روزن دیوار سے
دو دن پہلے طاہر القادری صاحب کے حوالے سے میرا ایک کالم شائع ہوا جس میں اس ’’خفیہ ولی ‘‘ کے حوالے سے میں نے اپنی ’’علانیہ ‘‘ عقیدت کا اظہار کیاتھا ۔اس پر جہاں بہت سے احباب نے ایک سے بڑھ کر ایک تبصرہ کیا اور جملہ کسا ہے، وہاں ایک فرمائش یہ آئی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے، میں کہی ہوئی باتیں دہرایا نہیں کرتا۔میں ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر رفیع اللہ نے 2014ء میں جنگ ہی میں شائع شدہ میرا ایک کالم بعنوان ’’عجب سوگ تھا، عجیب انتقام تھا اور عجیب انقلاب تھا‘‘ کا تراشہ ارسال کر دیا یعنی دس برس قبل شائع شدہ میرے کالم میں رفیع اللہ نے جو گرہیں لگائی ہیں وہ اس سے پہلے میرے پسندیدہ ’’خفیہ ولی‘‘ کے حوالے سے آپ کو نئی نویلی لگیں گی..یہ کالم قدرے طویل ہے لہٰذا آپ اس کی ایک قسط آج اور دوسری کل پڑھ سکیں گے مجھے آپ کے صبر کا امتحان لینا مقصود نہیں مگر مجبوری ہے برداشت کیجئے اور قادری صاحب کے اقوال واعمال کے حوالے سے ’’تجدید ایمان‘‘ کیجئے :کالم حاضر ہے۔
یہ میری بدقسمتی ہے کہ مسقط اور دبئی میں میری موجودگی کے دوران علامہ طاہرالقادری اپنے وطن کینیڈا روانہ ہوگئے اور میں انہیں خدا حافظ نہ کہہ سکا بلکہ مجھے تو اس امر کا بھی افسوس ہے کہ جب قادری صاحب اسلام آباد کے کنٹینر میں استراحت فرمانے کے لئے پاکستان آئے تھے۔ میں انہیں خوش آمدید کہنے سے بھی محروم رہا کہ میں اس وقت ان کے وطن کینیڈا میں تھا تاہم اسلام آباد میں ان کی موجودگی کے دوران ہی میں واپس آگیا تھا اور اللہ نے مجھے یہ استطاعت بخشی کہ اپنے قلم سے مہمانِ گرامی کی جتنی خاطر مدارت ہوسکے وہ میں کروں اورالحمدللہ وہ میں نے کی، پاکستانی میڈیا نے بھی اس ضمن میں اپنا کردار حسب توفیق ادا کیا بلکہ ان میں سے تو کئی ایک نے انہیں عالم رویا یعنی خواب کی حالت میں بہت جلد واپس کینیڈا جاتے بھی دیکھا، حالانکہ انہی دنوں علامہ صاحب نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں اگر ملک میں انقلاب برپا کئے بغیر واپس جانے کی کوشش کروں تو مجھے شہید کردیا جائے۔ میرے خیال میں ان کے جان نثار مریدوں کو ان کی اس خواہش کا پتہ نہیں چلا ورنہ وہ اپنے مرشد کی بات کیسے ٹال سکتے تھے؟
علامہ صاحب میرے پسندیدہ سیاست دان ہیں اور یوں ان کی مدح سرائی میں مجھے اپنے محبوب سے گفتگوکا سا لطف آتا ہے۔چنانچہ میرا ارادہ ان کی خدمت میں ابھی مزید گلہائے عقیدت پیش کرنے کا تھا مگر اس دوران اسلام آباد سے پروفیسر رفیع اللہ صاحب کا مکتوب موصول ہوا وہ میں نے پڑھا تو محسوس کیا کہ حضرت والاکے حوالے سے ہم دونوں کی عقیدت میں بس انیس بیس کا فرق ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ میری عقیدت کی شرح انیس اور ان کی بیس ہے۔ چنانچہ ان کا حق فائق سمجھتے ہوئےباقی کالم ان کے حوالے کررہا ہوں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ اللہ نواز حکومت، جسے وہ ہٹلر اور مسولینی کی حکومت قرار دے چکے تھے،کو فوری گرانا نہیں چاہتا۔ مطلب کہ اللہ ہٹلر اور مسولینی کی حکومت ابھی گرانا نہیں چاہتا اور یہ کہ اب ہٹلر مزید حکومت کرے گا اور آئین و قانون بھی یہی رہے گا۔ قادری صاحب آپ تو ان کو گلیوں میں گھسیٹنا چاہتے تھے جو آپ کی علالت میں آپ کے منہ میں لقمے دیتے تھے، انہیں سولی پہ لٹکانا چاہتے تھے جو آپ کے جوتوں کے تسمے باندھتے تھے۔ آپ نے تو ان کی رائیونڈ کی جائیداد ضبط کرنے کی قسم کھائی تھی اور اسے غریبوں اور ناداروں کے حوالے کرنے کا عہد کیا تھا جو آپ کے مدرسوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ آپ نے تو ان کی لوٹی ہوئی رقم نکلوانا تھی اور پائی پائی کا حساب لینا تھا جو آپ کو اپنے کندھوں پہ بٹھا کر غار حرا کی زیارت کرواتے تھے۔ آپ تو اللہ عزوجل اور رسول ﷺ کے قریب تھے آپ مقرب انسان تھے۔ آپ اتنا بڑا ہنگامہ بغیر کسی بشارت اور بغیر کسی خواب کے تو برپا نہیں کرسکتے۔ پھر یہ چالیس ضرب دو دِنوں پر محیط گالم گلوچ والا چلہ کیوں کر اور کس لئے کاٹا تھا۔ کیا ملک پاکستان جست لگا کر ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہوگیا؟ کیا چور، ڈاکو اور لٹیرے اس دنیا سے اٹھ گئے؟ یا پھر آپ کی انا کو تسکین اور مزید تقویت ملی؟ ویسے آپ کی نویدیں، بشارتیں اور تبرے سن کر بچے اپنی بلوغت کو پہنچ گئے۔ گلی محلے میں خطیب اور مفکر پیدا ہوگئے۔ مولوی، عالم اور مفتی توبہ تائب ہوگئے اور شرابیوں نے شراب پینا چھوڑ دی۔ سچا انقلاب برپا ہوگیا اور ایدھی دن دہاڑے لٹ گیا۔
اللہ کی عظمت کی قسم (بقول قادری صاحب) یہ وہ دھرنا تھا جس سے انقلاب برپا ہونا تھا نہیں تو شہادت کا رتبہ نصیب ہونا تھا۔ قبریں کھد گئی تھیں اور زندہ لوگوں نے کفن اوڑھ لئے تھے۔ یہ وہ دھرنا تھا جس میں شہدائے لاہور کے حوالے سے قتل کے بدلے قتل (ویسے شہادت اور قتل کا کوئی جوڑ نہیں بنتا) ہاتھ کے بدلے ہاتھ، کان کے بدلے کان کا نعرہ تھا لیکن افواہ یہ ہے کہ سردی کی آمد سے قبل ہی 65کروڑ سے جیب گرم کر لی گئی اور ایمان تازہ ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ پچھلی بار 35 کروڑ کی رقم سے دھرنے کا روزہ افطار کرلیا گیا تھا اگر یہ سچ ہے تو یہ جان رکھو کہ ان شا ء اللہ آئندہ 100 کروڑ سے کم پہ بات نہیں ہوگی۔ اس انقلابی دھرنے کے حوالے سے اچھی اچھی پیش گوئیاں تھیں کہ نظم و ضبط سے سرشار ہوگا اور اک گملا تک نہیں ٹوٹے گا۔ جب اس کے سوار چیختے چنگھاڑتے لاہور سے نکلے تو لوگ 14اگست کو بھول کر اپنے گھروں میں ٹی وی کے آگے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے کہ کون بازی لےجاتا ہے انقلابی مارچ والے یا آزادی مارچ والے؟ (جاری ہے)
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ