غزل : اب کہاں طور پرانے والے
۔۔ عمار غضنفر
اب کہاں طور پرانے والے
سب ہیں انداز زمانے والے
سچ نہیں سننے سنانے والے
جھوٹ ہیں دل کو لبھانے والے
کس بلا کا ہے اندھیرا ہر سو
ہیں کہاں دیپ جلانے والے
موت کا رقص تھمے گا بھی کبھی
تھک گئے لاشے اٹھانے والے
وہ جو تھے چاک گریباں دو چار
کیا ہوئے دشت کو جانے والے
ہم کو تو قصے کہانی میں ملے
عشق میں خود کو بھلانے والے
اپنا ناصح یوں تماشا نہ بنا
ہم نہیں دام میں آنے والے
وقت کی لوح پر یوں نقش ہوئے
مٹ چلے ہم کو مٹانے والے
اب پلٹ کر نہ صدا دے عمار
ہم نہیں لوٹ کر آنے والے
عمار غضنفر
فیس بک کمینٹ