سیاست اور سیاستدانوں کے اصلی ا ور نقلی مسائل اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا عام بالغ شہری (جس کی ماہانہ آمدنی پندرہ سے تیس ہزار کے درمیان ہے اور جس کے متعلقین کی اوسط تعداد کم سے کم پانچ بنتی ہے ) اس وقت سخت پریشانی کا شکار ہے کہ خواب تو ایک طرف رہے، نیند بھی اُس پر حرام ہوگئی ہے۔
سرکاری اطلاعات کے مطابق اس وقت پاکستان کی 40% آبادی بھی سن و سال کے اعتبار سے پندرہ سے تیس برس کے درمیان ہے جس کی اکثریت بے روزگار اور تعلیم کے اعتبار سے ناخواندہ ہے اور تقریباً اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جنھیں کسی بھی طرح کے اسکول سے واقفیت اور شناسائی نہیں، اس پر آبادی میں اضافے کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ ہم ہر سال میں آٹھ لاکھ مزید افراد کا اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ یہ مسائل سب کے سب پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو راتوں رات حل کیا جاسکتا ہے کہ بقول عمران خان انھیں گزشتہ دونوں حکومتوں سے ورثے میں کرپشن ، منی لانڈرنگ ، اقربا پروری، ہڈحرامی اور قرضوں کے ہوشربا دباؤ وغیرہ وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں ملا ۔ ادھر حزبِ اختلاف کے ترجمان بھی اُن کی حکومت کی نالائقی ، ناکامی اور بدانتظامی کی ایک طویل فہرست کا دن رات وِرد کرتے چلے جارہے ہیں ۔
عین ممکن ہے کہ دونوں ’’بیان‘‘ اپنی اپنی جگہ پر حقیقت اور مبالغے سے کسی نہ کسی حد تک متاثر اور معمور ہوں لیکن عام آدمی کا سوال کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ اس کے دن کب بدلیں گے؟ اور اُسے اُس کے حقوق اور انصاف کب ملیں گے ؟ اب یہاں چند لمحوں کے لیے اس بحث کو چھوڑ دیجیے کہ ’’مرض‘‘ کی ’’کس وجہ‘‘ کی ذمے داری اس پر اور کتنی عائد ہوتی ہے اوریہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ’’مریض کس حال میں ہے اور اس کا فوری اور دیرپا علاج کس طرح سے کیا جائے۔
اسے یہ افاقہ محسوس اور دوسروں کو نظر آئے نہ یہ کہ Infection کی جڑوں کی تلاش اور اُن کے خاتمے کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جائیں جو منطقی اور طبی اعتبار سے تو درست اورضروری ہوں مگر تلاش اور علاج کا یہ دورانیہ اس قدر طویل ہوجائے کہ مریض کے جسم پر روز ایک نیا پھوڑا پیدا ہو اورموجود پھوڑے زیادہ تکلیف دہ ہوتے چلے جائیں یعنی مسئلہ نیت اور کوشش کا نہیں بلکہ اس ترتیب کا ہے جس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ غریب کا پیٹ دلاسے اور لیکچر سے نہیں بھرا جاسکتا اور یہ کہ بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی۔
ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر مہنگائی کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے بے شمار باتیں ہو رہی ہیں جن سے کئی ایک دل کو چھُوتی اور دماغ کو جھنجھوڑتی بھی ہیں مگر اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ فی الوقت 80% آبادی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ان میں تقریباً 60% لوگ وہ ہیں جو پہلے سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے اور جن کی کمریں دیوار سے لگے اب کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔ انھیں نہ تو اس بات کی سمجھ ہے اور نہ اس سے غرض کہ اُن کے ہاتھوں میں موجود روپے کی قیمت معاشیات کے کس قانون کے تحت کم ہو رہی ہے، وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اُن کی قوت خرید کم اور ضروریات کم یاب ہوتی چلی جارہی ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کو قدرے کم کرنے کے لیے آیئے وقتی طور پر ایک لطیفے کا سہارا لیتے ہیں۔
ہر زمانے کے لوگوں کو اگلی نسلوں کو اپنے زمانے کی باتیں خصوصاً اشیاء کی سستی قیمتوں کے قصے سنانے کا شوق ہوتا ہے۔ ایک دادا نے اپنے پوتے سے کہا کہ بیٹا میں اور تمہاری دادی مہینے کی پہلی کو تنخواہ ملنے پر سو کا ایک نوٹ لے کر گروسری اور شاپنگ کرنے نکلتے تھے، یقین جانو کہ پورے مہینے کا راشن، بچوں کے کپڑے ، کھلونے اور بیکری کا ڈھیرسارا سامان خریدنے کے بعد بھی کچھ پیسے بچ جاتے تھے ۔
پوتے نے تھوڑی دیر غور کیا پھر بولا ’’دادا اب یہ ممکن نہیں، اب انھوں نے ہر طرف کیمرے لگائے ہوئے ہیں‘‘ بات ہے تو مزیدار مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ موجودہ فی کس آمدنی میں واقعی یہ ممکن نہیں کہ کوئی دو وقت کی روٹی کا بھی ٹھیک سے انتظا م کرسکے۔ سوشل میڈیا پر طنز، غصے، مزاح، جگت، منت ترلا، آہ و زاری اور بددعاؤں سمیت مختلف انداز میں لوگ اسی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں جو یکے بعد دیگرے لگنے والے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسو ں کی وجہ سے ناقابل برداشت ہوتی چلی جارہی ہے ۔
اب اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ اس شور شرابے کے پیچھے اصل میں حزبِ اختلاف کے اسپانسرڈ میڈیا گروپس ہیں جو معاملات کو ایک منظم سازش کے تحت بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں یا یہ کہ پچھلی حکومتوں کے لیے اور برباد کیے ہوئے قرضوں اور اُن کے سود کو اُتارنے کے لیے ایسا کرنا حکومت کی مجبوری ہے اور عوام کو اس امتحان کی گھڑی میں اُس کا ساتھ دینا چاہیے تو غالباً یہ صحیح اور مناسب جواب نہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی قربانی بے مقصد نہیں کی جاتی۔
آپ کسی شخص کو دو کے بجائے ایک روٹی کھانے پر یہ کہہ کر تو آمادہ کرسکتے ہیں کہ اس قربانی کے نتیجے میں آنے والی کل میں نہ صرف اُسے پیٹ بھر کر کھانے کو ملے گا بلکہ اس کا اَجر اس کی آیندہ نسلوں تک بھی پہنچے گا مگر یہ آمادگی صرف اُس صورت میں تسلسل اور طاقت اختیار کرسکتی ہے، جب اُسے اس آنے والے خوب صورت کل کی نشانیاں بھی ساتھ ساتھ نظر آتی رہیں۔
موجودہ حکومت اور بالخصوص اس کے سربراہ یعنی عمران خان کی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی اصل میں یہی ترتیب کا مسئلہ ہے کہ اگر اُن کی تمام باتوں کو سچ اور قابلِ عمل مان بھی لیا جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر رہتا ہے، اصلاح احوال کی ترتیب میں اگر عوام کے مسائل اور مشکلات کو پیچھے دھکیل کر ایک ایسا راستہ اپنایا جائے جو ٹیڑھا اور دلدلی ہونے کے ساتھ ساتھ مفادات کی آندھی کی ضد میں ہو اور جس پر چلنے و الوں کے پاؤں کے جوتے بھی یہ کہہ کر اُتروا لیے جائیں کہ یہ سفر ایک طویل قربانی چاہتا ہے تو شائد چند ایک سرپھروں کے سوا کوئی بھی زیادہ دیر ساتھ نہیں دے سکے گا۔ حقوق اور فرائض کی بجاآواری میں توازن پیدا کرکے تو گاڑی چلائی جاسکتی ہے مگر سارا بوجھ کسی ایک طرف ڈال دینا صحیح نہ ہوگا۔
سو اس وقت سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آپ اپنی کرپشن کوختم کرنے اور قومی مجرموں کو سزائیں دینے کے ایجنڈے اور ٹیکس دہندگان کے دائرے کو وسیع کرنے پر بے شک جتنا مرضی زور دیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی کی کم از کم ساری ضرورتوں کو پورا کرنا نہ بھولیں، بگاڑ جتنا مرضی زیادہ سہی مگر اس میں کمی اور اصلاح اُس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک اس کو درست کرنے والے تمام لوگ آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوتے۔ سو سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایئے کہ آپ کے ساتھی یعنی اس ملک کے عوام کے رزق میں آسانی اور کشادگی اوراُن کی سوچ میں اعتماد اور تعمیر کے جذبے کو اُجاگر کیا جائے کہ یہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔
ملک کی تعمیر و ترقی اور حالات کی اصلاح کا معاملہ بھی دونوں ہاتھوں سے بننے والی تالی کی طرح ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ سے تو صرف تھپڑ ہی مارا جاسکتا ہے، چاہے یہ اپنے گال پر لگے یا کسی دوسرے کے منہ پر۔ سو ضروری ہے کہ ایک طرف تو حکومت اپنی ترجیحات کی ترتیب پر نظرثانی کرنے اور عوام کو اس مہنگائی اور اس سے پیدا شدہ پریشانی سے نکالے، وہاں حکومت مخالف جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے عزائم کی ترتیب میں تبدیلی کریں اور کم ازکم حکومت کے ان اقدامات کی مخالفت برائے مخالفت نہ کریں جن سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہو اور وہ خود سانس لینے کے قابل ہوسکے کہ عوام کی خوشی اور خوشحالی بھی وہ گرہ ہے جسے کھولنے کے عمل میں پانچوں انگلیوں کا ایک ہونا ہی شرط اول ہے ۔
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اِک دیوانے سے
ساری گرہیں کھل جاتی ہیں ایک گرہ کھل جانے سے
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)