وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز میں جدت آتی چلی گئی ہے۔ حجام کی دکان ہیئر سیلون میں تبدیل ہو گئی، موچی کا پیشہ جوتے بنانے والی کمپنیوں کے بڑے بڑے برانڈز میں بدل گیا، سرائے کی جگہ ہوٹل انڈسٹری نے لے لی ، ماشکی کا کام منرل واٹر کمپنیز نے سنبھال لیا، غرض یہ کہ جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قدیم پیشے جدید رنگ میں ڈھلتے چلے گئے۔ اسی طرح چوکیدار یا محافظ دستوں کا کام پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیز نے سنبھال لیا ہے۔ مالیاتی شعبے خصوصاً بینکنگ سیکٹر کو، جہاں روپے پیسے کا لین دین معمول کی سرگرمی ہے، ان سکیورٹی کمپینیز کی خدمات سب سے زیادہ درکار ہیں۔ آپ کو عموماً اپنی مالی سرگرمیوں کے لیے بینک کی کسی برانچ میں جانے کا اتفاق ہوتا ہو گا، اور برانچ میں داخلے کے وقت آپ کا سب سے پہلا سامنا مستعد سکیورٹی گارڈز سے ضرور ہوتا ہو گا جن کے کاندھوں پر برانچ، اس کے عملے، صارفین اور بینک میں موجود کیش کی حفاظت کی ذمہ داری ہو تی ہے۔ مختلف پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں سے منسلک یہ گارڈز عموماً سکیورٹی فورسز کے ریٹائرڈ سپاہی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد سکیورٹی اداروں میں خدمات سرانجام دی ہوتی ہیں۔ ایک زما نہ کہ ان سکیورٹی گارڈز میں اکثر ایسے ریٹائرڈ فوجی مل جایا کرتے تھے جنہوں نے 65 ء یا 71ء کی جنگ میں حصہ لیا ہوتا تھا اور ان کے پاس ان جنگوں کی آنکھوں دیکھی داستانیں ہوا کرتی تھیں ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ نسل بوڑھی ہوتی چلی گئی اور ان کی جگہ ایک نئی کھیپ نے لے لی ۔ آجکل بینک کے سکیورٹی گارڈز میں آپ کو اکثر ایسے ریٹائرڈ فوجی ملیں گے جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشنز میں حصہ لیا ہو گا، اور کبھی آپ کو ان سے گپ شپ کا موقع ملے تو ان کے پاس دہشت گردوں کے خلاف معرکوں کی آنکھوں دیکھی بلکہ ہڈبیتی داستانیں ہوتی ہیں۔ ان سکیورٹی گارڈز کی زندگی کی کہانی بہت تلخ ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق ایسے نسلی گروہوں سے ہوتا ہے جنہیں برطانوی راج نے اپنی فوجی بھرتی کے لیے خام مال کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ”مارشل ریسز“ کا خطاب دیا تھا اور اپنے اسی لقب کی لاج رکھنے کے لیے یہ نسل در نسل فوج میں خدمات سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں اور اسی پیشے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پہلے ان کے افسران انگریز ہوا کرتے تھے مگر آزادی کے بعد گوری چمڑی والے افسران اب کہاں۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے، فوج بھی وہی، اور فنِ حرب بھی وہی ہے ۔ ان سکیورٹی گارڈز کی سکیورٹی کمپنی میں ملازمت اختیار کرنے کی داستان عموماً یکساں ہی ہو تی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے عموماً کوئی مسافر وین ”ڈالتا “ ہے یا جنرل اسٹور کھولتا ہے ۔ ان کی ساری عمر بندوق چلاتے اور احکامات کی ایک اچھے سپاہی کی طرح تعمیل کرتے گزری ہوتی ہے۔ کاروباری سمجھ بوجھ سے دور کا کوئی واسطہ نہیں رہا ہوتا۔ نتیجتاً سب رقم ڈبو دینے کے بعد خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ ادھر عمرِعزیز کا اکثر حصہ گھر والوں سے دور ایک خاص نظم و ضبط کی فضا میں گزرا ہوتا ہے۔ چنانچہ گھر والے ان کے ڈسپلن کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پاتے اور جلد ہی یہ بھی خود کو اپنے ہی گھر میں اجنبی اجنبی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ سو سکیورٹی کمپنی کی نوکری ہی ان کے لیے جائے پناہ ہوتی ہے جس کے لیے مطلوبہ مہارت کے معیار پر یہ پورے اترتے ہیں۔
یہاں یہ سکیورٹی کمپنیز کے استحصالی رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کمپنیز بینک سے سالانہ بنیادوں پر کروڑوں میں معاوضہ وصول کرنے کے باوجود انہیں قلیل تنخواہ دیتی ہیں اور بدلے میں ان سے طے شدہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کی جگہ مسلسل چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کروائی جاتی ہے۔ طبی طور پر کوئی بھی انسان مسلسل چوبیس گھنٹے مستعدی کے ساتھ ایسی ڈیوٹی ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ اس پر طرہ یہ کہ انہیں انتہائی بوسیدہ بلکہ کئی مرتبہ ناکارہ اسلحہ تھما کر موت کے منہ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بینک ڈکیتی کی کسی بھی کارر وائی میں ڈکیتوں کا پہلا نشانہ یہی بے چارے سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں اور کئی ایسے واقعات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر ان کی اس شہادت کو کسی بھی سطح پرکوئی پذیرائی نہیں ملتی اور نہ ہی کسی فورم پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ نئی ملازمت کے بعد کچھ عرصہ ہی ان کا فوجی طنطنہ قائم رہ سکتا ہے مگر جلد ہی انہیں پرانے تجربہ کار گارڈز یہ باور کر ا دیتے ہیں کہ اب ہماری نوکری کا دارومدار ان ”بلڈی سویلین“ بینک افسران کی خوشنودی پر ہی ہے اور رفتہ رفتہ ان بے چاروں کے انداز و اطوار میں عاجزی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ باقی کی کسر روزانہ بینک میں آنے والے کسٹمرز کا رویہ پوری کردیتا ہے جن کی اکثریت گارڈز کے تلاشی لینے یا وقتِ مقررہ کے بعد اندر آنے سے روکنے کو اپنی اہانت تصور کرتی ہے۔
اور اب آخر میں ایک جملہء معترضہ۔ شنید ہے کہ گزشتہ چند روز سے بینکوں کی سکیورٹی کا حساس فریضہ سرانجام دیتے ان سکیورٹی گارڈز کے طور اطوار کچھ بدلے بدلے سے ہیں اور ان کی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع ہونے لگا ہے۔ عرصہ سے بینک کے عملے کی نااہلیوں پر جی ہی جی میں جلتے کڑھتے اب احساسِ ذمہ داری کے ہاتھوں مجبور ہو کر بینک کی مینجمنٹ کو نہ صرف بینک کے معاشی معاملات کے متعلق مشورے دیتے پائے گئے ہیں بلکہ برانچ کے نظم و نسق کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بینک کے عملے کی جانب سے شعائرِ اسلامی کی پاسداری کو یقینی بنانے پر بھی زور دینے لگے ہیں۔ برانچ کے اربابِ اختیار میں ان کی اس دخل اندازی سے متعلق شدید خدشات پائے جاتے ہیں اور وہ ان کی معاشی اور انتظامی امور میں نا تجربہ کاری کا بھی انہیں احساس دلانا چاہتے ہیں مگر ان کے ہاتھوں میں لہراتی بندوق کو دیکھ کر چپ رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں.