میں نے 92 میں صحافت شروع کی،یہ وہ وقت تھا جب اخبار میں لکھے ہر لفظ کو ”لغت ”سمجھا جاتا تھا،اگر اخبار میں کارروائی دو ر ے کی بجائے ایک” ر ”سے یعنی کاروائی چھپتی تو اکثر لوگ اسے ہی ٹھیک گردانتے، مجھے شعبہ صحافت میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں جناب قدرت اللہ چودھری صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، چودھری صاحب اس وقت ایڈیٹر اسلام آباد تھے، گو کہ ان کے بعد نیوز ایڈیٹرز جناب نذیر اولکھ اور جناب اسلم ڈوگر صاحب نے بھی میری کافی اصلاح کی، دراصل مجھے صحافت سکھانے والے یہی تینوں حضرات ہیں۔
بات ہورہی تھی جناب قدرت اللہ چودھری صاحب کی، ان کی مادری زبان پنجابی ہے، لیکن اردو لغت اور ادب پر استاد کا درجہ رکھتے ہیں، اسلام آباد میں پہلی تعیناتی سٹی ڈیسک پر جناب عرفان ارشد صاحب کے پاس ہوئی، کچھ عرصہ بعد کارکردگی رپورٹ ملنے پر چودھری صاحب نے حکم جاری کردیا کہ اسے میں تیار کروں گا، اس میں ایک بڑا صحافی بننے کے آثار ہیں، وہ دوکالم اور تین کالم کی میری سرخیاں خود دیکھتے، درستی بھی کی جاتی، اس دوران سرخی کی اصلاح بھی ہوتی، مجھے یاد ہے تعیناتی کے تین ماہ بعد اظہر سید کے رپورٹر بننے پر مجھے سپورٹس اور کامرس کا صفحہ بطور انچارج دیدیا گیا،سٹاک مارکیٹ میں مندی کو مندہ لکھا جاتا ،سو میں نے بھی یہی لکھنا شروع کردیا، ایک دن چودھری صاحب نے بلایا، اپنے کمرے میں پڑی اردو لغت کی طرف اشارہ کرتے فرمایا اسے اٹھا ءو اور مندہ ڈھونڈ کر دکھاؤ، کافی دیر دیکھا مگر نہ ملا، پھر مسکرائے اور پنجابی میں کہا ”جناب نوں لبھیا کہ نئیں ” میں نے نفی میں جواب دیتے کہا کہ سر مندی کا لفظ ہے،تو کہا یہی اصل لفظ ہے، تصحیح ویسے بھی کرسکتا تھا لیکن لغت دیکھنے کے بعد تمہیں تا عمر یاد رہے گی۔
آ جکل تو بیس الفاظ کی سرخی بھی چل جاتی ہے، کمپیوٹر جوڑ دیتا ہے، ہمارے زمانے میں میں دوکالم سرخی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ 13 ہوتے تھے، تیرہ الفاظ کی سرخی نکالنے والے کو نا لائق سب ایڈیٹر گردانا جاتا تھا کہ سرخی ”کینڈے” میں نہیں لاسکا،کم سے کم الفاظ میں سرخی ہی معیار ی ہوتی تھی، آ جکل ”فلاں سڑک کی تیاری آ خری مراحل میں داخل ہوگئی” جیسی سرخیاں چھپ رہی ہیں، حالانکہ آ خر سے داخل ہو گئی ختم کردیں تو بھی سرخی کا مفہوم سمجھ آجاتا ہے،لیکن سرخی کو طوالت دیکر اس کی خوبصورتی کو ہی ختم کردیا جاتاہے۔
اب تو بدقسمتی سے اردو اور انگریزی کی لغات ہی نیوز روم سے غائب ہیں، اگر ہیں بھی تو استفادہ کرنا گوارہ نہیں کیا جاتا، مجھے حالیہ میڈیا بحران کے باعث جس ادارے کو بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر چھوڑ نا پڑا وہاں بھی یہی حال تھا، خورونوش کو خوردونوش لکھا جاتا، گلدستہ کو پھولوں کا گلدستہ چھاپا جارہا تھا، بمشکل درستی کرائی،لیکن آ جکل پھر وہی کچھ چھپ رہا ہے،میری ہر نئے آ نے والے نوجوان کو یہی نصیحت ہے کہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ صحافی الفاظ کا کنجوس ہوگا تو ہی بہتر کام کرسکے گا،یہی کام خبر کو ایڈیٹ کرتے کرنا ہوگا ،”کا” کا لفظ اگر اضافی ہے تو اسے بھی کاٹیں، 2000 الفاظ کی خبر 400 الفاظ کی ہوسکتی ہے، لغت پر بھرپور توجہ دیں، آ ج کل پرنٹ میڈیا کے زوال کی وجوہات میں سے ایک الفاظ کا صحیح چناؤ نہ ہونا بھی ہے۔
پہلے سرخی میں اگر مگر جیسے الفاظ نہیں ہوتے تھے، جس سرخی کا اختتام” ہے” پر ہو وہ کمزور سرخی ہوتی ہے، اگر پہلی پٹی جس لفظ پر شروع اور ختم ہو، دوسری پٹی بھی اسی لفظ سے شروع یا ختم نہ کی جائے،اگر ہم اب بھی درستی کریں تو کم از کم صحافت کا معیار بہتر کیا جا سکتا ہے، یہ نیوز ایڈیٹر صاحبان کی بھی ذمہ داری ہے کہ سب ایڈیٹرز کو نعش اور لاش کا فرق بتائیں، ہر شادی شدہ عورت کو دوشیزہ لکھ دیا جاتا ہے،یاد رکھیں اسی اخبار کی کاپی آ پ کی بہنیں، بیٹیاں بھی پڑھتی ہیں، وہ کچھ چھاپیں جنہیں ان کے سامنے دیکھتے یا پڑھتے آ پ کو شرمندگی نہ ہو، بدقسمتی سے اب ایسے ایڈیٹر بھی مارکیٹ میں ہیں جو آ رام سے کہہ دیتے ہیں اب سب چلتاہے،مستقبل آ پ کا ہے، صحیح ایڈیٹر بنیں ،کہ لوگ پھر سے اخبار میں چھپنے والے الفاظ کو مستند سمجھیں،پرنٹ میڈیا کی موجودہ تباہی کے ذ مہ دار نان پروفیشنل سیٹھ ہی نہیں کچھ ہم خود بھی ہیں، ذرا غور کریں، آ خر میں برے کو چھوڑ و نہیں ، بیگناہ کی بددعا سے ڈ رو ، کسی کیخلاف ثبوت نہیں تو خبر نہیں چھپنی چاہیے، سو چیں جو کیچڑ کسی کے بے داغ دامن پر ڈال رہے ہو ، اگر آ پ کے بے داغ دامن پر وہی چھینٹے پڑیں تو کیسا محسوس کریں گے؟؟؟ میرے مرحوم والد سید عاشق علی فر خ صاحب فرماتے تھے بیٹے صحافت پیشہ پیغمبری ہے، اس لئے عبادت سمجھ کر مخلو ق کی رہنمائی کی کوشش کریں۔ ( میری گذارشات ان نوجوان صحافیوں سے ہیں،جنھوں نے ابھی بہت آ گے جانا ہے, کہنے کو تو بہت کچھ ہے ،لیکن اختصار سے لکھنے کی کوشش کی ہے)
فیس بک کمینٹ