پرویز مشرف کا دورِ حکومت چل رہا تھا کہ میرے پاس ایک نوجوان آتا ہے اور اپنا تعارف کراتا ہے کہ مَیں فلاں علاقے کا ناظم ہوں۔ تو مجھے اس کی شکل دیکھ کر یاد آتا ہے کہ یہ نوجوان تو کافی عرصے سے ’’کتاب نگر‘‘ پر آتا ہے، کتابوں کو دیکھتا ہے ، اس میں سے ایک دو کتب کو بڑی مشکل سے پسند کرتا ہے، خرید کر چلا جاتا ہے۔ اکثر وہ اپنے بچوں اور اہلیہ کے ساتھ آتا، خریداری کرتا، مجھ سے سیاسی صورتحال پر مختصر سی گپ شپ کرتا اور بچوں کو خوش کر کے چلا جاتا۔ میرے لیے وہ شکل اور نام شناسا ٹھہری کہ ایک دن ہم دونوں نے اپنے فون نمبرز کا تبادلہ کیا تو سادہ سے مزاج رکپنے والا وہ نوجوان مجھے کہتا ہے کہ آپ کبھی ہمارے گھر آئیں۔ رات ٹھہریں، گپ شپ کریں گے، شکار کریں گے اور پھر آپ واپس چلے جائیے گا تو مَیں اسے کہتا ہوں کہ جلدی آپ کی طرف آنے کا پروگرام طے کرتے ہیں۔ وہ نوجوان ہلکا سا مسکراتا ہے، ہاتھ آگے بڑھا کر کہتا ہے کہ مَیں آپ کے آنے کا انتظار کروں گا۔
قارئین کرام! اس نوجوان کا معمول تھا کہ وہ مہینے دو مہینے بعد میرے پاس آتا۔ اس کے اہلِ خانہ اپنی پسند کی چیزوں کا انتخاب کرتے اور وہ میرے ساتھ گفتگو کرتا رہتا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے بہت سے نام سامنے آئے۔ ایک ریس تھی کہ اچانک وزیرِ اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے طور پر نامزد کر دیا۔ یہ وہی عثمان بزدار ہے جس کا مَیں نے کالم کے آغاز میں ذکر کیا۔ سادہ، کم گو اور سیاسی طور پر ناپختہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ سیاسی طور پر تیز اور روایتی شاطرانہ چالوں سے واقف ہوتا تو اب تک وہ اپنے ناقدین کے منہ بند کر چکا ہوتا۔ سانحہ ساہیوال سے پہلے اس کو پاکپتن کی انتظامیہ کے معاملے میں جس طرح میڈیا نے ڈیل کیا ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے مخالفین کو بتا چکا ہوتا کہ وہ طاقتور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن عثمان بزدار کبھی بھی طاقتور وزیرِ اعلیٰ نہیں بن سکتا حالانکہ اس نے دو تین افسران معطل کر کے اور بعض علاقوں کے اچانک دورے کر کے ’’شہباز شریف‘‘ بننے کی کوشش بھی کی لیکن اس کی بات نہ بن سکی۔ جبکہ اس کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کر رہی ہے وہ اسے ’’شہباز شریف‘‘ بنانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ اس کی کابینہ کے ایک رکن نے اسے بہاولپور کے دورے کے دوران ایک کھیت میں لے جا کر ایک خاتون سے پوچھا کہ اماں جی کیا آپ اسے جانتی ہیں؟ اماں نے انکار کیا تو کابینہ کے اس رکن نے کہا یہ عثمان بزدار ہے لاہور میں ’’شہباز شریف‘‘ لگا ہوا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ اس مکالمہ کی ویڈیو کس نے بنائی اور پھر وہ ویڈیو کیسے وائرل ہوئی؟ اس پر وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟ کہ وہ ایک کمزور وزیرِ اعلیٰ ہیں۔
حال ہی میں عثمان بزدار کے بارے میں دورۂ ملتان کے بارے میں بہت سی ویڈیوز منظرِ عام پر آئی ہیں کہ پہلی ویڈیو تو اُن کے روٹ پر آمد و رفت بند کر کے کرفیو لگانے کی ہے، دوسری ویڈیو پولیس کی تقریب کے دوران آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی سے ہاتھ نہ ملانے کی ہے اور تیسری ویڈیوی اُسی دن ملتان کے بعد ٹوبہ میں صحافیوں سے بات کرنے کی ہے۔ پہلی ویڈیو سے پہلے ہم بھی اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس دن وزیرِ اعلیٰ پولیس ٹریننگ سکول کی پاسنگ آؤٹ کے لیے ملتان آئے تو ان کے روٹ پر دکانیں بند اور راستے پر ہو کا عالم تھا۔ مَیں خود قاسم بیلہ سے جب ایئرپورٹ جانے والی سڑک پر مڑنے لگا تو مجھے ٹریفک وارڈن نے اس سڑک پر جانے سے روک دیا۔ مَیں نے کہا مجھے آئی ایس پی آر جانا ہے تو انہوں نے اجازت دے دی۔ آئی ایس پی آر سے فارغ ہو کر مجھے زکریا یونیورسٹی جانا تھا۔ ایئرپورٹ سے لے کر پولیس ٹریننگ سکول تک ٹریفک وارڈن اور پولیس اہلکار سینکڑوں کی تعداد میں تعینات تھے۔ سڑکیں صاف ستھری، اطراف پر چونا اور چھڑکاؤ، غرض ہو کا عالم تھا۔ ملتان روایتی مثالوں سے کوسوں دور تھا یعنی نہ گرد تھی نہ گرما۔ بس صفائی اور کرفیو کا منظر تھا۔ مَیں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں یونیورسٹی جا رہا تھا۔ واپس جب آیا تو وزیرِ اعلیٰ پولیس والوں کی تقریب میں شرکت کر کے واپس جا چکے تھے۔ ٹی وی چینل پر ان کی تین سیکنڈ کی ایک ویڈیو نے عذاب برپا کر رکھا تھا کہ جب آئی جی پنجاب وزیرِ اعلیٰ کو یادگاری سووینئر دینے کے بعد ان سے ہاتھ ملاتے ہیں تو وہ ایک سیکنڈ کے لیے دیکھے بغیر واپس جانے لگتے ہیں تو اگلے ہی لمحے انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے کوئی ہاتھ ملانا چاہتا ہے اور وہ فوری ہاتھ ملا کر واپس آ جاتے ہیں۔ میڈیا والوں نے یہ وزیر اعلیٰ سے یہ زیادتی کی کہ انہوں نے صرف ہاتھ نہ ملانے والے منظر کو بار بار دکھایا جبکہ اس کے بعد ہاتھ ملانے والے منظر کو یکسر اپنی ویڈیو سے آؤٹ کر دیا۔ اس پر ان کی میڈیا ٹیم کی نااہلی ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اس بات کا نوٹس نہ لیا اور تمام دن پرائیویٹ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر مذاق چلتا رہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب آئی جی پنجاب سے ہاتھ ملانا بھول گئے۔ اس جلتی پر تیل عثمان بزدار نے خود ڈال دیا جب ان سے ٹوبہ میں کسی صحافی نے پوچھا تو انہوں سادگی سے کہا ابھی مَیں نیا نیا وزیرِ اعلیٰ بنا ہوں اس لیے ہاتھ نہ ملا سکا۔ اب بندہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے پوچھے جناب ہاتھ ملانے کے لیے تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے تو ایک لمحہ توقف کرنے کے بعد اگلے لمحے ہی آئی جی سے ہاتھ ملا لیا تھا تو صحافیوں کو کھرا کھرا جواب دیتے لیکن کیا کریں ان کی میڈیا ٹیم بھی ان کا تماشا دیکھ رہی ہے۔
جہاں تک ملتان میں ان آمد پر پروٹوکول کا معاملہ ہے تو اس پر انہیں خود نوٹس لینا چاہیے تھا کہ وہ ایئرپورٹ سے پولیس ٹریننگ سکول بذریعہ گاڑی گئے تھے۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ پورے روٹ کے دونوں اطراف پر پولیس اور ٹریفک اہلکار ڈیوٹی کر رہے تھے۔ پیٹرول پمپ اور دکانیں بند تھیں۔ ایمبولینس اور نشتر کو جانے والے تمام راستے بند تھے۔ ایسا حفاظتی انتظام تو شہباز شریف کے لیے ہوا کرتا تھا۔ لیکن عثمان بزدار عمران خان کے شہباز شریف ہیں بلکہ وسیم اکرم ہیں چاہے ان کی کابینہ کا ایک وزیر ان کا تعارف لاہور کے ’’شہباز شریف‘‘ کے طور پر کراتا پھرے کہ عثمان بزدار شہباز شریف ہی ہے اگر وہ شہباز شریف ہے تو بیوروکریسی اس طرح بے لگام گھوڑا نہ بن چکی ہوتی جتنی آج بن چکی ہے۔ کہ اس وقت پنجاب میں ایک ایسا وزیرِ اعلیٰ کام کر رہا ہے جو روایتی سیاسی چالاکیوں سے ناواقف ہے اسی لیے آئے روز کوئی نہ کوئی قصّہ اور نئی کہانی ان کے بارے میں آ جاتی ہے۔
فیس بک کمینٹ