عالمِ بالا کی رونق اس فانی دنیا میں عید کی شاپنگ کے رش کو بھی مات دے رہی تھی۔ چند روز سے روحوں کا ایسا آنا جانا لگا تھا کہ سب محوِ حیرت تھے (شنید ہے کہ عالمِ بالا کا ایک دن اس عالمِ فانی کے ہزارہا برس پر محیط ہے)۔ انسان جس شدّت سے اپنی آبادی میں اضافے کی کوشش میں لگا تھا، دوسری جانب وہ اسی شدّت کے ساتھ کرہء ارض پر انسانی آبادی کم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھا۔ جنگوں، قتل و غارت گری اور خودکش دھماکوں کا دور تھا۔ فرشتے حیرت سے سوچتے کہ خدا کی یہ تخلیق آخر اپنے ساتھ کرنا کیا چاہتی ہے۔ خود کو یہ عقدہ وا کر سکنے کے قابل نہ پاتے تو اپنی کوتاہ علمی اور ربّ ِ ذوالجلال کی حکمتِ تخلیق کے اعتراف کے طور پر عرشِ بریں کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے۔
رش کے اس سیزن میں فرشتوں کی مصروفیات بھی بڑھ گئی تھیں۔ روز ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے والی روحوں کے معاملات نمٹانا، آمدورفت کا حساب کتاب رکھنا، اور سب سے بڑا مسئلہ تو غیرطبعی موت کا شکار افراد کی روحوں میں مقتولین کی روحوں کی بڑھتی تعداد کا تھا۔ ایک وقت تھا جب مقتولین کی روحوں سے دریافت کیا جاتا کہ ان کے قتل کا سبب کیا تھا، تو وہ جھٹ سے بتا دیتیں۔ اب چند روز سے ایسے سوالات پر روحیں ہونقوں کی طرح منہ کھول کر رہ جاتیں، اکثر کو تو معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ انہیں کس پاداش میں قتل کیا گیا ہے۔ اس پہ طرّہ یہ کہ ہر ایسی روح شہادت کے منصب کی دعویدار بھی نکلتی۔
اس لیے فرشتوں کی خصوصاً خودکش دھماکے میں مرنے والوں کی روحوں سے تو جان جانے لگی تھی۔ ادھر تو مقتولین شہادت کے دعویدار اور ادھر قاتل کو بھی شہادت کا دعویٰ ۔ ایسے میں فرشتوں کی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں چند ایسے فرشتوں سے خصوصی رائے طلب کی گئی جن کا کرّہ ارض پر زیادہ آنا جانا رہتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ سچائی اور جھوٹ کی پرکھ کا مسئلہ تو انسان کب کا حل کر چکا۔ آج کل تو اس عالمِ فانی میں میڈیا کا دور دورہ ہے۔ اخبار، ٹی۔وی،چینل، سوشل میڈیا، غرض یہ کہ کون کون سا ایسا جن نہیں جس کی دسترس اور دستبرد کی کوئی حد معیّن ہو۔ ایک بے قابو جن ہے جو بوتل سے آزاد ہو گیا ہے۔ لمحوں میں سب معلومات کا تیا پانچا کر کے سچ سامنے لے آتا ہے۔ اب ایسے مصروف شب وروز میں کیوں نہ اس انسان کی ایجاد کردہ سہولت سے مستفید ہوا جائے۔ اور اس میں برائی ہی کیا ہے، آخر ہم بھی تو سامنے آئے بغیر انسانوں کی کتنے ہی معاملات میں امداد کرتے ہیں۔
یہ تجویز سب کو پسند آئی اور شوریٰ کے سب اراکین نے اس کی تائید کا عندیہ دیا۔ آخرِ کار شوریٰ نے یہ متفقہ کرارداد منظور کی کہ بم دھماکوں کے دوران راہئ ملک عدم ہونے والوں کی روحوں کے مابین منصبِ شہادت بخشے جانے اور گناہگار اور معصوم کا تعیّن کرنے کے لیے متعلقہ ملک، جہاں یہ حادثہ پیش آیا ہے، وہاں کے مؤقر اخبارات اور نیوز چینلز کی رائے کو اوّلیت دی جائے گی۔ ایک واقفِ حال فرشتے نے پہلے ہی اراکینِ مجلس کو خبردار کر دیا تھا کہ یہ سوشل میڈیا وغیرہ پر بہت گڑبڑ ہوتی ہے۔ یہاں کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ سوشل میڈیا کو اس لسٹ میں شامل نہ ہی کیا جائے، اور اخبارات اور نیوز چینلز کا انتخاب کرتے ہوئے بھی ان کی اشاعت، ریٹنگ اور ویور شپ کا خیال کیا جائے۔ آج کل ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس بحر کی شناوری کا مشتاق ہے۔ بالآخر ایک فریم ورک تشکیل دے دیا گیا، اور سب متعلقہ فرشتوں کو اس کے نفاذ کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔
اس کے نفاذ کے ساتھ ہی اہلِ اسلام کے دو برادر ممالک پاکستان اور افغانستان میں ایک ہی روز خودکش دھماکے ہو گئے، جن میں کئی جانیں چلی گئیں۔ دھماکہ کرنے والے ایک ہی شناخت رکھتے تھے، جسے انسان طالبان کے نام سے پہچانتے ہیں۔ مقتولین کی روحیں عالمِ بالا کے ریسپشن کاؤنٹر پر فیصلے کی منتظر ہیں، اور فرشتے سر پکڑ کر بیٹھے ہیں، کیونکہ ایک ملک کے مؤقر اخبار کے مطابق ان کے ملک میں ہوئے دھماکے میں جاں بحق افراد شہید ہیں، مگر ہمسایہ برادر اسلامی ملک میں ہونے والے دھماکوں میں جاں بحق افراد ہلاک شدگان ہیں۔ اور یہی حال برادر اسلامی ملک کے اخبارات کا بھی ہے۔ اور میڈیا سے فرشتوں کو یہ بھی معلوم ہونے لگا ہے کہ مارنے والوں میں بھی کچھ گڈ اور بیڈ جیسا فرق ہے، مگر یہ بھی حیرانی ہے کہ ایک ملک میں گڈ، دوسرے ملک میں بیڈ کیسے ہو جاتا ہے۔ اور فرشتے آج پھر اس حیرت میں گم ہیں کہ یہ بنی نوع انسان آخر اپنے ساتھ کرنا کیا چاہتا ہے!
فیس بک کمینٹ