انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حسِیات کے سہارے زندہ ہے اور روزمرہ کے معمولات سر انجام دیتا ہے ۔ بنیادی حسِیات پانچ ہیں جن کو حواسِ خمسہ کہتے ہیں جن میں دیکھنے کی حس، سننے کی حس ، چکھنے کی حس، ہاتھ یا کسی جسم کے حصے سے چھونے کی حس، اور سونگھنے کی حس شامل ہے۔۔۔
ایک حس کہ جس کو چھٹی حس کہا جاتا ہے ایک الارم ہے کہ جو انسانی دماغ میں کبھی کبھی بج اٹھتا ہے اس چھٹی حس کے بارے میں سائنس دانوں کا کیا خیال ہے مجھے نہیں معلوم۔۔۔
میرے نز دیک ضروری یہ ہے کہ اگر آپ حواس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو بد حواسی کو سمجھنا چاہیے، کیونکہ بد حواسی وہ کیفیت ہے کہ جس میں نہ سامنے پڑی چیز نظر آتی ہے، نہ سامنے والے شخص کے جلنے کی بو محسوس ہوتی ہے، نہ کھانے کا ذائقہ معلوم ہوتا ہے، جسم سُن ہونے کی وجہ سے نہ حرارت محسوس ہوتی نہ سردی، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کان میں جو آواز پڑ رہی ہے وہ سریلی ہے یا بھدی، تو حواس کو سمجھنے کے لیے بد حواسی کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔۔
حسیات یعنی Senses کے ضمن میں کچھ اور بھی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں مثلاً Commen Sense ، Non- Sense، Political Sense وغیرہ وغیرہ۔۔۔
جب بھی میں نے اس ملک کی سیاست پر غور کیا تو مجھے اس کی تشریح کرنے میں ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا، لیکن جب غور کیا تو احساس ہوا کہ اس ملک کی سیاست کو سمجھنے کے لیے کیوں نہ دو ٹرمز کو ملا کر دیکھا جائے
تو وہ بنی Political Non-Sense آئیے اس کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
اگر آپ پاکستان میں موجود کسی بھی پارٹی کے سپورٹر سے بات کریں تو وہ آپ کو اپنے لیڈروں کی عظمت سے متعلق وہ دلیلیں پیش کرے گا کہ جو نہ صرف حقائق سے دور ہوں گی بلکہ مزاحیہ بھی ہوں گی، لیکن اسی طرز کا کوئی کارنامہ اگر آپ اس کے مخالفین کا سنا دیں تو اس میں سے ایک منٹ سے پہلے مین میخ نکل آئے گی اگر کسی کو کسی کے لیڈر کی کرپشن، نا اہلی یا چاپلوسی یاد کرا دی جائے تو اس کو ایک منٹ سے پہلے جنرلائز کر دے گا، مثلاً اگر کوئی کہے کہ آپ کا لیڈر اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے بعد اقتدار میں آیا ہے تو جواب میں فوراً کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں اور فلاں بھی ایسے ہی آیا تھا، اگر کہا جائے کہ آپ کے لیڈر نے یہ کرپشن کی ہے تو باقی کون سے دودھ کے دھلے ہیں؟؟ تو سوال تو پھر یہ ہے کہ اگر سارے ہی ایسے ہیں تو آپ کے لیڈر کو ہی سپورٹ کیوں کیا جائے؟؟ اس سوال کا جواب ہر کسی کا اپنا ہے اور نوے فیصد کا جواب منطق سے کوسوں دور ہے۔۔۔
ایسے بھی ہیں جو ہر سیاسی پارٹی کو کرپٹ مانتے ہیں اور ہر لیڈر کو بے ایمان، انہیں اسٹیلمنٹ پسند ہے ان کا مؤقف بہت دلچسپ ہے وہ کہتے ہیں کہ بھٹو کو ہم کیوں مانیں اس کو تو ایوب خان لائے تھے نواز شریف کو کیوں مانیں کہ اس کو ضیاء الحق اور جنرل جیلانی لائے تھے عمران خان کو کیوں مانیں کہ اس کو حمید گل سے لیکر باجوہ تک ہر ایک کی سپورٹ تھی وہ بنیادی طور پر دو باتیں کہتے ہیں ایک یہ کہ سب فوج کی پیداوار ہے اور دوسری یہ کہ سب کرپٹ ہیں۔۔۔ اچھا اب سوال یہ ہے کہ اگر بھٹو نے ملک کی بربادی کی تو اس بربادی کے ذمے دار ایوب خان بھی تو ہیں کیونکہ وہ بھٹو کو لائے تھے؟؟ اگر نواز شریف کو کرپشن پر سزا ملنی چاہیے تو سزا تو ان جنرلوں کو بھی ملنی چاہیئے کہ جنہوں نے نواز شریف کو پاس بُلا کر عہدے دئیے لیکن اس منطق کو اسٹیبلشمنٹیئے نہیں مانتے، جیسا کہ ہر کوئی بشمول عمران خان یہ کہتا ہے کہ آئی ایس آئی نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی پنجاب سے ختم کرانے کے لیے پیسے دئیے لہذا نواز شریف کرپٹ ہے مان لیا لیکن وہ تو کرپٹ ہے کہ جس نے پیسے لیے لیکن وہ مٌلکی ایجنسی کہ جس کے ذمے ملک کی حفاظت تھی وہ مٌلکی خزانے سے سیاست دانوں کی خرید وفروخت کر رہی تھی کیا وہ کرپٹ نہیں ہے؟؟ اس پر سوال اٹھانا اپنی اور ملکی سلامتی دونوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔۔۔
مجھے ہر وہ سیاسی ورکر کہ جو خود کو سیاسی کارکن مانتا ہے بد دیانت لگتا ہے کہ جو اپنی جماعت سے سوال پوچھے بنا دوسرے پر انگلیاں اٹھاتا ہے مثلاً ایک پیپلز پارٹی کا حامی ہو اور وہ اندرون سندھ کی سڑکوں کا حال جانتے ہوئے بھی موٹر وے پر صرف اس لیے تنقید کرتا ہو کہ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ نواز لیتی ہے تو وہ پولیٹیکلی نان سینس ہے، اگر کسی مسلم لیگ نواز کے کارکن کو عدالتوں کی عمران خان کو دی گئی عدالتی سہولت کاری بری اور میاں نواز شریف کو ائیرپورٹ پر دی گئی سہولت کاری ریاستی گناہوں کا ازالہ معلوم ہوتی ہو تو وہ پولیٹیکلی نان سینس ہے، اسی طرح اگر کسی تحریکِ انصاف کے حامی کو 2024 میں آنے والا الیکشن فکسڈ محسوس ہو رہا ہو لیکن وہ 2018 کے الیکشن کی شفافیت کا قائل ہو تو وہ پولیٹیکلی نان سینس ہے، وہ کہ جو جنابِ انوار الحق کاکڑ اور جنابِ محسن نقوی کی حکومت سے مطمئن صرف اس لیے ہو کہ کہیں وہ پارٹی کہ جس کو وہ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا زیادہ ووٹ حاصل نہ کر لے وہ پولیٹیکلی نان سینس ہے ۔۔۔
اگر پاکستان کی سب سے پرانی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور چیئرمین کے سیاسی مؤقف میں واضح اختلاف ہو، والد کہتے ہوں کہ چیرمین ابھی زیر تربیت ہیں اور ٹکٹ تو میں نے ہی دینے ہیں اور اس پر کارکن کہتے ہوں کہ سب ٹھیک ہے تو وہ کارکن پولیٹیکلی نان سینس ہیں، ابھی کل ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف ان چودھری شجاعت کے ساتھ بیٹھے تھے کہ جن کی پارٹی نے پرویز مشرف کی سہولت کاری کی تھی جو کل تک پرویز مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کرانے کا عزم رکھتے تھے تو اگر آج مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ قائد اعظم کے کسی کارکن کو یہ لگے کہ یہ دونوں جمہوریت کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں تو وہ پولیٹیکلی نان ہے۔۔۔
جن پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو نو مئی ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور سانحہِ ماڈل ٹاؤن ایک حقیقی وقوعہ معلوم ہوتا ہے وہ پولیٹیکلی نان سینس ہیں، جن کارکنوں کو فالودے والوں کے، مالیوں کے، باورچیوں کے بے نامی اکاؤنٹ درست جبکہ فرح گوگی ایک فرضی کردار لگتا ہے وہ پولیٹیکلی نان سینس ہیں۔۔۔
وہ جو کہ آج باجوہ اور جنرل فیض کو موجودہ مسائل کی واحد وجہ بتاتے ہیں، وہ کہ جو عمران خان کی جیل کو کسی جہاد یا جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں، وہ کہ جو آصف زرداری کی ڈیل کرنے کی بے پایاں صلاحیت کو ان کی مفاہمت کی سیاست سے تعبیر کرتے ہیں، وہ کہ جو اسحاق ڈار کی نواز لیگ میں موجودگی کو ان کی معاشیات کی بے پناہ صلاحیت کا شاخسانہ سمجھتے ہیں، وہ کہ جو مریم نواز شریف کو بینظیر بھٹو یا ان سے بھی بہتر سمجھتے ہیں، وہ کہ جو چین کو دوست، سعودیہ کو برادر اسلامی ملک اور امریکہ اور منجملہ ممالک کو دشمن سمجھتے ہیں سب پولیٹیکلی نان سینس ہیں۔۔۔
میں مندرجہ بالا تمام طبقات کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپکے یہ تمام نظریات کسی طاقتور نے آپ سے منوائے ہیں کیونکہ ان نظریات کا پرچار اور ہم سب کا ان کو مان لینا اگر کسی کو سوٹ کرتا ہے تو وہ جرنیل زادوں اور طاقتوروں کا وہ طبقہ ہے کہ جس کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں کیوں ہم چوتھی جماعت میں پڑھائی گئی وہ کہانی بھول گئے کہ جس میں مرتے ہوئے باپ نے بیٹوں سے کہا تھا کہ تقسیم نہ ہو جانا ورنہ آسانی سے مارے جاؤ گے، ہم یہ بنیادی چیز کیوں نہیں دیکھ پائے کہ وہ لیڈر کہ جس کی وجہ سے ہم اپنے سگے بھائی سے لڑتے ہیں اس کی نہ اپنے بھائی سے بول چال ہے نہ باپ سے نہ ماں سے پاکستان کا کون سا بڑا لیڈر ہے کہ جس کے اپنے خاندان سے حالات سیاسی طور کشیدہ نہ ہوں ہر پارٹی میں چاہے اس کے اسٹیک ہولڈرز باپ بیٹا ہوں، بھائی بھائی ہوں، میاں بیوی ہو، بھائی بہن ہو، بہن بہن ہو، ماں بیٹی ہو اندر ایک گھمسان کا رن پڑا ہے لیکن باہر ایک نان سینسیکل کراؤڈ ہے جو حواس باختہ ہے، اور اس عالمِ بد حواسی میں وہ نہ جانے کیا بول رہا ہے کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کیا سن رہا ہے اس کا کیا مطلب ہے کوئی کچھ نہیں جانتا ہم میں سے کسی کو اس آگ کی تپش محسوس نہیں ہو رہی جو ہمارے سروں تک پہنچ چکی ہے اور عالم یہ ہے کہ شہر کے شہر اس بات کی تیاری کر رہے ہیں سموگ میں کیسے رہنا ہے۔۔۔
فیس بک کمینٹ