پیارے دوستو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ انگریزوں نے برِصغیر پر کم و بیش سو سال تک حکومت کی ہے اور پھر یہاں سے جاتے جاتے ہمارے معاشرے کو دوسری بہت سی علتوں کے علاوہ ۔۔۔ دو علتیں ایسی بھی دے گئے ہیں کہ جن کو ابھی تک ہماری قوم بڑے احترام سے گلے لگائے پھرتی ہے ان میں سے ایک تو میرے ذہن سے نکل گئی ہے لیکن دوسری میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں اور وہ اس لیئے۔۔۔۔۔کہ یہ چیز بڑی ہے مست مست ۔۔ اور دوستو اس مست چیز کا نام ہے چائے۔ کہ جس کو ہم ثواب سمجھ کر دن رات پیتے رہتے ہیں اور یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک ایسی پہچان بن گئی ہے کہ ہر موقعہ بے موقعہ پیش کی جاتی ہے کوئی مہمان آ جائے تو خوامخواہ اس کی تواضع چائے سے کی جاتی ہے چاہے اُس وقت اس بے چارے کو پانی کی شدید طلب محسوس ہو رہی ہو اسی طرح خوشی کی کوئی تقریب ہو تو چائے پی جاتی ہے اور غم کے بارے میں تو آپ نے ہمارے لوکل دانشور کا یہ قول سن ہی رکھا ہو گا کہ درد بڑھتا گیا ۔۔ چائے چلتی رہی ۔
چائے کے بارے میں مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے یاد آیا کہ چائے پینے کے لیئے مختلف لوگوں کے اپنے اپنے سٹائل ہوتے ہیں مثلاً بعض لوگ اس قدر گرم چائے پیتے ہیں ۔۔۔۔ کہ پتہ نہیں وہ کیسے پیتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ اور اس سلسلہ میں یہ لوگ اس قدر جذباتی واقعہ ہوئے ہیں کہ جیسے ہی چولہے سے کیتلی اترتی ہے یہ حضرات فوراً ہی پیالی میں چائے ڈال کر "سڑوکے” لگانا شروع کر دیتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس بعض لوگ ایسے بھی واقعہ ہوئے ہیں کہ جو چائے کو اس قدر ٹھنڈا کر کے پیتے ہیں کہ اگر ان کی چائے میں تھوڑی سی برف اور ایک چمچ روح افرا ملا دیں تو وہ شربت کا کام بھی دے سکتی ہے چائے پینے کے لیئے ایک تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن میں سرِ فہرست ہمارے لوکل دانشور صاحبان ہیں اور اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ چائے نہ تو بہت زیادہ گرم پینی چائیے اور نہ ہی بہت ٹھنڈی۔۔۔ بلکہ یہ تو ” کوسی کوسی” پینے کا مزہ آتا ہے چائے کے بارے میں مشہور مزاح نگار انور مسعود صاحب کا شعر عرض ہے کہ ۔۔۔
چائے ہی چائے بدن میں ہے لہو کے بدلے
دوڑتا اب ہے رگوں میں یہی تتا پانی۔۔۔
جب انور مسعود صاحب جیسے جید بندے نے چائے کے بارے میں شعر کہہ دیا ہے تو پھر ہمارا لوکل دانشور بھی بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا چنانچہ اس نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ۔۔کنٹین میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چائے ہی چائے نظر آئی جدھر دیکھا۔۔۔۔
۔۔۔ پیارے پڑھنے والو اب جبکہ اس لوکل دانشور کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو کیوں نہ میں آپ کو چائے کے بارے میں اس کا ایک قول بھی سناتا چلوں جو کہ آہستہ آہستہ اس کے محلے میں زبانِ زدِ عام ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔اور وہ قول ہے۔۔۔ ہر وقت چائے کا وقت ۔ اور جناب آپ سے کیا جھاکا ۔۔ وہ لوکل دانشور کہ جس کا ابھی ابھی ذکرِ جلی کیا گیا ہے اتفاق سے وہ لوکل دانشور (جسے بعض شر پسند عناصر بوجہ حسد مفت بر بھی کہتے ہیں) ۔۔ میں ہی واقع ہوا ہوں ۔تو دوستو آپ کی اطلاع کے لیئے فخریہ عرض کیا ہے کہ آپ کا یہ لوکل دانشور چائے کا بہت رسیا ہے اور اس سلسلہ میں اس کا دوسرا قول جو کہ عنقریب ضرب المثل بننے جا رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ مفت کی چائے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے چنانچہ ایک دن کی بات ہے کہ اپنے اس قول پر سختی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے آپ کا یہ لوکل دانشور اپنے شہر کے ایک مشہور چائے خانہ کے پاس ناکہ لگائے کھڑا تھا ۔۔۔کہ کہیں سے کوئی واقف بندہ ۔۔۔کہ جس کا مخیر ہونا بھی شرط نہیں تھا ۔۔ بلکہ شرط تھی تو بس اتنی کہ ایک دفعہ وہ شخص چائے پینے کی غرض سے ہوٹل کے اندر داخل ہو جائے ۔۔۔ باقی کا کام یہ خود سر انجام دے لے گا کیونکہ اس کام میں ہمارا یہ لوکل دانشور یدِ طولیٰ رکھتا ہے ۔۔
ہوٹل کے پاس کھڑے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سامنے سے میرا ایک دوست آتا دکھائی دیا اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی ایک چمک سی آ گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی میری طرف ایسے دیکھنے لگا تھا کہ جیسے بچہ مٹھائی کی دکان پر برفی کی طرف دیکھتا ہے چنانچہ میرے پاس آتے ہی اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور کہنے لگا۔۔۔ سرکار اگر آپ چائے پی چکے ہو تو مجھے بھی پلا دو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اپنے اس دوست کی یہ واہیات بات سن کر میں نے غضب ناک نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا کہ عزیزم کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔۔۔ تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں نے اپنے پلے سے چائے پی ہو گی ۔ میری یہ بات سن کر وہ غیرتِ قومی سے زمیں میں گڑ گیا اور نہایت شرمندہ شکل بنا کر میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ ادھر یہ دیکھ کر کہ میری بات سے وہ شرمندہ ہو گیا ہے۔ میں اور بھی شیر ہو گیا چنانچہ میں نے اپنے اوپر مزید غضب طاری کیا اور پھر وحشی نظرو ں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔چنانچہ میری ان وحشی نظروں کی تاب نہ لا کر ۔۔۔۔ وہ چپکا ہو کر نیچے کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنی نظریں نیچی کیں ۔۔۔۔ میں اس ڈر سے تھوڑا نرم پڑ گیا ۔۔۔ کہ کہیں الٹا وہ مجھے ہی نہ پڑ جائے ۔۔اس لیئے اب کی بار میں نے کفِ افسوس ملنے پر اکتفا کرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔۔۔ خبردار آئیندہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچنا کہ میں نے اپنے پلے سے کبھی چائے پی ہو گی۔۔۔۔ پھر اس کے بعد میں نے اس کو اپنا ایک اور قول سنایا جو کہ عنقریب مفت بروں کی کتاب میں سنہری حروف میں لکھا جانا تھا۔۔۔ اور وہ قول تھا ” مفت چائے پینے کا اپنا ہی مزہ ہے ” میرا یہ قول دہرانے کی دیر تھی کہ وہ مردِ جری ایک دم سے نیچے کو جھکا ۔۔۔۔ جس کی وجہ میں ڈر گیا کہ کہیں یہ نابکار میری جیب سے بٹوہ ہی نہ نکال لے کہ جس میں اس وقت میرا متاع عزیز یعنی کہ مادھوری ڈکشٹ کی تصویر پڑی ہوئی تھی ۔۔ ( جبکہ بٹوے کے دوسرے پرت میں ایشوریہ رائے کی فوٹو کو محض سٹینڈ بائے کے طور پر رکھا ہوا تھا ) ۔۔ ۔۔۔۔ لیکن اس کے برعکس وہ میرے گھٹنوں کو چھو کر بولا۔۔۔ یا استاد میں تو قائل ہو گیا تمہارا۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی منحوس آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ استاد جی آج اس راز سے بھی پردہ ا ُٹھا ہی دو کہ تم اس قدر گھٹیا اقوال کہاں سے دریافت کر لیتے ہو ؟؟۔۔۔۔ ۔۔ اس جاہلِ مطلق کی یہ بات سن کر میں خاصہ بے مزہ ہوا ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ تندیء بادِ مخالف نہ گھبرا اے عقاب ۔۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیئے۔۔۔۔ پھر باقاعدہ اس شخص کی ذہنی پس ماندگی کا ادارک کرتے ہوئے اس کو معاف کر دیا ۔۔۔اور اپنی خودی کو مزید بلند کرتے ہوئے بولا ۔۔ اے نادان شخص ۔۔ یہ راز کی باتیں ہر ایرے غیرے پر آشکارا نہیں کی جا سکتیں ۔۔۔۔۔۔ اس لیئے اب اس کی جستجو کو چھوڑ اور شکار کی طرف دھیان دے۔میری بات سن کر وہ مزید چوکس ہو گیا ۔۔۔۔اور اپنے ناکے کو مزید سخت کرتے ہوئے بڑی چوکنی نظروں سے ہوٹل کی طرف آنے والے حضرات کو تاڑنے لگا۔۔۔۔
ہمیں ناکہ سخت کئے ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سامنے سے ہمارے علاقے کی دوسری مشہور "چول ” شخصیت ( کہ پہلی کا اعزاز ہمیں ہی حاصل تھا ) استاد بہرام خان تیز تیز قدموں سے ہوٹل کی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔ استاد بہرام خان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ہم دونوں ادھر ادھر ہو گئے۔۔ ۔۔ اگلے ہی لمحے استاد بہرام خان نہایت محتاط قدموں سے فرنٹ فُٹ پر کھیلتے ہوئے ہوٹل کے اندر داخل ہو گئے ۔ استاد کے ہوٹل میں داخلے کے بعد ہم نے کچھ دیر مزید انتظار کیا ۔۔۔ اور پھر جب ہم کو یقین ہو گیا کہ اب تک استاد نے چائے کا آرڈر دے دیا ہو گا ۔۔۔ تو ہم دونوں بھی چپکے سے ہوٹل میں داخل ہو گئے دیکھا تو استاد سامنے والی میز پر بیٹھا چائے کا انتظار کر رہا تھا۔ ہمیں ایک ساتھ ہوٹل میں وارد ہوتا دیکھ کر استاد کا ماتھا ٹھنکا ۔۔۔۔چنانچہ اس نے ہمیں اگنور کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن۔۔۔۔ ہاتھ آئے شکار کو ہم اتنی آسانی سے کہاں جانے دیتے تھے چنانچہ ہم دونوں استاد کے قریب پہنچے اور پھر بڑی لگاوٹ سے بولے ۔۔استاد جی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟۔۔۔اور بنا پوچھے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہمارے یوں بے دھڑک بیٹھنے سے استاد نے خاصہ بُرا منہ بنایا لیکن پھر اللہ کی مرضی سمجھ کے چپ رہا – اسی اثنا میں ۔۔میں نے بیرے کو بلا کر اپنے اور اپنے دوست کے لیئے چائے کا آرڈر دے دیا۔ میرا آرڈر سن کر جیسے ہی بیرا جانے لگا تو اس دوران اچانک ہی استاد کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا کہ چائے کے ساتھ کھانے میں کیا کیا ہے؟ اور پھر استاد نے فوراً ہی اسے چائے کے ساتھ پکوڑوں اور اس قسم کے دیگر لوازمات کا بھاری بھر کم آرڈر دے دیا۔ استاد کو یوں مہربان ہوتے دیکھ کر ہم تھوڑے حیران ہوئے لیکن اس سے پہلے کہ پریشان بھی ہوتے استاد کہنے لگا۔۔کہ آج فیکٹری کی طرف سے اسے بونس ملا ہے چنانچہ اس خوشی میں وہ ہمیں پُرتکلف چائے پلا رہا ہے۔ چونکہ ہمارا سارا دھیان پکوڑوں اور اس کے ساتھ چائے کے دیگر لوازمات کی طرف تھا اس لیئے ہم نے استاد کی بات پر زیادہ دھیان نہ دیا اور پھر جیسے ہی بیرا مطلوبہ چیزیں کے کر آیا ہم دونوں نے استاد کا انتظار کیئے بغیر ان پر یلغار کر دی ابھی ہم پکوڑوں سموسوں کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک ہی استاد بہرام خان کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا یار تھوڑے سے پکوڑے میرے لیئے بھی بچانا کہ میں واش روم سے ہو کر ابھی آتا ہوں سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس وقت ہم پکوڑوں سموسوں کے ساتھ عالمی جنگ نہ لڑ رہے ہوتے تو۔۔۔ شاید۔۔ کچھ غور فرماتے۔۔لیکن ہم نگاہ نیچ کیئے گردن جھکائے ۔۔۔۔ غنیم کے ساتھ برسرِ پیکار تھے – پتہ اس وقت چلا جب لوازمات سے بھرا سارا میز خالی ہو گیا تو اب ہم نے سر اُٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو استاد ندارد ۔۔۔پھر اپنے ساتھ والی کرسی پر نظر دوڑائی کہ جہاں پر دوست بیٹھا ہوا تھا ۔۔ لیکن وہاں بھی خالی کرسی پڑی ہمارا منہ چڑا رہی تھی ۔تو گویا کہ وہ نامعقول بھی دغا دے گیا تھے ۔۔۔ بے اختیار میرے دکھی دل سے یہ آواز نکلی ۔۔دغا دغا وئی وئی۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھے خطرے کا شدید احساس ہوا ۔۔چنانچہ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر جیسے ہی بھاگنے کی کوشش کی ۔۔۔ وہی ویٹر کہ جس نے آرڈر کی تعمیل کی تھی پتہ نہیں کہاں سے نازل ہو گیا ۔۔۔اور میرے پاس آ کر بولا حضور بل تو دیتے جایئے۔۔۔ لیکن چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ اس لیئے میں نے اپنی مسکین شکل کو آخری حد تک مسکین بناتے ہوئے بڑی عاجزی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا ۔ بھائی میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں میرا خیال ہے کہ و ہ پہلے ہی مجھ سے اس قسم کے جواب کی توقع کر رہا تھا اس لیئے پہلے تو اس ننگِ اسلاف نے مجھے ایسی ایسی باتیں سنائیں کہ جس کی ہماری تہذیب اور اخلاق ہر گز اجازت نہیں دیتا پھر اپنی تسلی کے بعد مجھے پکڑ کر اپنے مالک کے پاس لے گیا ۔اور اسے ساری کھتا سنائی ۔۔۔ سن کر اس نے بھی مجھے کچھ ناقابلِ اشاعت قسم کے القابات سے نوازا ۔۔ اور پھر تھوڑی سی مزید تعریف کرنے کے بعد کہنے لگا ۔۔ تمہیں ایسے تو نہیں چھوڑا جا سکتا یہ کہتے ہوئے اس نے کاؤنٹر کے نیچے ہاتھ ڈالا اور وہاں سے ایک میلا کچیلا سا کھچا (نیکر ) نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ پہن کے ہوٹل کے سارے گندے برتن دھوو ۔۔۔ پھر اس کے بعد تم نے آٹا بھی گوندھنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے اسی بداخلاق اور بد تہذیب ویٹر کو عارضی طور پر میرا نگران بھی مقرر کر دیا ۔ ادھر میں نے ہوٹل کے مالک کے ہاتھ سے وہ میلا کچیلا کچھا ( نیکر ) پکڑا اور ویٹر کے ساتھ مروہ قدموں سے چلتے ہوئے اپنے دغا باز دوست کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔اس کی یاد آنے کی دیر تھی کہ میرے دکھی دل سے خود بخود ہی یہ آواز نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔ ۔۔دغا دغا وئی وئی وئی ۔۔۔۔