خدا اور انسان کاتعلق بیک وقت دومتضادکیفیات کاحامل ہے۔ ایک طرف کھُلی کتاب کی مانند آشکار کہ دل کے آئینے میں اس محبوبِ حقیقی کا جلوہ دیکھ لیا اور دوسری طرف ایسا سربستہ رازکہ صدیوں اور قرنوں سے جوگی، یوگی، سادھو سنت اورصُوفی اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اُس محبوب حقیقی کو پا لینامحبوب مجازی کی مانندکوئی سہل کام نہیں کہ صاحبو یہ عشق ہے، اور آزمائش تو عشق کی پہلی سیڑھی ہے ورنہ کیسے پرکھ ہوکہ کون کتناعاشقِ صادق ہے۔ ہمارے ہاں زمانوں سے عشقیہ لوک داستانیں موجودہیں جو شاعروں کے دلوں کی دھڑکن اور گائیکوں کی زبان کاترانہ رہی ہیں۔بہ ظاہر یہ عاشق ومعشوق کے ہجروکرب ،دکھ درد اور راہِ عشق میں جھیلی جانے والی کٹھنائیوں کابیان ہے لیکن ان کے معنی اکہرے نہیں۔عشق مجازی وحقیقی دونوں کے اسراروموزکابیان ان داستانوں کا اصل حسن ہے۔ اولیائے کرام نے اِن کے پردے میں رموزِ عشقِ محبوبِ حقیقی کو ہی بیان کیاہے۔ یہ داستانیں اتنی دل کش اور رمزسے بھرپور ہیں کہ ان لوگوں کوبھی اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں جنہوں نے اس دھرتی کی کوکھ سے جنم نہیں لیا اوروہ مجبورہوئے کہ ان کہانیوں کے باطن میں اُتریں۔ایک ایسا ہی نام این میری شِمل کاہے۔جرمنی کے شہر ایرفرٹ میں7 اپریل 1922ء کو پیداہونے والی اس خاتون مستشرق کی خدمات ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ شِمل بھی عجیب رُوح تھیں۔ پیدا مغرب میں ہوئیں لیکن معلوم ہوتاہے کہ ان کے خمیر میں کچھ مٹی مشرق کی بھی شامل کی گئی کہ وہ تادمِ مرگ مشرق کے عشق میں مبتلا رہیں۔جس طرح وہ مشرق کی رُوح میں اُترتی ہیں،کم ہی مستشرقین کے حصے میں آیا ہے۔ اقبالیات،تصوف اور مشرقی علوم شِمل کے خاص موضوعات ہیں۔جرمن کے علاوہ عربی ،فارسی اورترکی سمیت متعدد مشرقی زبانوں پر عبوررکھنے کے علاوہ پاکستانی علاقائی زبانوں سندھی،پنجابی اورسرائیکی سے بھی شغف رکھتی تھیں۔ان کی علمی وادبی خدمات بہت زیادہ ہیں۔مگر ان کی تانیثیت کے حوالے سے لکھی گئی کتاب’’My soul is a women ‘‘ بےحدمتاثر کُن ہے ۔شِمل نے یہ کتاب 1994ء میں جرمن زبان میں تحریرکی اور اس کا انگریزی ترجمہ "Susan H Roy” نے کیا ہے۔اس کے بارہ ابواب میں سے آخری تین ابواب بےحددل چسپ ہیں۔ یہ ابواب سسّی پنوں، سوہنی مہینوال اور عمرماروی کی داستانوں سے متعلق ہیں۔ بنیادی موضوع تانیثیت کے پیشِ نظر صرف ان داستانوں کا انتخاب کیاگیا ہے جن میں عورت کا کردار زیادہ فعال ہے۔اگرچہ ان داستانوں کے بنیادی ماخذکے لیے انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام سے رُجوع کیاہے مگر شمل کی کہانی کی اصل رُوح تک (جو سراسرمقامی ہے) رسائی قابل دادبھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔جس دھرتی میں آپ کی جڑیں نہ ہوں اس کی خوشبو کوپہچاننااوراپنے اندر سمونا یقیناً ایک حیرت انگیز امرہے۔َ شمل مکمل قصہ بیان کرتے ہوئے ان رزمیوں کی گہرائی تک پہنچ کرایک صُوفی کی آنکھ سے ان کی ماہیت علامتی تناظرمیں دیکھتی ہیں۔ صُوفی شاعر بسا اوقات خود کوعورت تصورکرتے ہوئے محبوب حقیقی سے محبت کا اظہارکرتے ہیں۔ وہ اصل سے وصل کی راہیں تلاش کرنے کے لیے ایک عورت کی زبان سے اپنی محبت ، ہجر اورکرب کا اظہارکرتے ہیں۔ شمل بھی ان داستانوں کامطالعہ کرتے ہوئے ان کی علامتوں کوتصوف کے تناظرمیں دیکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ سسّی صحرا میں اپنی محبت کوتلاش کرتی ہے جوکہ درحقیقت علامتی معنوں میں حق کی تلاش میں صحرا کا سفر ہے، سوہنی آبی سفر طے کرتی ہے اور ماروی اپنی مٹی سے جدائی کاکرب سہتی ہے اور بانسری کی طرح اصل سے وصل کی خواہش مندہے۔سسّی کی نیند اسے اس کے محبوب سے جدا کردیتی ہے جواس بات کی علامت ہے کہ صُوفی کو کم سوناچاہیے کیونکہ اس کی نیند اسے محبوب حقیقی سے جدا کر دیتی ہے۔ جب سسّی سو کر اٹھتی ہے تو پنوں جا چکا ہوتا ہے۔ اس کی تلاش میں وہ صحرا کی خواری سہتی ہے ،یہ دراصل راہِ سلوک کا سفر ہے۔ سسّی کاسفر’’حسینی سفر‘‘ ہے،جس میں وہ کربلا کی طرح صحرا کی خاک چھانتی ہے۔شاہ لطیف اسے ’’سسی ابری‘‘کہتے ہیں جس کا رنگ اُڑ چکا ہے، پھیکا پڑ چکا ہے اور وہ مختلف مسافتیں طے کرتی ہے۔سوہنی کچے گھڑے پر دریاکی طغیانیوں کو بالکل اس طرح عبورکرتی ہے جس طرح صُوفی راہ سلوک کی منزلیں طے کرتاہے اور کچا گھڑا دراصل عاشق کاشکستہ دل ہے۔ سوہنی اورعاشق دونوں ہی بغیر دیکھے منزل کی جانب اپنا سفرشروع کر دیتے ہیں اوراس راہ میں آنے والی ہر مشکل کا جانبازی سے مقابلہ کرتے ہیں۔موت ان فقیروں کا کچھ نہیں بگاڑپاتی کہ یہ توپہلے ہی عشق حقیقی میں فنا پاچکے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی نظرمیں صُوفی کا یہ رویہ ابنارمل ہے، سسّی کا عمل بھی ابنارمل ہے۔ وہ صبراورتحمل اورعشق کی عظیم مثال ہے۔یہاں وہ شاہ عبدالطیف کے شعر کا سہارا لیتی ہیں۔Reason,religion and shame۔۔۔love has conquered all three۔ عمرماروی سندھ اور بلوچستان کی کہانی ہے۔ماروی تھر کے علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اپنے گاؤں،اس کے لوگوں اوراپنی سہیلیوں سے بہت محبت کرتی ہیں جنہیں شِمل ’’مروس‘‘ کانام دیتی ہیں۔ شِمل کے نزدیک ماروی ایک ایسی رُوح کی علامت ہے جسے اپنی مٹی کی یاد ہر لمحہ تڑپاتی ہے اور جو گھر سے دوری کے کرب میں شدت سے مبتلاہے۔بھٹائی کے حوالے سے وہ پڑھنے والے کو عمرکوٹ کے اس محل میں لے جاتی ہیں جہاں ماروی قیدتنہائی کا عذاب جھیل رہی ہے۔ قیدتنہائی میں اس کی سوچوں کا محوراس کا محبوب حقیقی’’مروس‘‘ ہے ۔مروس کا مطلب وہ’’one true beloved‘‘بتاتی ہیں۔ یہاں شِمل عمرماروی کی کہانی کی متصوفانہ رنگ میں توضیح کرتی ہیں جہاں ماروی کی روح دوسری روحوں کی مانند اپنے اصل کی طرف لوٹناچاہتی ہے۔اس دن کی طرف جب خدانے تمام روحوں سے اپنی اطاعت کا وعدہ لیاتھا۔ ماروی بالکل وہی کرتی ہے جو سسی اورسوہنی نے کیا تھا کیونکہ ہر وہ شخص جومحبت میں مبتلاہوتاہے جانتاہے کہ محبوب حقیقی توصرف خدا کی ذات ہے جس کو فنانہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، سورج اورچاند،کائنات اور انسانی روح کی تخلیق سے بھی پہلے ،یہاں تک کہ اس وقت سے بھی پہلے جب خدا نے کہا کہ ’’ہوجا‘‘ اور سب کچھ معرض وجودمیں آ گیا اس لمحے سے بھی پہلے ماروی ،مروس سے محبت کرتی تھی۔ قیدتنہائی میں وہ اس وقت کو یادکرتی ہے جب وہ خدا کی واحدانیت کا ایک جزو تھی مگر جب اسے جسم عطا ہوا وہیں سے ثنویت کا آغازہوا۔ اب وہ مجبورمحض اور جسم کی قید میں ہے۔وحدت الوجودکے تناظرمیں اس کا وجود اصل وجودکی طرف جانا چاہتاہے۔ماروی وطن سے محبت کی علامت ہے۔ عمریہاں حرص اوررکاوٹ کے طورپرآیاہے جوکہ عشق حقیقی کی راہ میں بڑی سدِراہ ہے۔ عشق حقیقی کے رستے پر چلتے ہوئے نفسانی خواہشات انسان کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ۔عمر بھی ماروی کوبہت سے لالچ دینے کی کوشش کرتاہے لیکن وہ مسلسل واپس جانے کی خواہش کااظہارکرتی ہے۔کوئی لالچ اس کے دل سے اس کے محبوب کے پیارکوکم نہیں کر پاتا۔ وہ قیدمیں اس بات کی منتظرہوتی ہے کہ اس کے وطن سے کوئی خبرآئے۔وہ خط لکھنے کی بھی کوشش کرتی ہے مگراس کے آنسو خط کی سیاہی کودھندلادیتے ہیں۔ اس مقام پر شمل ہماری تہذیب کی روح میں اترتے ہوئے اس وقت کاحوالہ دیتی ہیں جب عورتوں کواس لئے زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جاتاتھاکہ وہ خط لکھنا سیکھ لیں گی اور رسم محبت نبھاتے ہوئے اپنے محبوب کو اپنی داستان ہجرسنائیں گی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ماروی یادوں کی شمع جلا لیتی ہے۔وہ اپنے گاؤں کے ان چرواہوں کویادکرتی ہے جنہیں زندگی میں کبھی قیمتی کپڑا پہننا نصیب نہیں ہوا لیکن اسے ان کا لباس عمرکے دیئے ہوئے ریشم اور کم خواب سے کہیں زیادہ خو ب صورت معلوم ہوتاہے۔وہ یہ بھی سوچتی ہے کہ ان سے اٹھنے والی بو کستوری اورعنبر سے کہیں زیادہ مسحور کن ہے۔یہاں خوشبو ایک استعارہ ہے۔ ماروی کااپنے وطن کی خوش کن مہک کو یادکرنا بہت اہمیت رکھتاہے کیونکہ تصوف میں خوشبو ایک معنویت رکھتی ہے ۔یہاں وہ اس خوشبو کا ذکرکرتی ہیں جو خدا اپنی پسندیدہ روحوں پرنازل کرتاہے عمر کے محل میں رہنے کے باوجود وہ اپنی سہیلیوں سے ملنے کے خواب دیکھتی ہے کیوں کہ اس کے نزدیک اپنوں کے درمیان رہ کرپیاسا رہنااس شربت سے بہترہے جو ان سے جدائی میں نصیب ہو۔وہ کیسے آرام دہ بسترمیں سو سکتی ہے جبکہ اس کے اپنے اس کی تلاش میں صحراکی خاک چھان رہے ہوں اورٹھنڈی اوس کے تلے سوتے ہوں۔ وہ عمرکی جانب سے دیئے گئے تمام تحفے نامنظورکردیتی ہے کیوں کہ پاک روح کبھی بھی دنیاوی خوبصورتیوں کے جال میں پھنس کراپنے اصل کو نہیں بھولتی۔وہ ہجرکی آگ میں جلتی ہے۔یہ جلن اس کے حسن کومضمحل کرڈالتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے جسم کی قیدمیں روح بھی اپنی خوبصورتی کھودیتی ہے۔ ماروی پریشان ہوتی ہے کہ وہ اس حلیے میں اپنے گھرکیسے جائے گی ۔یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خدا خود خوبصورت ہے اور خوبصورتی کوپسندکرتاہے۔ اس طرح ہرطرف سے مایوس ماروی کی روح اس دنیاکی قیدمیں ہے جوعمرکے محل ہی کی طرح مختلف زیبائشوں سے سجاہوا ہے۔ یہ کہانی بھی سسّی پنوں اورسوہنی مہینوال کی طرح مجازسے حقیقت کی کہانی ہے۔عشق کی راہ پرچلنے والے مسافر کو دنیااچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی اسی لئے سالک کومجنوں کہاجاتاہے اوراسے پتھرمارے جاتے ہیں۔ماروی کے حصے میں بھی لاحاصلی ہے۔وہ ان دیکھی محبت میں گرفتار ہے اورانجام سے بے خبرہے۔شمل کہتی ہیں کہ "Feminine Soul” جب عشق کے راستے پرچلتی ہے تواسے بہت زیادہ مخالفت کاسامناکرناپڑتاہے۔یہی کچھ ماروی کے ساتھ ہوا۔ماروی’’ نے‘‘ہے جو’’نیستاں‘‘سے جداہے ۔وہ قیدمیں جدائی کے دردسے بھرپوریہ گیت گاتی ہے:
Would that I could go home again,
to the land of my father’s toil
that i might return to Malir
and die in the blooming desert soil.
ماروی جانتی ہے کہ وطن کی جدائی اس کے لئے ضروری تھی کیوں کہ عشق میں آزمائش کی سُولی چڑھے بغیرمحبوب سے وصال ممکن نہیں ہے۔ یہاں شمل رومی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے بہت خوبصورت اوربصیرت آمیزبات کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ رومی نے دیگر صوفیا کی طرح یہی کہاہے کہ انسان کی نمو اورارتقاکے لئے اس کاجڑوں سے اکھاڑا جانا انتہائی ضروری ہے۔اس کی مثال رسول اللہ کی ہجرت مدینہ سے لی جاسکتی ہے ۔ مکہ فتح کرنے کے لئے ضروری تھاکہ وہ اس سے جدائی کاکرب برداشت کرتے۔اسی طرح یوسف کی مثال ہے جواپنے بھائیوں کے حسدکی بنا پر وطن سے نکالے گئے اورپھرمصرکے بادشاہ بن گئے ۔چناں چہ ماروی کوبھی اس کی بے لو ث محبت، وفا اور صبر کا صلہ ملا۔وہ تمام آزمائشوں میں سرخروہوئی اورایک پاک روح کی مانند جو آلائشوں سے محفوظ رہی ہو، اپنے وطن لوٹ گئی۔اس کاانتظاررنگ لایا۔مروس نے ایک پیغامبر بھیجا اور عمراسے واپس بھیجنے پرراضی ہوگیا۔یہاں شمل اسلامی اورمقامی روایت سے ایک سیپ کی مثال بھی دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جس طرح سیپ اپنے اندرسمندرکے نمکین پانی کوآنے سے روکے رکھتی ہے اور بارش کے خالص اورمیٹھے پانی کاا نتظارکرتی ہے کہ وہ آئے اورموتی بنے۔یوں ہی ماروی نے بھی عمرکے بہکاوے سے خود کو محفوظ رکھا۔ وہ جس طرح پاک دامن آئی تھی ویسے ہی اپنے وطن کو واپس لوٹی۔ گویاوہ ایک صوفی کی روح تھی جس نے خود کودنیاوی آسائشوں اور آلائشوں سے پاک رکھا اورخداکے وجودمیں ویسے ہی جاملی جیسے اسے اس دنیا میں بھیجا گیاتھا۔ این میری شمل نے اسلامی تصوف میں عورت کے مقام کوبیان کرنے کے لئے ’’عمرماروی ‘‘کاانتخاب کیاہے۔اس حوالے سے انہوں نے تانیثیت کے تمام زاویوں کوسامنے رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔وہ یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ صرف تصوف انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلوہے جہاں مرداورعورت کی تفریق نہیں۔یہاں وہ صرف ’’بندہ خدا‘‘ہے۔عورت بھی اپنے جذبوں کے خلوص،سچائی اورلگن سے خداکے ہاں وہی مقام اورمرتبہ پاسکتی ہے جومرداپنی ریاضت سے حاصل کرتاہے۔اس کہانی میں بھی ماروی مجازسے حقیقت تک کا سفر طے کرتی ہے جوکہ خداتک پہنچے کا واحدراستہ ہے اور ایک مرد ہی کی طرح سرفراز کی جاتی ہے۔این میری شمل کی ’’My soul is a women‘‘کاسب سے نمایاں اور قابل ذکرپہلوُ ان کاایشیائی سرزمین کا تہذیبی شعورہے۔سرزمین پاک وہند کی ان لوک داستانوں کی حقیقت تک رسائی چاہے اس کاذریعہ کچھ بھی رہا ہوبطورمستشرق قابلِ تحسین ہے۔اس کی وجہ شایدشِمل کاایک عورت ہونا بھی ہوسکتاہے جو نرم جذبوں کی مالک ہوتی ہے اورکل کی بجائے جزئیات پرزیادہ دھیان دیتے ہوئے زندگی کی گہرائی تک جاپہنچتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان داستانوں کی اتھاہ میں پہنچ کرعلم وحکمت کے موتی چن لاتی ہیں۔
فیس بک کمینٹ