تحریک انصاف کی قیادت نے تو ایسا کوئی اعلان نہیں کیا لیکن اس پارٹی سے وابستہ عناصر مسلسل امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کے بعد پرامید ہیں کہ امریکہ میں سیاسی تبدیلی اسلام آباد میں بھی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی۔ ایسے اشارے دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا کہ امریکہ ، پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت ’مسلط‘ کرسکتاہے۔ اور صدر ٹرمپ کا پہلا ’انتخاب‘ عمران خان ہوں گے۔
ان توقعات کے میرٹ پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ تحریک انصاف جو اپنے بانی چئیرمین کو اینٹی امریکہ بتا کر یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ انہوں نے امریکی حکومت کو’ ابسولوٹلی ناٹ‘ کہہ دیا تھا، ورنہ کسی دوسرے پاکستانی لیڈر میں اتنا حوصلہ نہیں تھا۔ اب وہی تحریک انصاف آخر کس اصول کی بنیاد پر یہ امید کررہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہائٹ ہاؤس میں جا کر پاکستان میں ’مجاز اتھارٹی‘ کو فون کریں گے اور بزعم خویش ’فرعون‘ بنے ہوئے تمام طاقت ور لوگ قطار بنا کر عمران خان کو اڈیالہ جیل سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچانے حاضر ہوجائیں گے۔ اگر اس دعوے، خواہش یا تعلی کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے ’حقیقی آزادی ‘ والے ماٹو کے تحت تو انہیں ٹرمپ کی طرف سے ایسی کسی پیش کش کو مسترد کردینا چاہئے۔ یا عمران خان کی رہائی کے لئے تحریک انصاف اس حد تک بے بس اور مایوس ہوچکی ہے کہ وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے اپنا ہر اصول فراموش کرکے قومی غیرت کا جنازہ نکالنے پر آمادہ ہے؟
یادش بخیر عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سائفر کا عذر تراش کر سیاسی مہم جوئی کی تھی۔ اب بھی تحریک انصاف میں ایسے عناصر موجود ہوں گے جو یہ باور کرانے میں دیر نہیں کریں گے کہ یہ تو امریکہ بیچ میں آگیا اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ جیسا کمزور جنرل خوفزدہ ہوگیا ورنہ پاکستان جمہوری تحریک کی قیادت میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرسکتی۔ (جملہ معترضہ کے طور پر یہاں یہ حقیقت بتانے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسی جمہوری تحریک کے صدر مولانا فضل الرحمان اس وقت تحریک انصاف کی کل قیادت کے آئیڈیل اور سیاسی سرپرست بنے ہوئے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے کہ کل تک پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر مولانا کو مکمل نام سے پکارنے کے روادار نہیں تھے اور مولانا فضل الرحمان عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے)۔
اس پس منظر میں سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ تحریک انصاف امریکہ سے اپنے لیڈر کی رہائی اور سیاسی واپسی کی توقع کرتے ہوئے اس حقیقی آزادی کے سلوگن کا کیا کرے گی جس کے لیے ان کے لیڈر ’ ساری زندگی جیل میں گزارنے پر آمادہ ہیں‘ لیکن سمجھوتہ کرنے، این آر او لینے یا ملک سے باہر جانے کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کررہے۔ کیا مایوسی اب اس حد تک گہری ہوچکی ہے کہ جیل سے رہائی کے لیے امریکی صدر سے مدد کی امید باندھی جارہی ہے؟
تحریک انصاف کے کسی لیڈر کو یہ جواب ضرور دینا چاہئے کہ جب کوئی پارٹی یا فرد اپنے ملک کی حکومت یا اسٹبلشمنٹ کے خلاف غیر ملکی امداد کا سہارا لے گی تو وہ سب سے پہلے قومی خود داری اور خودمختاری کو داؤ پر لگائے گی۔ یعنی ٹرمپ کے ذریعے عمران خان کی رہائی اور تحریک انصاف کے لیے سیاسی سہولت حاصل کرنے کا مقصد یہ ہوگا کہ پاکستان کی آزادی و وقار کو داؤ پر لگا دیاجائے۔ کیا عمران خان کی غیرت اور تحریک انصاف کے آدرش، اسے قبول کرلیں گے؟ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اپنے ہمدردوں کے ذریعے یہ پروپگنڈا کرانے کی بجائے کہ ٹرمپ آکر سب سے پہلے عمران خان کو رہا کرائے گا، تحریک انصاف کی قیادت واضح بیان جاری کرے کہ کسی قیمت پر ملک کی آزادی و خود مختاری کا سودا نہیں کیا جائے گا ۔ ٹرمپ حکومت نے اگر عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد یا راولپنڈی پر دباؤ ڈالنے کی پیش کش کی بھی تو پارٹی اسے مسترد کردے گی کیوں کہ ہمیں اپنی سیاسی لڑائی میں کسی بیرونی طاقت کی مداخلت قبول نہیں ہے۔ کجا اس بات پر شادیانے بجائے جائیں کہ اب امریکہ ملکی حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر عمران خان کو رہا کرنے کا حکم صادر کرنے والا ہے۔
اس موقع پر تحریک انصاف کے قائدین کو امریکہ میں صدر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مدمقابل انتخاب میں حصہ لینے والی نائب صدر کاملا ہیرس کے بیانات یاد دلانا ضروری ہے جو انہوں نے انتخابی شکست کے بعد جاری کیے ہیں۔ انہوں نے فراخ دلی سے شکست قبول کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو نیا صدر مانا ہے اور اپنے حامیوں سے انتخابات کے دوران میں پیدا ہونے والے اختلافات اور تضادات کو بھلا کر ایک قوم بن کر مسائل سے نمٹنے کی اپیل کی ہے۔ صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم سب سے پہلے امریکی شہری ہیں۔ سیاسی وابستگی اس کے بعد آتی ہے۔ اب ایک ایسے ملک کے نو منتخب صدر سے یہ توقع کرنا کہ وہ پاکستان کی بطور ریاست اتھارٹی کو خاک میں ملائے اور عمران خان کو رہا کرائے، خود ہماری ملک و قوم کے ساتھ وابستگی و وفاداری کے بارے میں کیا تاثر قائم کرے گی۔
بدقسمتی سے تحریک انصاف کے متعدد نعروں اور لیڈروں کے بیانات سے یہ تاثر سامنے آتا رہا ہے کہ عمران خان ہی پاکستان ہے۔ اگر انہیں آزادی نہیں ملتی یا ملک کی قیادت کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تو پھر ہمیں یہ پاکستان بھی قبول نہیں ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ ایسا بیان تو دیکھنے میں نہیں آیا لیکن بین السطور اس تاثر کو واضح کرنے میں کوئی کسر بھی اٹھا نہیں رکھی گئی۔ اب وہی عناصر اگر امریکی صدر کا ہاتھ تھام کر ملکی اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھیں تو ان کی حب الوطنی کے بارے میں کیا قیاس کیا جائے۔ امید کی جانی چاہئے کہ تحریک انصاف کی قیادت صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے ایسے بیانیے سے دست برداری کا اعلان کرے گی اور واضح کرے گی کہ پاکستان کی قیمت پر کوئی آزادی یا اقتدار قبول نہیں ہے۔
یوں بھی ایسے سراب سے باہر نکل آنے میں ہی تحریک انصاف کی عافیت ہے۔ کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان یا دنیا کے کسی بھی لیڈر کی رہائی کے لیے کوئی ذاتی کوشش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کوئی امریکی صدر کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے ایسے ایجنڈے کا اعلان کرکے اقتدار نہیں سنبھالتا۔ اگر تحریک انصاف کے ’مخبروں‘ کی ان معلومات پر یقین کر بھی لیا جائے کہ ٹرمپ غیر روائیتی شخص ہے اور عمران خان سے دوستی کے لیے وہ اسلام آباد کو آنکھیں دکھانے پر آمادہ ہے تو بھی پارٹی قیادت کو علم ہونا چاہئے کہ اگر کوئی امریکی صدر کسی دوسری حکومت تک کوئی پیغام پہنچانا چاہتا ہے تو وہ شاید کسی ’ڈونلڈ لو‘ کو ہی استعمال کرے گا ۔ کیا تحریک انصاف اب امریکہ کے سابقہ یا نئے ’ڈونلڈ لو‘ کی ملکی خود مختاری کے خلاف باتوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے؟ یہ ایک سنگین سوال ہے۔ اس کے جواب میں ہی تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کا جواز چھپا ہے۔ اس وقت نعروں و الزامات کے ہنگامے میں خواہ اس سوال کو دبا دیا جائے لیکن وقت بہت ظالم ہے۔ تحریک انصاف نے اگر اس وقت کسی ہیجان کی کیفیت میں کمزوری دکھائی تو یہ غلطی ہمیشہ اس کاپیچھا کرے گی۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد شاید پھر بھی دستیاب نہ ہوسکے۔
پاکستان میں کسی سیاسی لیڈر یا گروہ کی مدد کے لیے امریکی حکومت کے پاس ٹھوس جواز ہونا چاہئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان جمہوری و انسانی اصولوں کو نہیں مانتے جن کا حوالہ دیتے ہوئے کوئی امریکی حکومت کسی لیڈر کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو جمہوری و انسانی اصول اسی وقت یاد آتے ہیں جب اس کا مفاد ایسے کسی دباؤ سے وابستہ ہوتا ہے۔ موجود حالات میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کا ایسا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے کہ وہ وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرانے کے لیے تمام سفارتی و سیاسی حدود کو فراموش کر بیٹھے۔ یہ بھی نوٹ کرنا چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ کوئی مفاد وابستہ ہونے کی صورت میں بھی کوئی امریکی صدر ریاست سے تعاون کا خواہاں ہوگا، کسی ایسے عنصر یا گروہ کو ساتھ ملا کر اپنا مقصد حاصل نہیں کرنا چاہے گا جو پہلے ہی ریاست سے ٹکر لینے کا اعلان کررہا ہو۔ اس اصول کے تحت تو موجودہ حکومت (جی وہی جسے تحریک انصاف فارم 47 کی حکومت کہتی ہے) اور اسٹبلشمنٹ (جس کا سربراہ پی ٹی آئی کا خود ساختہ ولن اور پاک فوج کا چیف آف اسٹاف ہے) ہی اس کے قریب ترین دست و بازو ہوں گے جن کی مدد سے وہ شاید اپنے مقاصد بہتر طور دسے حاصل کرسکے۔ ایسے میں وہ عدالتوں سے سزا یافتہ اور جیل میں بند ایک لیڈر کے ساتھ اشتراک کرکے کیا مقصد حاصل کرسکتا ہے؟
پاکستان خواہ امریکہ کے مقابلے میں چھوٹا اور کمزور ملک ہو لیکن پھر بھی وہ دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل ہے۔ کوئی بھی سپر پاور ایسے ملک کے ساتھ براہ راست تنازعہ مول لینے کا خطرہ مول نہیں لے گی۔ عالمی سفارت کاری میں مداخلت، اثر و رسوخ اور کسی ملک میں بعض اہداف کرنے کے لیے دھمکیوں اور دباؤ کے طریقے کارآمد نہیں ہوتے ورنہ اب تک امریکہ، ایران میں حکومت تبدیل کرا چکا ہوتا یا وہاں کی قیادت کو تابع فرمان بنا چکا ہوتا۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا سب سے بہتر طریقہ اسے مزید سہولتیں فراہم کرنا ہوسکتا ہے ۔ جیسے پرویز مشرف کی حکومت کو افغانستان میں جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے گراں قدر مالی و عسکری فائدہ پہنچایا گیا تھا۔
پاکستان بلا شبہ امریکہ کی سفارتی خوشنودی کا محتاج ہے لیکن تحریک انصاف کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ اس کا راستہ عمران خان کی رہائی سے ہوکر گزرتا ہے۔ پاکستان پر امریکہ کا واحد دباؤ پاکستانی برآمدات پر محصول میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ممالک سے درآمدات پر محاصل عائد کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ پاکستان سے امریکہ برآمدات کا حجم دو اڑھائی ارب ڈالر ہے جو پاکستانی برآمدات میں بہت اہم حصہ ہے۔ لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ حکومت امریکی معاشی بحالی سے جڑے ایک اقتصادی منصوبے کی کامیابی کے لیے پاکستان کو نشانہ بنائے گا۔ امریکی مارکیٹ میں دو تین ارب ڈالر کی حیثیت چند ٹکوں کے برابر ہے۔ پاکستان کواس بارے میں اگر کوئی دباؤ برداشت کرنا پڑا تو وہ امریکی حکومت کی عمومی حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف جمع خاطر رکھے۔ ٹرمپ کے پاس عمران خان کی رہائی پر غور کرنے سے پہلے کرنے کے بہت سے کام ہوں گے۔ ان کی نظر کرم کا انتظار کرنے کی بجائے پارٹی اپنے سیاسی حقوق اور لیڈر کی رہائی کے لیے متبادل راستے کھوجنے کی کوشش کرے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ