سینٹ کے حالیہ انتخاب میں اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اور حکومتی رکن حفیظ شیخ کی شکست نے پی ڈی ایم کی سیاست میں ایک نئی سیاسی جان ڈال دی ہے ۔ اس کا کریڈیٹ یقینی طور پر آصف علی زرداری کو جاتا ہے کہ جو بھی سیاسی ، انتظامی حکمت عملی انہوں نے اختیار کی اس کا نتیجہ حکومتی رکن کی ایک بڑی شکست کے طور پر سامنے آیا ہے ۔اگرچہ مجموعی نتائج پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا لیکن اسلام آباد کی نشست پر شکست نے یقینی طور پر حکومت کو سیاسی محاذ پر کمزور کیا ہے ۔اسلام آباد کی نشست کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں دو اہم نشستوں پر مقابلہ تھا۔ حفیظ شیخ جن کو 164ووٹ ملے مگر دوسری جانب اسی اسمبلی سے تحریک انصاف کی امیدوار فوزیہ ارشد کو 174ووٹ ملے جو ظاہر کرتا ہے کہ حفیظ شیخ کے معاملے میں حکومتی جماعت تقسیم ہوئی ہے ۔
حفیظ شیخ کی ناکامی کو چار باتوں کی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ اول وہ تحریک انصاف کی داخلی سیاسی کشمکش ،ٹکراو کا شکار ہوئے ہیں او ران کی نامزدگی کو بطور امیدوار قبول نہیں کیا گیا یا ان کی اتحادی جماعتوں نے ان کے ساتھ وفاداری نہیں نبھائی ۔ دوئم ووزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے ان کو جتانے کے لیے جو سیاسی حکمت عملی اختیار کی وہ کارگر نہ ہوسکی اور پارٹی کے اندر ہی وہ اپنے ہی ساتھیوں سے سیاسی گمراہی کا شکار ہوئے ہیں ۔سوئم جن دس بارہ لوگوں نے حکومتی جماعت کو ووٹ دینے کی زحمت نہیں کی اس کی وجہ پیسے یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سودے بازی کا کھیل تھا۔ کیونکہ یہ منطق وزن نہیں رکھتی کہ لوگوں نے کسی اصول یا سوچ وفکر یا نظریاتی بنیاد سمیت ضمیر کی بنیاد پر متحدہ حزب اختلاف کو ووٹ دیا ہے ۔یقینی طور پر جن لوگوں نے پارٹی سے بغاوت کی ان کے ساتھ پس پردہ کچھ نہ کچھ تو معاملات طے ہوئے ہی ہونگے ۔چہارم یہ منطق دی جارہی ہے کہ اس بار اسٹیبلیشمنٹ کیونکہ نیوٹرل تھی تو حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد یقینی طور پر حکومت کو سیاسی دباو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ حزب اختلاف کا موقف ہے کہ کیونکہ حکومت قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ کھوچکی ہے تو ایسی صورت میں وزیر اعظم خود مستعفی ہوجائیں او رنئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں ۔اسی صورت میں وزیر اعظم عمران خان کو خود سے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کافی حد تک مناسب بھی ہے اور جرات مندانہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے اسمبلی میں اپنی سیاسی سطح پر اپنی برتری ثابت کریں۔وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کرکے گیند بنیادی طور پر پی ڈی ایم کے کورٹ میں ڈال دی ہے کہ وہ ان کے اعتماد کے ووٹ کو ناکام بنائیں ۔
سینٹ کے حالیہ نتائج کے بعد ایک بڑا سیاسی معرکہ سینٹ کے چیرمین او رڈپٹی چیرمین کی سطح پر ہونے والے انتخابات کا معرکہ ہوگا ۔اس اہم معرکہ میں آصف زرداری یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانا چاہتے ہیں ۔ جبکہ حکومت اپنا یا اپنی حمایت یافتہ فرد کو چیرمین سینٹ بنانا چاہے گی ۔ عددی تعداد میں متحدہ پی ڈی ایم کے پاس یقینا کچھ برتری ہے اور وہ چاہے گی کہ اس برتری کی بنیاد پرسیاسی طاقت کے مراکز میں چیئرمین سینٹ کی نشست حاصل کرکے بڑی طاقت حاصل کرلے ۔جبکہ حکومت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ موجودہ چیئرمین یعنی صادق سنجرانی کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کریں تاکہ چیئرمین سینٹ بلوچستان سے ہی منتخب ہو۔البتہ یہاں دیکھنا ہوگا کہ آصف زرداری ایسی کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں کہ وہ اسلا م آباد کی نشست کی طرح چیئرمین سینٹ پر بھی برتری حاصل کرسکیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ یقینی طور پر حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا ۔
جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو اب ان کی نئی حکمت عملی میں بھی یقینی طور پر حکومت مخالف جارحانہ حکمت عملی ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ حکومت پر دباو ڈال کر ان کو سیاسی طو ر پر کمزو رکرنے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ نظر آرہا ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی کسی دباو میں آنے کی بجائے خود بھی جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ پی ڈی ایم کا مقابلہ کرے گی۔ کیونکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ ہی اس اپوزیشن کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ اس لیے آنے والے دنوں میں دونوں فریقین میں سیاسی کشیدگی یا سیاسی تناو سمیت محاز آرائی میں زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ البتہ یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام آباد کی نشست جیتنا اور تحریک عدم اعتماد دومختلف چیزیں ہیں اور یہ سمجھنا کہ اسلام آباد معرکہ کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوسکتی ہے ، آسان کام نہیں ہوگا۔جہاں تک نئے انتخابات کا تعلق ہے یہ مطالبہ مسلم لیگ ن اور جے ےو آئی کا تو شدت سے ہوسکتاہے ، لیکن پیپلزپارٹی بظاہر اسی نظام کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی ۔کیونکہ وہ اقتدار کی سیاست میں سندھ کی سطح پر ایک بڑی شراکت دار ہے تو وہ سیاسی بساط لپیٹنے کے حق میں نہیں ہوگی او رنہ ہی زرداری کی حکمت عملی میں اسمبلیوں کو توڑنے کے حق میں ہونگے ۔
ایک امکان یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت کی شکست کے بعد ہمیں حکومتی سطح سمیت خود حکومتی جماعت میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں اوران کی ٹیم میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں ۔ اسی طرح تحریک انصاف کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ پارٹی میں جو لوگ گروپ بندی کی سیاست کا حصہ ہیں ان کے خلاف بھی کسی نئی حکمت عملی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔وزیراعظم اس بات کی بھی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں کہ ان کے او ران کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے جو 16ووٹ کم ہوئے ہیں وہ کون لوگ ہیں او رکس بنیاد پر انہوں نے پارٹی سے بغاوت کی یا کچھ لین دین کیا او رکچھ کے خلاف کاروائی بھی متوقع ہے ۔وزیر اعظم خود بھی ارکان اسمبلی کے ساتھ رابطوں میں بہت کمزور رہے ہیں او راس میں بھی ان کو یقینی طور پر نئی حکمت عملی درکار ہوگی ۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ حفیظ شیخ کی جگہ اسد عمر کو دوبار ہ وزیر خزانہ بنایا جاسکتا ہے ۔یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یوسف گیلانی کے مقابلے میں ٹیکنوکریٹ حفیظ شیخ کو میدان میں اتارنے کا حکومتی فیصلہ بھی غلط تھا اور یہ فیصلہ بھی شکست کا سبب بنا ہے ۔اسی طرح حکومتی حکمت عملی یہ بھی نظر آرہی ہے کہ وہ سینٹ میں اپنی اس شکست کو بنیاد بنا کر ووٹوں کی خرید وفروخت کے معاملے پر زیادہ سیاست کرے گی او رالیکشن کمیشن پر بھی اپنا دباو بڑھائے گی کہ وہ ان تمام معاملات پر بڑی کاروائی کرے ۔کیونکہ وزیر اعظم بضد ہیں کہ ان حالیہ سینٹ کے انتخابات میں پیسے کا استعمال ہوا ہے او روہ اسے ہر صور ت میں بے نقاب کریں گے ۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت کو ئی ٹھوس شواہد پیش کرسکیں گے۔
یہ جو حکومتی کوشش تھی کہ وہ سینٹ میں بالادستی حاصل کرکے اپنی مرضی کی قانون سازی او ربالخصوص نیب کے قانون میں کچھ بڑی ترامیم کو یقینی بناسکے گی ، اب کافی مشکل نظر آتا ہے ۔برحال یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پی ڈی ایم گیلانی کی نشست جیت کر حکومت کو فوری طور پر دفاعی سطح پر لانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے او راب دیکھنا ہوگا کہ اس دباو کی کیفیت سے خود حکومت کیسے باہر نکلتی ہے او رکیسے اپنی سیاسی سطح پر موجود برتری کو قائم رکھتی ہے ۔حکومت ایک بڑے امتحان گاہ میں داخل ہوچکی ہے او راسے ہر سطح پر ایک بڑی موثر سیاسی حکمت عملی ہی درکار ہوگی جو اسے بحران سے نکال سکے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ