اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں عوامی سطح پر انتہائی مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ دونوں اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے اور دونوں کا تعلق بھی بڑے صوبے پنجاب ہی سے ہے لیکن دونوں کی نہ صرف سیاست بلکہ شخصیت بھی ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے اور یہی شخصی تضاد ان کی سیاست بلکہ کارکردگی کو بھی الگ الگ شناخت اور پیمانہ فراہم کرتارہا ہے۔
نواز شریف کم گو محتاط اور اس حد تک مہذب گفتگو کے حامل ہیں کہ جنرل پرویزمشرف کو بھی مشرف صاحب کہہ کر پکارتے رہے۔ جبکہ عمران خان اس سے بالکل الٹ یعنی مہذب الفاظ کے استعمال سے نا بلد اور گفتگو میں اس حد تک غیر محتاط کہ سیاسی مخالفین تو درکنار صحافیوں اور سرکاری افسروں تک کو بھی گالم گلوچ سے گریز نہیں کرتے۔ بحیثیت وزیراعظم کارکردگی کے حوالے سے نوازشریف سی پیک سے موٹروے تک کا پھریرا ایک فخر کے ساتھ لہرا رہے ہیں جبکہ عمران خان ہیلتھ کارڈ لہراتے دکھائی دیتے ہیں، نواز شریف قید و بند اور جلا وطنیوں کو اپنا سیاسی اثاثہ سمجھتے ہیں جبکہ عمران خان 92 کا ورلڈ کپ بھولنے نہیں دیتے۔ نواز شریف اپنے پیروکاروں کو سول بالادستی کی جدوجہد اور آئین و قانون کی سربلندی کے ساتھ ساتھ تہذیب و شائستگی کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ عمران خان اپنے کارکنوں کو ہر مخالف حتی کہ ریاستی اداروں کے خلاف بھی آتش فشانی رویے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
نواز شریف گزشتہ تین عشروں سے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے خاندان اور پارٹی سمیت مشکلات کا سامنا بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اٹک سے اڈیالہ جیل اور میڈیا ٹرائل سے جلا وطنی تک، انہوں نے خوفناک سیاسی انتقام سہہ بھی لیا اور برداشت بھی کیا۔ لیکن بعض سیاسی مصلحتوں (خصوصا ًموجودہ حالات میں حکومت قبول کرنے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو کمک فراہم کرنے) کے باوجود وہ بنیادی طور پر پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دیئے بلکہ ابھی تک ایک گمبھیر خاموشی کے باوجود سول سپرمیسی کے بیانیے سے پسپائی یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ان کا ایک بیان تک سامنے نہیں آیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود نہ صرف نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے اور ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اس کے طاقتور حریف عمران خان کو سیاسی طور پر گرانے سے اس لئے بھی گریزاں ہے تاکہ ’’بوقت ضرورت ‘‘ عمران خان سے پھر وہی کام لیا جائے جو پہلے بھی ان سے لیا گیا تھا یعنی سول بالادستی کے بیانیے کو پیچھے دھکیلنے کیلئے خان صاحب کی سیاسی مدد لی جائے۔کیونکہ اداروں پر عمران خان کی سیاسی گولہ باری کے پیچھے نہ تو کوئی نظریاتی سیاست ہے نہ پارلیمان کی بالادستی کا تصور، نہ آئین و قانون کی سربلندی کا خواب اور نہ ہی عوامی حاکمیت کی کوئی سوچ بلکہ محض ایک نکاتی ایجنڈا یعنی اقتدار تک (کسی بھی جائز یا ناجائز طریقےسے )رسائی ہی عمران خان کی اولین ترجیح ہے اور آخری خواہش بھی ۔جس کے بعد عمران خان ’’خطرناک‘‘ کی بجائے سیاسی سہولت کار بننے کو تیار ہوں گےاور ایسا انہوں نے اپنے اقتدار کی خاطرپہلے کیا بھی ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کی جماعت اگر چہ اقتدار میں ہے لیکن عوامی سطح پر اور با شعور طبقے میں اب بھی سول سپرمیسی کا بیانیہ انہی کی ذات سے جڑا ہے اور مقتدر قوتوں کے خلاف جارحانہ رویے اور انتہائی مقبولیت کے باوجودعمران خان اسے اپنی طرف موڑنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جہاندیدہ سیاسی کارکنوں اور با شعور طبقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خان صاحب کا جارحانہ رویہ کسی نظریئے کی بجائے اقتدار سے بے دخلی کے ردعمل سے پھوٹا ،جو عمران خان کی اقتدار میں واپسی کی صورت میں نہ صرف تحلیل ہو جائے گا بلکہ متضاد سمت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں مڑ بھی جائے گاگویا سول بالادستی کا بیانیہ ابھی تک بعض تحفظات کے باوجود نواز شریف کے ہاتھ سے پھسلا نہیں اور یہی اس کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بھی ہے۔ یہی ’’طاقت ‘‘نہ صرف نواز شریف اور مقتدر طبقے کے درمیان اعتماد کے فقدان اور فاصلے کی سب سے بڑی وجہ ہے بلکہ اس کے سبب عمران خان کو قانونی مسائل اور غیر محتاط اور جارحانہ رویے کے باوجود ایک تحفظ اور ’’کھیلنے کا میدان‘‘ فراہم کیے ہوئےہے،یقیناً عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کی اس’’مجبوری ‘‘سے واقف ہیں،اس لئے وہ انتہائی جارحانہ رویے کے ذریعے نہ صرف اقتدار میں واپسی کیلئے دن بدن دبائو بڑھاتے جا رہے ہیں بلکہ ایک مبالغہ آمیز عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کر چکے ہیں ۔
اس لئے ان کا اولین مطالبہ نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔پنجاب اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی نے اگر چہ عمران خان کے اعتماد میں اضافہ کیا لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی موجودہ مقبولیت مخصوص حالات اور منظر نامے ہی سے تشکیل پائی ہےجس میں سرفہرست بد ترین معاشی صورتحال اور خوفناک مہنگائی ہے جبکہ ان کا طاقتورسیاسی حریف اور پنجاب میں مدتوں سے مقبول نواز شریف نے بھی ابھی پنجاب کا رخ نہیں کیا ۔فرض کریں کہ موجودہ حکومت نے آنے والے دنوں میں اگرمعاشی بربادی پر قابو پالیا اور عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب رہی تو پنجاب میں نواز شریف کی قدرےخوابیدہ مقبولیت پھر سے دو ہزار تیرہ کی تاریخ دہرا سکتی ہے ،جب عمران خان نہ صرف اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے بلکہ انہیں مقتدر قوتوں اور میڈیا کی مبالغہ آمیز حمایت بھی حاصل تھی، تب نواز شریف صرف اپنی مقبولیت کی بنیاد پر پر اعتماد ہو کر انتخابی میدان میں اترے تھے ۔اور پھر عمران خان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اس کے سرپرست خان کی مقبولیت کا اندازہ غلط لگا بیٹھے اور انتخابی میدان کھلا چھوڑ دیا لیکن الیکشن کے نتائج آئے تو نواز شریف نے پورے پنجاب کو تسخیر کر لیا ۔
حرف آخر یہ کہ اگر عمران خان اپنی مقبولیت کو معقولیت کی طرف موڑنے اور توازن میں لانے میں ناکام رہے تو آنے والے شب و روز کے ہاتھوں میں ان کے سیاسی مستقبل کے لئے کوئی خوش کن سندیسہ ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ دو متضاد عوامل یعنی مقبولیت اور نامعقولیت آخر کب تک ساتھ چلتے رہیں گے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ