پیرس اولپکس میں نیزہ بازی یا جیولن پھینکنے کے مقابلے میں پاکستان کے ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیتنے کے علاوہ اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ ارشد ندیم کی کامیابی سے پاکستان میں ’قومی یکجہتی‘ کا وہ انوکھا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے جسے پانے کے لیے عسکری و سیاسی لیڈر زور بیان صرف کرتے رہتے ہیں۔ مبارکبادوں کے علاوہ انعامی رقم دینے کے اعلانات کا تانتا بندھا ہے۔
البتہ اس مرحلے پر یہ غور کرنا بے حد ضروری ہے کہ ارشد ندیم نے انتہائی مشکل حالات میں تن تنہا اپنی ہمت اور لگن کے بل بوتے پر اپنے لیے اور ملک و قوم کے لیے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس کامیابی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی اتھلیٹ نے انفرادی طور سے اولمپک گولڈ میڈل جیتا ہے۔ اس سے پہلے ہاکی چیمپئن بن کر پاکستان کی ہاکی ٹیم نے گولڈ میڈل جیتے تھے۔ پاکستانی ہاکی ٹیم نے 1960، 1968 اور1984 اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیے تھے۔ ارشد ندیم کی کامیابی تک پاکستان کے پاس عالمی مقابلوں میں یہی تین گولڈ میڈل تھے تاہم 32 سال انتظار کے بعد اب ارشد ندیم نے ذاتی جد و جہد اور شوق و محنت کی بدولت پاکستان کے لیے ایک انفرادی گولڈ میڈل جیتاہے۔ اس میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس کامیابی سے گو کہ پاکستان کا نام بلند ہؤا اور اولمپک کے میدان میں پاکستانی پرچم اونچا کیا گیا لیکن اس کا کریڈٹ کسی قومی کاوش کی بجائے ایک تن تنہا نوجوان کی انفرادی کوششوں کو جاتا ہے۔
یہ صورت حال کھیلوں اور دیگر قومی شعبوں میں سرکاری اور اداروں کی عدم توجہی کی المناک کہانی بیان کرتی ہے۔ اہل پاکستان کو ضرور اس موقع پر سر فخر سے بلند کرنا چاہئے اور اس انوکھی اور شاندار کامیابی پر ارشد ندیم کے علاوہ پورے ملک کے لوگوں کو جشن منانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ لگ بھگ 25 کروڑ آبادی کے ملک میں ٹیلنٹ تلاش کرنے اور اسے پروان چڑھا کر ملک و قوم کا نام بلند کرنے کے لیے استعمال کرنے کا کام کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے حکومت اور سرکاری اداروں کو تو آسانی سے الزام دیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ملک کے دولت مند لوگوں اور پرائیویٹ شعبہ کو بھی اپنی کوتاہی اور ناکامی کا اعتراف کرنا چاہئے۔ تاکہ ارشد ندیم جیسے ہیرے تراشنے کا کام زیادہ تندہی اور کثرت سے انجام پاسکے۔
حکومت پر اولین ذمہ داری یوں عائد ہوتی ہے کہ تعلیم و صحت کے شعبہ کی طرح کھیلوں پر بھی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ انہی شعبوں میں سرمایہ کاری سے ہم اپنی نوجوان نسل کو ملکی تعمیر کے سفر میں کارآمد بنانے کا اہم کام کرسکتے ہیں۔ البتہ بات صرف وسائل کی فراہمی تک محدود نہیں ہے۔ جو تھوڑے بہت فراہم ہوتے ہیں، ان کی مناسب تقسیم اور حقدار وباصلاحیت نوجوانوں تک ان کی ترسیل کا نظام موجود نہیں ہے۔ یوں تو ملک میں کھیلوں کی متعدد تنظیمیں قائم ہیں جن پر کسی نہ کسی سابقہ فوجی افسر یا بیوروکریٹ کو سربراہ کے طور پر مسلط کیا گیا ہے ۔ یہ تنظیمیں سال ہا سال سے چند لوگوں کے روزگار اور سہولتوں کا باعث تو بنی ہوئی ہیں لیکن ملک میں ٹیلنٹ تلاش کرنے اور اس کی تربیت کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا کام انجام نہیں پاتا۔ اولمپک گولڈ میڈل تک ارشد ندیم کے سفر کی کہانی سرکاری بے اعتنائی اور عوام کے فنڈز سے چلنے والی سپورٹس تنظیموں کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اگر فوری طور سے یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لیے مؤثر اقدمات نہیں کیے جاتے تو شاید اہل پاکستان کو کسی اگلے گولڈ میڈل کے انتظار میں مزید تین چار دہائی انتظار کرنا پڑے گا۔
اسی طرح نجی شعبہ اور ملک کے حد سے زیادہ مالدار طبقے کو بھی محض اپنی سہولتوں اور دولت سمیٹنے پر توجہ دینے کے ساتھ اس سماج کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے جہاں سے وہ اپنی دولت جمع کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر ارشد ندیم جیسے کھلاڑی کی کامیابی سے اس کھلاڑی کو تو انفرادی طور پر شہرت اور عزت ہی ملتی ہے لیکن اس طرح ملک کا نام عالمی سطح پر متعارف ہوتا ہے اور نجی شعبہ اس عالمی توجہ سے استفادہ کرنے کا اقدام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر کے ممالک اتھلیٹ تیار کرنے اور انہیں عالمی مقابلے جیتنے کے لیے بھیجتے ہیں اور اس کام کو بے حد توجہ و احترام دیا جاتا ہے۔ اس سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے، اس کے لیے تجارتی و سفارتی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیلوں کی مقبولیت سے نوجوانوں کو مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف مبذول کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کی ضرورتوں پر توجہ نہیں دی جاتی تو ایک طرف باصلاحیت نوجوان مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری جانب معاشرے میں غیر صحت مندانہ سرگرمیاں فروغ پانے لگتی ہیں۔ شہروں ، قصبوں و دیہات میں اگر تفریحی سرگرمیوں اور کھیلوں کے لیے مناسب مواقع اور سہولتوں کا اہتمام کیا جائے تو اسے معاشرے میں مذہبی شدت پسندی اور غیر ضروری تندی و تلخی میں کمی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کھیلوں میں سرمایہ کاری درحقیقت صحت مند اور باقصد معاشرے کی تشکیل میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہ خبریں ملاحظہ کی جاتی ہیں کہ مختلف ممالک کیسے عالمی مقابلے منعقد کروانے کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب کسی ملک کو ایسا کوئی ایونٹ منعقد کروانے کا موقع مل جاتا ہے تو کیسے حکومت اور عوام مل کر اسے کامیاب بنانے اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا مثبت تعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو سال پہلے قطر نے فٹ بال کا ورلڈ منعقد کروانے کے لیے کثیر وسائل صرف کیے اور ایک چھوٹے سے خلیجی ملک کو عالمی منظر نامے پر مثبت انداز میں متعارف کروانے کا اقدام کیا۔ اب فرانس پیرس اولمپکس سے یہی کام لے رہا ہے۔ ہر ملک ایسے مواقع پر بہتر سے بہتر سہولتیں دینے اور اپنی ناموری کی کوشش کرتا ہے۔ کیوں کے اس سے دنیا میں اس کی تجارت اور لوگوں کے لیے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر نوجوان مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کے قابل بنتے ہیں۔ اسی لیے ایسے معاشروں میں نوجوانوں سے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کی شکائیتیں سننے میں نہیں آتیں کیوں کہ معاشرہ انہیں سوشل میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی مواقع اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں نیزہ بازی کا مقابلہ جیت کر گولڈ میڈل حاصل کرنے کے علاوہ نیا ریکارڈ قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ناروے کے آندریاس تھورکلڈسن کے پاس تھا جنہوں نے 2008 میں 90،57 میڑ دور جیولن پھینک کر کامیابی حاصل کی تھی۔ البتہ ارشد ندیم نے اپنا نیزہ 92،97 میٹر دوری تک پہنچا کر سب کو حیران کردیا۔ بھارت کے نیرج چوپڑا 89،45 میٹر فاصلے کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ نیرج چوپڑا اس سے پہلے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت چکے ہیں۔ کھیلوں کے کسی ایونٹ میں کامیابی کے اثرات و امکانات کا اندازہ اس حقیقت سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں بھی ارشد ندیم کی کامیابی کو سراہا جارہا ہے اور اس حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بھارتی ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر پاکستان کے بارے میں مثبت اور حوصلہ افزا باتیں سننے کو ملیں۔ ان ہی طریقوں سے قوموں کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں۔ نیرج چوپڑا کی والدہ سروج دیوی نے اس موقع پر ارشد ندیم کے لیے التفات کا اظہار کرکے سرحد کے دونوں طرف عوام کے درمیان رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ چاندی کا میڈل بھی ہمارے لیے سونے جیسا ہے اور جس نے (ارشد ندیم) سونا جیتا ہے وہ بھی ہمارا بیٹا ہے‘۔
اس ایک بیان سے دو ممالک کے درمیان سفارت کاری میں کھیلوں کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کیا جاسکتا۔ پاکستان کودیگر مسائل کے ساتھ اس وقت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کا اہم چیلنج بھی درپیش ہے۔ بوجوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں اور باہمی مواصلت کے امکانات محدود ہیں۔ البتہ ایک پاکستانی سپوت کی کامیابی نے دونوں ملکوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنے اور اچھا سوچنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ جذبہ و احساس سفارتی سطح پر کامیابی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔
ارشد ندیم کی کامیابی کا سب سے خوش آئیند پہلو البتہ قومی سطح پر مل جل کر خوشی منانے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا سماں تھا۔ لوگ سیاسی ، سماجی اور عقیدے کے اختلاف و فرق کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ خوشی بانٹ رہے تھے اور پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے دکھائی دیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس قسم کے مناظر دیکھنے کا ایسا موقع کم ہی ملتا ہے۔ ارشد ندیم نے پاکستانیوں کا دامن خوشیوں سے بھرا اور ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے لوگوں کو کم از کم ایک لحہ کے لیے گلے لگنے کا موقع فراہم کیا۔ کوئی انعام اور تحسین ارشد ندیم کے اس احسان کی قیمت نہیں چکا سکتی۔ ہمیں خوشیاں پانے کے لیے بہت سے ارشد ندیم تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ