پھیلی کہ جتنی مجھے محسوس ہوتی تھی اور 3 مارچ کے مناظر دیکھ دیکھ کر تو میں نہال ہوتا رہا کہ کس طرح گیلانی اور حفیظ شیخ پارلیمنٹ کی راہداری میں نتائج سے بے نیاز نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے۔
یہ بھی قدرت کا انتظام ہے کہ وہی میاں نواز شریف کہ جو گیلانی کی برطرفی کے لیے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے انہی کی پارٹی کے شاہد خاقان عباسی نے گیلانی کے PDM کا متفقہ امیدوار ہونے کا اعلان کیا اور اسی نواز شریف کی پوری ن لیگ اسی گیلانی کو ووٹ دینے پر مجبور ہوئی کہ جس کو انہوں نے برطرف کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا
سنا ہے کہ زرداری صاحب نے گیلانی کو کہا کہ آپ ہمارے امیدوار نہیں آپ ہماری امید ہیں آج میں کہتا ہوں کہ اس عمرانی حکومت کے اذیت ناک دور میں گیلانی صاحب کا بطور چیئرمین سینیٹ تقرر میرے لیے ایک بہت بڑی امید اور تقویت ہے اللہ گیلانی صاحب کو زندہ سلامت اور تندرست رکھے کہ پاکستانی سیاست میں رواداری اور برداشت کا مادہ پیدا ہو اور جمہوریت مضبوط ہو ۔۔۔
فیس بک کمینٹ