آج اسرائیل پر حماس کے حملے کا ایک سال مکمل ہوگیا۔ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اس دن کو یہودیوں کی خوں ریزی کے طور پر منایا جارہا ہے۔ دبے لفظوں میں جنگ بندی کی بات کرنے کے علاوہ مغربی ممالک نے عام طور سےاسرائیل کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے ۔ البتہ اسرائیل کی جنگ جوئی، ہزاروں فلسطینیوں و لبنانی باشندوں کی ہلاکت اور ہمسایہ ممالک شام اور عراق پر پے در پے حملوں کو ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
امریکہ اور یورپی ممالک میں اس حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات میں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی سرزمین پر حماس کی دہشت گردی کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ برطانوی وزیر اعظمسر کیئر سٹامر نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’گزشتہ سال سات اکتوبر اسرائیل پر حملہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے خونریزترین دن تھا‘۔ البتہ 1200 یہودیوں کی افسوسناک موت کو یاد کرتے ہوئے غزہ میں 42ہزار فلسطینیوں کو بے دردی سے مارنے اور پچیس لاکھ شہریوں کو دربدر کرنے اور ان کے گھر بار و کاروبار تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کے اندھے انتقام کا حوالہ دینا ضروری محسوس نہیں کیا گیا۔ برطانوی وزیر اعظم یہ مؤقف اختیار کرنے والے تنہا عالمی لیڈر نہیں ہیں بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر یورپی ممالک کے لیڈروں کا طرز عمل بھی اسی قسم کا ہے۔
اس طرح گویا انسانی زندگیوں میں تفریق کرنے اور اسرائیلیوں یا یہودیوں کو فلسطینیوں اور لبنان و دیگر ممالک کے مسلمان یا مختلف العقیدہ انسانوں کے مقابلے میں ’افضل و برتر‘ قرار دینے کا انسانیت سوز اور شرمناک سیاسی مؤقف اختیار کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اگلے ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب نے امریکی صدر کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں جس کی وجہ سے صدر جو بائیڈن نہ تو جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہیں اور نہ ہی اسے خطے میں جنگ کو وسعت دینے سے باز رکھنے کے لیے عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں لیڈروں کی تقریروں کو مشرق وسطی کی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا حارث میں یہ ثابت کرنے کا مقابلہ ہورہا ہے کہ ان میں سے کون اسرائیل کا زیادہ بڑا ہمدرد اور دوست ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی اور شہری حقوق سے قطع نظر یہ امریکی لیڈر تو انسانوں کی ہلاکت پر بھی واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح دنیا کو جنگ کی طرف دھکیلنے والی اسرائیلی اشتعال انگیزی کو مسترد نہیں کیا جاتا۔ برطانوی وزیر اعظم کی طرح سب یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ ’تمام فریقوں کو اب جنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹنا چاہیے اور تحمل و حوصلے کی راہ اختیار کرنا چاہیے‘۔ لیکن کوئی یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس جنگ میں ایک ہی فریق ہے جس کا نام اسرائیل ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو حماس کے ایک حملے کو بنیاد بنا کر مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے اور تمام ہمسایہ ملکوں کو زیر نگین رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران میں ایران کی طرف سے اسرائیل پر دو سو کے لگ بھگ میزائل پھینکنے کے بعد سے اب اسرائیل ، ایران کو سبق سکھانے اور اس کی تنصیبات پر شدید ضرب لگانے کے اعلانات کررہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے ابھی تک جوابی کارورائی نہیں کی ہے لیکن امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت اسرائیل کو جوابی حملے سے روکنے اور مشرق وسطیٰ کو تباہی کی طرف دھکیلنے سے باز رکھنے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دفاع کے علاوہ ایران کے خلاف اس کی کارروائی کو بھی قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ اسرائیلی حملہ اس جنگ کا آخری حملہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد اسرائیل کو بھی شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود جنگ کی بجائے امن اور وحشت کی بجائے انسانیت کی بات کرنے کا چلن دیکھنے میں نہیں آتا۔ 7 اکتوبر اس حوالے سے ایک ایسی افسوسناک یاد گار بن جائے گا جب انسانیت اور اصولوں کا پرچار کرنے والے تمام طاقت ور ممالک امن کی بجائے جنگ جوئی کی تائید کرتے دکھائی دیے تھے۔
اس صورت حال کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں:
ایک: یہ کہ دنیا کا کوئی ملک یا طاقت کسی خطے میں شروع ہونے والی جنگ ختم کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ خاص طور سے مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کے حوالے سے ان حالات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ کسی نہ کسی طرح سے ہر ملک اسرائیل کے لیے سہولت بہم پہنچانے کا سبب بننا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ نامی ادارہ جسے امن اور ملکوں کے درمیان تنازعات حل کرانے کا سب سے مؤثر اور طاقت ور ادارہ ہونا چاہئے تھا، اسے پہلے ہی امریکہ کے علاوہ ویٹو کا اختیار رکھنے والے دیگر ممالک اپنے سیاسی و اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرکے درحقیقت اقوام متحدہ کو بے اثر و بے وقعت بنا چکے ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکی امداد اور ہر موقع پر اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کے استعمال نے اس صورت حال کو مزید خراب کیا ہے۔ تباہ کن ہتھیاروں کے حامل خطرناک ممالک کی موجودگی میں یہ صورت حال دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کے لیے شدید پریشانی و تشویش کا سبب ہے۔
دوئم: ان حالات نے دنیا کو بلاشبہ دو واضح گروہوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی ممالک ہیں تو دوسری طرف روس و چین کے علاوہ چند ایسے ممالک ہیں جو امریکی منہ زوری کو لگام دینے کی سکت تو نہیں رکھتے لیکن وہ امریکی حکمت عملی کے ساتھ بھی نہیں ہیں اور کسی طرح امریکی پالیسیوں کو ناکام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوکرین روس جنگ کی صورت میں اس متبادل خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ البتہ اگر اس صورت حال کو مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کی جنگ جوئی اور وسعت پسندی کے حوالے سے دیکھا جائے تو مسلمان ممالک کی حکومتیں شدید تضاد کا شکار ہیں۔ ان کے عوام کی اکثریت اسرائیلی مظالم کے خلاف ہے لیکن گروہی اور علاقائی مفادات کے لئے یہ ممالک باہمی چپقلش میں مبتلا ہیں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار نہیں کرتے۔ اس کنفیوژن کو ایران عرب تنازعہ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ متعدد عرب ممالک شاید اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی تباہی پر خوشی کے شادیانے بجائیں گے حالانکہ ایران کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف منظم ہونے والی مزاحمت ختم ہونے سے اسرائیل براہ راست ان عرب ممالک کے لیے سیاسی، عسکری اور اسٹریٹیجک خطرہ بنے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جو جنگی منصوبہ سامنے لاتے ہیں وہ نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش کے اس الٹی میٹم سے مماثل ہے کہ دنیاکے ممالک القاعدہ کے خلاف جنگ میں یا تو ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔ اسی طرح نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی لیڈر اب یہی پیغام عام کررہے ہیں کہ عرب ممالک یا تو ہمارے دوست بن جائیں اور اسرائیل کی ’حفاظت‘ میں رہیں۔ یا دشمنی اختیار کریں اور انہیں بھی لبنان، یمن ، شام و عراق کی طرح مسلسل نشانے پر رکھا جائے گا۔ اب ان ممالک میں ایران کا نام شامل کرلیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران بے پناہ عسکری طاقت اور امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کی بلا روک ٹوک امداد و اعانت کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور سے تباہ کیا ہے اور اب بیروت اور جنوبی لبنان کو غزہ کی طرح کھنڈر بنانے کا ارادہ کررہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے گزشتہ دنوں ایران کو بھی غزہ وبیروت کا نمونہ بنانادینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی بالادستی کے بارے میں کیسے خوش گمانی یا غلط فہمی کا شکار ہے۔ اس گھمنڈ کو یا تو اسرائیل کو پہنچنے والا کوئی شدید نقصان کم کرسکتا ہے یا متحدہ دنیا ایسی سرکش اور انسان دشمن ریاست کی گوشمالی کرسکتی ہے۔ تقسیم شدہ دنیا میں یہ امکان دکھائی نہیں دیتا۔
اس تصویر کا ایک رخ آج پاکستانی حکومت کی سربراہی میں اسلام آباد کے ایوان صدر میں کل جماعتی کانفرنس اور وہاں کی جانے والی تقاریر کی صورت میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کانفرنس درحقیقت جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف)کے مطالبے پر منعقد ہوئی اور سیاسی طور سے کمزور ہوتی حکومت نے اسے غنیمت موقع جان کر اسرائیل کی مذمت میں ملٹی پارٹی کانفرنس کے انعقاد کا عزم ظاہر کیا۔ اگرچہ اس موقع پر اسرائیل کی مذمت، مشرق وسطیٰ میں فوری جنگ بندی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرار داد متفقہ طور سے منظور کی گئی۔ صدر آصف زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف، پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری ، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم کی تقریروں میں بھی انہی خیالات کا اعادہ کیا گیا۔ تاہم اس کانفرنس کے اتفاق رائے میں انتشار و اختلاف کے دو پہلو صاف طور سے نوٹ کیے جاسکتے ہیں۔
ایک تو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف نے اس کانفرنس میں شریک ہونے سے گریز کیا۔ اگرچہ اس کی طرف سے بائیکاٹ کا اعلان بھی دیکھنے میں نہیں آیا لیکن ایک متفقہ معاملہ پر کسی کانفرنس میں شامل نہ ہوکر تحریک انصاف کی قیادت نے یہی واضح کیا ہے کہ وہ کسی نیک اور متفقہ مقصد کے لیے بھی موجودہ حکومت میں شامل پارٹیوں کے ساتھ مل کر چلنے پر آمادہ نہیں ہے۔ دوسرا اختلاف کانفرنس کی تقاریر کے دوران واضح ہؤا جب مولانا فضل الرحمان اور حافظ نعیم نے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خاتمے اور یہودیوں کو مشرق وسطی سے نکالنے کا مؤقف اختیار کیا۔ یہ مؤقف نہ صرف دو ریاستی حل کے عالمی طور سے متفقہ اور پاکستان کے سرکاری بیان کے برعکس ہے بلکہ اس سے شدت پسندی اور جارحیت کا وہی عنصر بدرجہ اتم محسوس کیا جاسکتا ہے جو اسرائیلی لیڈروں کے طرز عمل میں دکھائی دیتا ہے۔ اسی شدت پسندی کی وجہ سے اس وقت مشرق وسطی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ایک چھوٹی سی ریاست پورے خطے کے لئے تباہی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
ماضی کی من پسند تشریحات معروضی حالات اور سیاسی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ کے نقشے کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس سچ کو مان لینا چاہئے کہ سیاسی بیان بازی یا جنگ جوئی سے اسرائیل کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی اگر اسرائیلی حکومت جارحیت یا فساد کا سبب بن رہی ہے تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرنے کی باتیں کیوں کی جائیں۔ بقائے باہمی کے اصول کو تسلیم کیے بغیر نہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگا اور نہ ہی فلسطینیوں کو ان کا وطن نصیب ہوسکے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ