وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے بھی نا اہل قرار دے دیا۔ ایک بار پھر سیاست کے گلے پر صادق اور امین کی چھری چل گئی۔ آئین کے متروک آرٹیکل 58۔ 2 بی کے تحت صدر مملکت کو پارلیمان تحلیل کرکے حکومت کا خاتمہ کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔اس آرٹیکل میں وزیر اعظم، وزرا یا پارلیمنٹ کے کسی رکن کو نا اہل قرار دینے کا اختیار شامل نہ تھا۔ رضا ربانی کمیٹی نے آئین میں اٹھارویں ترمیم کرکے اس آرٹیکل کو ختم کر دیا۔ پارلیمانی لیڈر سمجھے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی آزادی اور خودمختاری بحال کرکے ریاستی اداروں پر پارلیمان کی بالادستی قائم کر دی ہے۔ مگر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت عدالت عظمیٰ کو اخلاقیات کے نام پر منتخب اراکین کو نااہل قرار دینے کے لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔ عوامی نمائیندوں کے سروں پر 62 اور 63 کی لٹکتی تلوار نے پارلیمنٹ کی ریاستی اداروں پر بالادستی کے بارے کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف حالیہ فیصلے نے قانون سازی کے پارلیمانی مطلق اختیار کو مشروط کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے منتخب پارلیمان کے آزادانہ جمہوری ارتقائی عمل کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جن سے حقیقی پارلیمانی جمہوریت کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جمہوریت، جمہوری ادارے، منتخب نمائیندے اور جمہوری حکومت، غیر منتخب ریاستی اداروں کے سامنے بے بسی اور بے اختیاری کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔فوجی آمروں ضیا اور مشرف کے آمرانہ ادوار میں عدلیہ کے فیصلوں نے ملکی سیاست کو جن تاریک راہوں پر ڈالا، پارلیمان ان کا رخ ابھی تک بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سوائے اٹھارویں آئینی ترامیم کے ذریعے کچھ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے۔ ضیا مارشل لا کے دوران آئین میں ڈالے گئے آرٹیکل 62 اور 63 کو سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آئین سے نہ نکال پائیں۔ گزشتہ پارلیمنٹ میں رضا ربانی کمیٹی کی آرٹیکل 62 اور 63 میں ترامیم کی راہ میں نواز لیگ کی سیاسی مصلحت اور مذہبی جماعتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی رکاوٹ بنی اور بلآخر نوازشریف ان آمرانہ شقوں کا پہلا شکار بنے۔ کسی مقبول یا غیر مقبول سیاسی لیڈر کو اس پر باچھیں کھلانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہتھیار کسی پر، کبھی اور کسی بھی وقت استعمال ہو سکتا ہے۔عمران خان تو اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مگر اب اس صف بندی میں آصف زرداری کا نام بھی شامل ہو چکا ہے۔ مگر انہیں خوش فہمی کا شکار ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ وہ تھوڑا سا وقت نکال کر بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور سیاست کا ایمانداری سے مطالعہ کر لیں تو شاید ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ اور وہ دیکھ پائیں کہ وہ اس وقت سیاسی دھارے کے کس جانب کھڑے ہیں۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو پاکستانی تاریخ کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ ہی پارلیمنٹ، حکومت، سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی پالیسیوں کا رخ متعین کرتے ہوئے میدان میں دندناتی نظر آئے گی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی تو عملا زیر دستی میں تبدیل ہو جائے گی۔ مگر عدلیہ کی آزادی بھی دھیرے دھیرے خواب دکھنے لگے گی۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ایجنڈے سے اسٹیبلشمنٹ دست بردار ہونے کو تیار نہیں اور حسب روایت عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ بٹانے کو تیار ہے۔ اس لئے 2018 کے مجوزہ الیکشن کے بعد منتخب پارلیمنٹ کو بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فیس بک کمینٹ
1 تبصرہ
I want to show my admiration for your kind-heartedness giving support to those individuals that must have help on that matter. Your special dedication to passing the message all-around turned out to be exceptionally functional and have usually helped others just like me to realize their pursuits. Your entire important advice can mean a great deal to me and further more to my fellow workers. Many thanks; from all of us.