خدا کا کرم ہے کہ ہمارے معاشرے میں حق و باطل کی پہچان آسان سے آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ مومن اور منافق کے مابین فرق واضح تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ حب الوطنی اور غدّاری کے پیمانے متعیّن کر لیے گئے ہیں۔ دوست اور دشمن کی شناخت کرنا مشکل نہیں رہا۔ ایک سچا مسلمان اور محبِّ وطن پاکستانی بننے کی راہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ حق و باطل کی اس کسوٹی پر کھرے اور کھوٹے کی پہچان اب بہت آسان ہے۔ آپ نے کس راہ پر چلنا ہے، کون سا راستہ چننا ہے یہ آپ کے ایمان کی پختگی اور صفائے قلب پر منحصر ہے۔
اگر آپ حضرت علامہ خادم حسین رضوی کی صدا پر لبیک کہنے والے ہیں اور ان کے فلسفہ و نظریات سے مکمل طور پر متفق ہیں تو پھر آپ کے ایک پکاّ اور سچا عاشقِ رسول ہونے پر کوئی شبہ نہیں۔ آپ کے معاملات چاہے جیسے ہی کیوں نہ ہوں، یقین مانیے اب آپ ایک سرٹیفائد عاشقِ رسول ہیں۔ دوسری جانب اگر آپ توہین کے نام پر ماورائے عدالت قتل اور ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے انصاف پر سوال اٹھاتے ہیں تو یقیناً آپ کی شقاوتِ قلبی اور سیاہ بختی ہقینی ہے۔
اسی طرح اگر آپ گڈ اور بیڈ طالبان کی تقسیم کے قائل ہیں۔ اور آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ افغانی طالبان غزوہء ہند کا ہراول دستہ اور اس خطہء زمیں پر اسلامی سلطنت کے قیام کی بشارتوں کی تکمیل کا ذریعہ ہیں، جبکہ دوسری جانب پاکستانی طالبان دہشتگرد ہیں جنہیں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے دشمن ممالک کی اشیر باد حاصل ہے تو آپ کو مبارک ہو کہ آپ کا نام بھی غزوہء ہند کے مجاہدین کی فہرست میں شامل ہے۔ لیکن اگر آپ انتہاء پسندی کے یکسر مخالف ہیں اور ایسے تمام تشدّد پسند عناصر کو انسانیت دشمن سمجھتے ہیں تو یقیناً آپ دجالی قوّتوں کے آلہء کار ہیں۔
اگر آپ دو قومی نظریے کا تسلسل قیامِ پاکستان کے بعد بھی قائم رکھنے پر بضد ہیں اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ تصوّر کرتے ہوئے یہاں مقیم تمام اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تسلیم کرتے ہیں تو آپ کا ایک سچّا مسلمان اور کٹر پاکستانی ہونا کسی بھی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ ہاں مگر اس صورت میں کہ آپ کا یہ ماننا ہے کہ دو قومی نظریے کی ضرورت قیامِ پاکستان تک تھی اور اب قیامِ پاکستان کے بعد اس ملک کے تمام شہری بلا تفریقِ رنگ و نسل ایک قوم ہیں تو نہ صرف آپ کا ایمان بلکہ آپ کی حب الوطنی بھی مشکوک ٹھہرتی ہے۔
اگر آپ پاکستان میں نظامِ خلافت کے قیام کے متمنی ہیں تو آپ ایک سچے مسلمان اور پاکستانی ہیں، اور اگر آپ پاکستان کو ایک سیکیولر ڈیموکریسی بنانے کا خواب آنکھوں مین سجائے بیٹھے ہیں تو آپ کے ایمان کی کمزوری اظہر من الشمس ہے۔ اگر آپ پاکستان کی تشکیلِ نو ریاستِ مدینہ ماڈل پر کرنے کےحق میں ہیں تو آپ راہِ راست پر ہیں۔ لیکن اگر آپ ریاستِ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے موجودہ زمانے کی ترقی یافتہ اقوام کے ماڈل کو اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں تو آپ باطل کے اندھیروں میں بھٹکنے والے ہیں۔
اگر آپ پاکستان کے قیام کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر سمجھتے ہوئے ان کی شاعرانہ و روحانی عظمت کے قائل ہیں تو آپ ایک محبِّ وطن مسلمان ہیں، بصورتِ دیگر مرزا غالب وغیرہ جیسے کسی لبرل سے شاعر کی شاعری کو آفاقی شاعری سمجھتے ہیں تو آپ کا قلب یقیناً نفاق کی آماجگاہ ہے۔
اگر آپ اس بات کے قائل ہیں کہ لاپتہ افراد اپنی مرضی سے غائب ہو کر کسی خفیہ گوشے میں ملک کے خلاف تخریب کارانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں تو آپ کی حب الوطنی کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ لیکن اگر آپ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں تو یقیناً آپ کو بیرونِ ملک سے ڈالر ملتے ہیں۔
اگر آپ عافیہ صدیقی کو قوم کی بیٹی سمجھتے ہیں اور ملالہ کو یہودی ایجنٹ سمجھتے ہیں تو آپ کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے کی جراءت کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ بصورتِ دیگر آپ خود سمجھدار ہیں۔
اگر آپ میڈیا کی شدید سنسر شپ کے قائل ہیں اور شر پسند صحافیوں کو دامے، درمے، قدمے و سخنے سبق سکھانے کی کوششوں کے حامی ہیں تو آپ ایک محبِّ وطن پاکستانی ٹھہرے۔ مزید یہ کہ اگر آپ اوریا مقبول جقن، انصار عباسی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو اقلیمِ صحافت کے شاہسوار تسلیم کرتے ہیں اور حامد میر، عاصمہ شیرازی، نصرت جاوید اور مبشر زیدی حیسے صحافیوں کو لفافہ صحافی اور دجّالی میڈیا کے کل پرزے سمجھتے ہیں تو یقین مانیں کہ آپ کا جذبہء ایمانی اور حب الوطنی کسی کی تصدیق کی محتاج نہیں۔
اگر آپ چند اداروں کو کسی بھی قسم کی تنقید سے بالاتر سمجھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ جو کہ پسِ پردہ رہ کر اس کے خلاف ہونے والی کفّار کی ہر سازش کو ناکام بناتے چلے آ رہے ہیں وہ ہر قسم کے آئین و قانون سے بالاتر ہیں اور وہ جو کرتے ہیں وہ اچھے ہی کے لیے ہوتا ہے تو آپ کی حب الوطنی مسلّم ہے۔ بصورتِ دیگر آپ کا اب تک منصفہ شہود پر موجود ہونا ایک کرشمہ سے کم نہیں۔
تو اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ایک سچا اور پکا مسلمان اور محبِّ وطن پاکستانی بن کر رہنا چاہتے ہیں یا پھر راندہء درگاہ ہو کر اپنی دنیا اورعاقبت تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ فیصلہ نہایت آسان ہے۔ دونوں راستے روزِ روشن کی مانند عیاں ہیں۔ اور اگر آپ پھر بھی باطل کا راستہ چننے پر مصر ہیں تو آپ اپنے اچھے بُرے کے خود ذمہ دار ہیں۔ مشتری ہوشیار باش۔
فیس بک کمینٹ