پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے ترجمانوں نے حال ہی میں جو بیانات دیے ہیں، ان سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات نہ صرف تعطل کا شکار ہیں بلکہ فریقین میں کافی فاصلہ پیدا ہوا ہے۔ بیانات سے یہ یہی لگتا ہے کہ جیسے طرفین میں ایک دوسرے پہ اعتبار کرنے اور ساتھ چلنے کی کوئی خواہش موجود نہیں تھی۔
محض عذر خواہی کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا جسے جاری رکھنا اب محال دکھائی دیتا ہے۔ یہ تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ حکومت تحریک انصاف کو کوئی خاص رعایت دینے پر یا تو آمادہ نہیں تھی یا پھر وہ اس پوزیشن میں نہیں تھی۔ شہباز شریف کی حکومت خود اس امید کے سہارے پہ کھڑی ہے کہ تحریک انصاف سیاسی میدان سے باہر رہے۔ یا کم از کم اس کو اتنا دیوار سے لگا کر رکھا جائے کہ وہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے ملکی سیاست میں کوئی تلاطم برپا کرنے یا کسی تبدیلی کا سبب نہ بن سکے۔ اس کے علاوہ شہباز حکومت کی بنیاد فوج کو راضی رکھنے اور خوش کرنے میں ہے۔ اس وقت فوج کی خوشی یہ ہے کہ اس نے جو پودا پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف کے نام سے لگایا گیا تھا، اب اسے مزید بڑھنے نہ دیا جائے۔ اس کی آبیاری کرنے یا حوصلہ افزائی اور اسے سیاست میں کچھ جگہ دینے کی بجائے، اس کو ختم کیا جائے۔ اس کی جو کونپلیں یا شاخیں یعنی قائدین اپنی قیادت کے طرز عمل سے ہٹ کے راستہ بنانا چاہیں، انہیں تو شاید قبول کر لیا جائے۔ لیکن عمران خان نے جو بیانیہ بنایا ہے اور رویہ اختیار کیا ہے، وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
شاید تحریک انصاف کو بھی اندازہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اسے رعایت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عمران خان نے دسمبر کے شروع میں باقاعدہ کمیٹی بنا کر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیوں کیا تھا؟ وہ اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ 26 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی اور اس میں ناکامی کے بعد جب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر شدید الزام تراشی کی جا رہی تھی، عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کا اعلان ایک خوش آئند خبر تھی۔ اس طریقے کو بیشتر تجزیہ نگاروں نے پسند کیا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید عمران خان اب کسی نہ کسی سیاسی مصالحت کی طرف آنا چاہتے ہیں۔
اسی کے ساتھ جب انہوں نے اپنی پارٹی کی کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کر سکتے ہیں تو امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید تحریک انصاف نے اپنا سخت رویہ تبدیل کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ صرف اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے ساتھ ہی بات چیت کرنا چاہتی تھی۔ حکومت اور تحریک انصاف میں بات چیت کے دو سیشن ہوئے ہیں۔ دونوں سیشن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ایک دوسرے کی بات غور سے سنی گئی ہے اور ایک دوسرے کے لئے احترام کا رویہ دیکھنے میں آیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بند کمرے کے اجلاس میں ایک دوسرے کے ساتھ ’محبت‘ کی باتیں کرنے والے لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو زہر آلود اور ایسے فقرے استعمال کرتے ہیں جن سے سیاسی مسئلہ کا کوئی حل تو نہیں نکلتا البتہ اس سے کچھ نہ کچھ بگاڑ پیدا ہو نے اور بحران میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیا اس ملک میں سیاسی بحران میں اضافے سے کسی کو بھی کچھ حاصل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب شاید کوئی بھی شخص ہاں میں نہیں دے سکتا۔ کیونکہ بحران میں اضافے سے معیشت کو نقصان پہنچے گا، عوام کی پریشانی بڑھے گی اور مالیاتی منڈیاں میں ملک کا اعتبار کم ہو گا۔ سفارتی لحاظ سے بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سوچنا چاہیے کہ شہباز شریف کے علاوہ خواہ کوئی بھی دوسری پارٹی حکومت بنائے، موجودہ حالات میں اس کے لیے کام کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ملکی سیاست میں جو روایت ڈالی جا رہی ہے، اس کے مستقبل کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران سیاسی میدان میں یہ روایت استوار گئی ہے کہ ایک پارٹی کی حکومت بن جائے تو دوسری پارٹیاں اتحاد بنا کر احتجاج شروع کر دیتی ہیں۔ حکومت کے جائز یا ناجائز ہونے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بہت پرانا ہو گیا ہے۔ 2018 میں جب عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا تو بھی یہی تنازعہ تھا۔ اپوزیشن مسلسل اس بات پر اختلاف کرتی رہی اور لڑتی رہی کہ یہ حکومت جائز نہیں ہے۔ بالآخر اپریل 2022 میں انہیں یہ موقع ملا اور فوج کی تائید سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کر لی گئی۔ البتہ اس کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل احتجاج کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
پیش نظر حالات میں اسے اس حکمت عملی کا سیاسی نقصان ہوا ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر ہوئے، مقدمات قائم کیے گئے، پارٹی قیادت جیلوں میں بند رہی۔ اس تعطل کو توڑنے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوششیں کیں لیکن اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کی ان کوششوں میں ناکامی کے بعد، اپوزیشن اور حکومت کے لیے بات چیت کے ذریعے اختلافات ختم کرنے کا موقع موجود رہا ہے۔ اسی طریقے کو سب سے مناسب اور موثر بھی کہا جاتا ہے تاکہ ملکی نظام بھی کام کرتا رہا رہے اور سیاسی مسائل پر اتفاق رائے بھی پیدا کیا جا سکے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا اگر وہ ایک دوسرے کو قبول کریں اور بات چیت کو نیک نیتی سے آگے بڑھایا جاتا۔
البتہ پہلے حکومت کی طرف سے مطالبات تحریری طور سے پیش کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ حالانکہ تحریک انصاف کے دو مطالبات میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ پارٹی نے یہ مطالبات طویل فہرست میں سے شارٹ لسٹ کیے ہیں۔ ان میں سے ایک عمران خان سمیت تمام قیدیوں کی رہائی۔ اور دوسرے 26 نومبر اور 9 مئی کے واقعات کی اعلیٰ عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ شامل ہے۔ البتہ تحریک انصاف اس تحقیقاتی کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں کو شامل کرانا چاہتی ہے۔ عام قیاس ہے کہ سینئر جج مقرر کرنے کا مطالبہ اسی بنیاد پر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ موجودہ سینئر جج شاید تحریک انصاف کی ہمدردی میں رائے رکھتے ہیں۔ اور کوئی ایسا فیصلہ دے سکتے ہیں جو پارٹی کے لیے موافق ہو۔ اس نتیجہ تک پہنچنے والا عدالتی کمیشن البتہ حکومت، حکمرانی کے موجودہ انتظام اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بدحواسی اور پریشانی کا سبب ہو گا۔ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر دوسرا فریق ایسے مطالبات کو ماننے پر فوری طور سے تیار نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی جب مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے اور خواہش اور کوشش کی جاتی ہے کہ مسائل حل کرنے کے لیے مل بیٹھ کر بات چیت کر لی جائے، تو دونوں طرف سے یہ امکان رکھا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سپیس دی جائے گی تاکہ آگے بڑھنے کا امکان موجود رہے۔
شاید اسی لیے حکومت یہ چاہتی تھی کہ تحریک انصاف کی طرف سے تحریری مطالبات سامنے آئیں۔ کیونکہ تحریری مطالبات کی صورت میں درست طور سے اندازہ ہو سکے گا کہ کیا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور ان میں کس حد تک نرمی اور مفاہمت کا امکان موجود ہے۔ تحریک انصاف ابھی یہ اقدام کرنے پر تیار نہیں ہے۔ عمر ایوب کی قیادت میں آج اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی گئی ہے، اس کا لب و لہجہ اتنا ہی تلخ اور سخت تھا جو گزشتہ روز عمران خان کے ایکس پر جاری ہونے والے بیان میں دکھائی دیتا تھا۔ اس بیان میں عمران خان نے القادر ٹرسٹ کیس میں فیصلہ کو مؤخر کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ یہ فیصلہ عدالت نے کیا ہے۔ تحریک انصاف موجودہ حالات میں حکومتی و عدالتی فیصلوں میں تمیز کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس بیان میں ان کا موقف تھا کہ ان کے خلاف سب مقدمے جعلی اور سیاسی ہیں۔ اب القادر کیس میں فیصلہ مؤخر کر کے دباؤ ڈالنے کی بجائے حکومت اس کا اعلان کرے تاکہ اس کا منہ مزید کالا ہو جائے اور اس کا سیاہ چہرہ سب کے سامنے ہو۔ کوئی ایسا لیڈر ایسی باتیں نہیں کر سکتا جو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا راستہ تلاش کرنے کی امید رکھتا ہو۔
دوسری طرف وزیر دفاع خواجہ آصف اگرچہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ عمران خان کے بیان کے بعد صورتحال واضح ہو گئی ہے کہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ عمران خان اور تحریک انصاف قابل اعتبار نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے لیڈر بھی موجودہ حکومت کے بارے میں ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فریقین کے درمیان بات چیت آگے نہیں بڑھے گی تو دونوں فریق کیا کریں گے؟ ایسے میں کسی نئے اور بڑے تصادم کا امکان موجود رہے گا۔ اگرچہ تحریک انصاف اب یہ جان چکی ہے کہ وہ فوری طور سے تصادم کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومت کو بھی ادراک ہے کہ تحریک انصاف مزاحمت پر گامزن ہے کیوں اس کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے ہی اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ بہت فطری ہے کہ جب کوئی حکومت عوام کی خواہشات پوری نہ کر رہی ہو تو اپوزیشن اس کے خلاف جو بھی بیانیہ بنائے گی، اسے قبولیت حاصل ہوگی۔
دوسری طرف تحریک انصاف امریکہ میں جلد ہی اقتدار سنبھالنے والی ٹرمپ انتظامیہ سے توقع لگائے ہوئے ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر پارٹی کے لیے حالات سازگار کرے گی۔ البتہ اس حوالے سے بعض بنیادی حقائق کو فراموش کیا جا رہا ہے۔ ایک تو پاکستان خود مختار ملک ہے اور امریکہ اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ کے باوجود اسلام آباد حکومت کو کوئی فیصلہ کرنے کا ’حکم‘ نہیں دے سکتا۔ دوسرے ٹرمپ یا ریپبلیکن پارٹی انسانی حقوق کے معاملے میں زیادہ حساس نہیں ہیں۔ تیسرے امریکہ کے لیے اس وقت پاکستان کی کوئی خاص اسٹریٹیجک اہمیت نہیں ہے۔ کوئی امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ اس کے اندرونی سیاسی معاملات کے حوالے سے کوئی بڑا تنازعہ لینے کا خطرہ مول نہیں لے گی۔ خاص طور سے جب واشنگٹن کو علم ہو کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کا امکان کم ہے اور وہ وزیر اعظم بن کر بھی امریکہ کی کوئی خاص ’خدمت‘ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
امریکی تعاون کے جوش میں تحریک انصاف یہ بھی فراموش کر رہی ہے کہ پاکستان میں عام طور سے امریکہ مخالف سیاسی احساسات پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ تاثر عام ہو گیا کہ عمران خان، ٹرمپ کی حمایت سے رہا ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کا ان کی سیاسی مقبولیت پر لازمی اثر مرتب ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ میں 20 جنوری کو اقتدار میں تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کو ٹرمپ سے مایوس ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ شاید اس کے بعد ہی مذاکرات کی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آ سکے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ