سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس پہ بولنے کے لیے عموماً نہ تو کسی قسم کی تعلیم ضروری سمجھی جاتی ہے اور نہ ہی کسی نکتہ نظر کا ہونا ہی کوئی وزن رکھتا ہے۔ یوں تو سیاست کے میدان میں آنے کے لیے بھی یہ دونوں باتیں کچھ خاص شمار نہیں ہوتیں۔
جو بات اہم سمجھی جاتی ہے، وہ ہے گلے کی رگیں پھلا کے چلانا، لوگوں پہ شخصی حملے کرنا اور کسی ایک لیڈر یا جماعت کی تعریف میں اپنی اور جملہ حاضرین و قارئین کی جان ایک کر دینا۔
کچھ یہ ہی حال بین الاقوامی سیاست پہ تبصروں کا ہے۔ جو شخص، عالمی لیڈروں کے نام اس طرح لے سکتا ہے جیسے وہ اس کے لنگوٹیے ہوں، ملکوں کی جغرافیائی اور سیاسی گہرائی و گیرائی جانے بغیر سپر و غیر سپر پاورز کی ماں بہن ایک کر سکتا ہو، اسی کو بین الاقوامی سیاست کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
سیاست پہ گفتگو ہی کی ایک ذیلی شاخ ہے، لیڈروں کی ذاتی زندگیاں۔ کسی بھی لیڈر کے بارے میں اس کے بچپن ،جوانی، تعلیمی کیرئیر، پسند نا پسند اور خاص کر اس کی نہایت نجی زندگی کے بارے میں فی البدیہہ ہوش ربا انکشافات۔ اگر آپ کے کھیسے میں یہ سب کچھ ہے تو یقین جانیے آپ کو سیاست کے بارے میں کچھ بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
سیاست پہ بات کرنے اور اپنے ارد گرد مجمع اکٹھا کرنے کے لیے ایک اور گر یہ ہے کہ خواتین سیاستدانوں کے بارے میں ایک مخصوص ذخیرہ الفاظ رکھیے۔ اہم ترین جملہ تو یہ ہے کہ ’یہ عورتیں؟ خیرات میں ملی سیٹ پہ آئی ہوئی عورتیں؟‘
مخصوص نشستوں پہ آئی ہوئی خواتین کے علاوہ کسی لیڈر خاتون پہ بات کرنی ہو تو اگر وہ آپ کی پسندیدہ پارٹی کی نہیں تو انھیں، کسب معاش کے قدیم ترین پیشے کی گالی دے کر بات شروع کریں۔
اگر خاتون آپ کی پارٹی کی ہیں تو مارے عقیدت کے ان کے ذکر سے پہلے ہی آبدیدہ ہو جائیں اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں ان کی ہر وہ اچھائی بیان کریں جس کا تعلق سیاست سے قطعا نہ ہو۔
سیاسی گفتگو اگر کسی یونیورسٹی یا کالج میں کرنے کا اتفاق ہو تو لیڈرز کے نام بے حد بے تکلفی سے لیں، ان کے بارے میں بات کرتے کرتے ٹھٹھک جائیں، زیر لب یا زیر مونچھ (حسب توفیق) مسکرائیں۔ سامنے کوئی استاد بیٹھا ہو تو اسے دیکھ کر معنی خیز انداز میں بات ادھوری چھوڑ دیں ’یہ جگہ ایسی باتوں کے لیے مناسب نہیں۔۔۔‘
سیاست پہ بات کرنے کا اہم ترین جزو بے وجہ کا جوش ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران کسی کو اختلاف رائے کی جرات ہی نہ کرنے دیں۔ پہلے ہی اس قدر مغلظات بکیں کہ لوگ اپنی اپنی عزت کو آپ کے تبصرے دم سادھے سنتے رہیں۔
اس کے علاوہ اہم ترین صحافیوں کے تبصروں کو بھی لفافوں کی دین اور ڈالروں کی پیداوار کہہ کے بیک جنبش قلم رد کر دیں۔ اپنے آگے نہ کسی کا چراغ جلنے دیں اور نہ ہی کسی کی آواز بلند ہونے دیں۔
بس اتنا دھیان رہے کہ اگر یہ ہی سارا ہدایت نامہ پڑھا، آپ سے تن و توش میں بھاری شخص سامنے آجائے تو فوری طور پہ سیاست سے بے زاری کا اظہار کریں اور امن و آشتی سے رہنے کی ضرورت پہ زور دیں۔ سیاست کو منافرت کی جڑ کہیں اور تاریخ سے نکال نکال کر اچھے وقتوں کا ذکر کریں جب یہ سیاست نامی بلا نہ ہوتی تھی اور سب مل جل کر رہا کرتے تھے۔
سیاست پہ عوامی گفتگو کے یہ گر ذہن نشین کرنے کے بعد آپ کو چائے خانے، تھڑے، پانچ ستارہ ہوٹل، شادی کی تقریب، فوتگی، چہلم، چھٹی، ولیمے، بچوں کے سکول کی میٹنگ، سب جگہ ایک ایسی اہمیت حاصل ہو گی کہ لوگ آپ کے آتے ہی خاموش ہو جایا کریں گے اور آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کریں گے کہ دیکھو، دیکھو کون آیا؟
کچھ اسی قسم کی مقبولیت ہمارے سیاسی قائدین بھی حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ رہی بات وژن اور نظریات کی تو کیا آپ جانتے نہیں کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح کیا ہے اور جو خواندہ بھی ہیں ان کا ذہنی معیار کیا ہے؟
اس کے باوجود بھی اگر آپ مصر ہیں کہ آپ سیاست کو غریب کی جورو سمجھ کے اس پہ الل ٹپ گفتگو نہیں کرنا چاہتے تو حضور آپ کے بارے میں بھی سیاسی گفتگو کرنے والوں کے پاس بہت اعلیٰ ذخیرہ الفاظ موجود ہے، جناب آپ ۔۔۔۔ ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ