بزرگ عموماً درست ہی فرماتے ہیں، کیونکہ وہ بزرگ ہوتے ہیں ۔ یہ سوچ کس قدر خوش آئیند ہے کہ کل کو ہم بھی بزرگوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے اور ہمارے ارشادات کو بھی قبولیت کی سند ملنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ تو بزرگ فرمایا کرتے ہیں کہ زیادہ پڑھنے سے انسان پاگل ہو جاتا ہے، ایک زمانہ میں ہم بزرگوں کی اس بات کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے تھے ، ناسمجھی کی عمر جو تھی۔ مگر اب قائل ہوئے جاتے ہیں کہ واقعی بزرگ جو کہتے ہیں درست ہی کہتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ ایسے ایسے لوگ بھی چار کتابیں پڑھ کر خود کو دانشور سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور دانشوری کے زعم میں کیا کیا اول فول لکھنے لگتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ سوشل میڈیا ہے اس جن کے بوتل سے باہر آنے سے قبل کم از کم یہ تسلی تو تھی کہ اربابِ اختیاراس طرح کی فضولیات کے نشریا شائع ہونے سے پہلے ہی ان کا دف ماردیں گے۔ مگر شومئی قسمت کہ ان کفار نے ہمیشہ کی طرح شیطانی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایجاد کر ڈالا۔ اب ان نام نہاد دانشوروں کو تو کھل کھیلنے کا میدان مل گیا، نہ کوئی روکنے والا اور نہ کوئی ٹوکنے والا۔ لگے ہیں اپنی دانشوری کے جھنڈے گاڑنے۔
اب یہی دیکھ لیجیے کہ انہیں کون سمجھائے کہ جن ہستیوں کے گرد تقدس کا ہالہ ہو وہ ہم سے برتر ہو جاتی ہیں۔ دیگر افراد کے لیے بنائے گئے خیروشر کے پیمانے ان کی شخصیت و کردار کی کسوٹی نہیں بن سکتے۔ مگر یہ لوگ ہیں کہ ایسی ہستیوں کو انسانی سطح پر لا کر دیکھنے کی نہ صرف خود کوشش کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھانے کی سعی فرماتے ہیں۔ ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے شاعرِ مشرق سرعلامہ محمد اقبال کوبھی نہیں بخشا۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جب کسی شخصیت کو رحمتہ اللہ علیہ کا اعزاز حاصل ہو جائے تو وہ عام انسانوں کی دسترس سے باہر نکل جاتی ہے۔ مگر اخلاقیات اور بزرگوں کے ادب سے ان لوگوں کا کیا علاقہ۔
پہلا اعتراض تو ییہ کیا گیا کہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانانِ برِصغیر کو جہانباز ی و جہانگیری کا درس اور خودی کا جو فلسفہ عنایت فرمایا یہ کسی غیبی الہام کی بجائے مغربی فلاسفرز کے نظریات کی خوشہ چینی کا نتیجہ تھا۔ اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے یہ بھی کہہ دیا کہ علامہ اقبال کی مشہور نظمیں مغربی شعرا کی نظوں کا چربہ ہیں ۔ اور تو اور اقبال پر ملکہ برطانیہ کی شان میں قصیدہ لکھنے اور اس قصیدے میں ملکہءبرطانیہ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر انہیں ”خدا کا سایہ“ قرار دینے کا بہتان لگانے سے بھی نہ چوکے۔ ادھر علامہ عباس جلالپوری صاحب نے ”اقبال کا علمِ کلام“ نامی کتاب لکھ کر اقبال کے علم و فضل کا خوب ٹھٹھہ اڑایا۔ اسی پر ہی بس نہ ہوئی بلکہ ایک صاحب نے تو اپنی کتاب میں سر علامہ محمد اقبال پر مرزا غلام احمد قادیانی سے بیعت ہونے کا الزام بھی لگا دیا۔ توبہ توبہ اور استغفار۔ ساتھ یہ اعتراض کہ انہوں نے سب مسلمانوں کو حریت کا درس دینے کے باوجود برطانوی راج سے سر کا خطاب کیوں قبول کیا؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ اقبال کے صاحبزادے بھی انہی لوگوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور اپنی کتاب میں اپنے والد کے متعلق ایسی باتیں تحریر کر ڈالیں کہ الامان۔ خیر ان سے کیا شکوہ کہ چراغ تلے اندھیرا ہی ہوا کرتا ہے، لیکن اس سے منفی ذہن رکھنے والوں کو شہ تو ملنی ہی تھی ۔ لگے اقبال کے پیغام اور ان کی ذاتی زندگی کے مابین اختلافی پہلو ڈھونڈنے اور ان کی رومانوی اور خانگی زندگی کو ہدفِ تنقید بنانے۔
اس تحریر کی وساطت سے اپنی نئی نسل سے میری یہی گزارش ہے کہ ان باطل قوتوں کے بہکاوے میں بالکل نہ آئیں۔ لے دے کر ایک ہی تو ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اگر ہم نے ان کے متعلق بھی بدگمانی پال لی تو نیا قومی شاعر کہاں ڈھونڈتے پھریں گے۔ اور ویسے بھی اقبال کی شاعری کہاں کہاں ہمارے کام نہیں آئی۔ اسکول کی اسمبلی ہو یا کوئی مضمون لکھنا ہو، خطابت کے دوران مجمع کا لہو گرمانا ہو یا نوجوانوں کو اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے جہاد پر آمادہ کرنا ہو۔ جمہوری رہنماؤ ں کا جلسہ ہو یا کسی آمر نے ملک و قوم کی سلامتی کا بیڑہ اٹھانا ہو۔ وہ ہر جگہ ہمارے کام آتے ہیں۔ اپنی کتاب ”سلیوٹ“ میں صدیق سالک لکھتے ہیں کہ ایوبی مارشلائی دور میں آئی ایس پی آرمیں ہمارے پاس ایک مولوی صاحب ہوا کرتے تھے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ انہیں کسی بھی موقف کی تائید میں قرآنی آیت لانے کو کہا جاتا تو وہ لے آتے، اور چند روز بعد اگر اس موقف کی مخالفت میں کسی قرآنی آیت کی ضرورت پیش آتی تو وہ یہ بھی مہیا کر دیتے۔ سرعلامہ محمد اقبال کی شاعری میں بھی تنوع کی یہ صفت بدرجہءاتم موجود ہے۔ سلطانیءجمہور کے زمانے کی آمد کی نوید سے لے کر ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں“ تک اقبال کی شاعری نے ہر موقع پر ہمارا ساتھ دیا ہے. چاہے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر گھوڑے دوڑانے ہوں یا اپنے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دینا ہو ۔ تو کیا یہ بات ہمیں ز یب دیتی ہے کہ ایسے موقع پر ہم طوطا چشمی سے کام لیتے ہوئے اقبال کے ناقدین کی صف میں جا کھڑے ہوں ؟