بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ سورج، چاند گرہن اور عید پر دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں، سابق صدر ایوب خان کے بارے میں سنا ہے کہ موصوف نے اقتدار جانے کے خوف سے عید جمعہ کے بجائے ہفتے کو منا نے کااعلان صادر فرمایا تھا حالانکہ اسوقت کے اکثر علماء چاند کی رعیت پر متفق تھے۔
چلیں عیدین تو آگے پیچھے کرنا ان حکمرانوں کے بس میں ہے، لیکن چاند وسورج گرہن ان کے احکامات کے تابع نہیں، یہ اللہ کے حکم سے ہی ہوتے ہیں، اس مرتبہ کا سورج گرہن تو کئی برسوں بعد وطن عزیز میں بھی دیکھا گیا، اس گرہن کے بعد علم فلکیات کے ماہرین بھی موجودہ حکومت کیلئے اسے نیک شگون قرار نہیں دے رہے، موجودہ حکومت کی 16 ماہ کی ناقص ترین کارکردگی پر تو اپوزیشن ان کے جانے کی مسلسل تاریخیں دے رہی ہے، جمعہ کو راولپنڈی میں اپنی والدہ اور شہید وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت پر برسی کے موقع پر بہت بڑےجلسہ عام سے خطاب میں تو پی پی چیئرمین نے سلیکٹڈ کو الوداع کہہ دیا، ان کا اور دیگر جماعتوں کا ماننا ہے کہ 2020 منصفانہ انتخابات کا سال ہے۔
ویسے تو ایوب سے لیکر اب تک یہ قوم حقیقی جمہوریت اورمنصفانہ الیکشن کو ترستی رہی دیکھیں شاید ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو اس بار یہ زعم ہے کہ اب ان کی باری آرہی ہے، حالانکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ کسے آگے لانا ہے اور کسے دیوار سے لگانا ہے جیسے فیصلے کون کرتا ہے، پولنگ سٹیشنزپر لمبی لمبی قطاریں صرف نظر کا دھوکہ ہوتی ہیں، کاش ہم بھی ملک میں عوام کی حکومت، عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت اور عوام کیلئے حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ لیں، کاش۔۔
بات ہورہی تھی کہ گرہن حکمرانوں کے لئے بد شگون ہوتے ہیں، موجودہ حکمرانوں نے اپنے پاؤ ں پر کلہاڑی مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حد تو یہ ہوگئی کہ انکے وزرا کی میڈیا ٹاک سے قوم کو اور کچھ ملے نہ ملے انجوائے کرنے کیلئے بارہ مسالے ضرور مل جاتے ہیں، پھر وزیراعظم تو وزیررررر اعظم ہیں وہ کیسے پیچھے رہینگے!!!! این آر او نہیں دونگا، چھوڑوں گا نہیں پر بھی موصوف نے یو ٹرن لے لیا، بلکہ پی پی اور ن لیگ کے بقول ان سے این آر او مانگتا کون ہے؟؟ جنھوں نے دینا تھا نواز شریف اور زرداری ان سے ڈیل کر چکے، مریم بھی کچھ عرصہ بعد باہر جاسکتی ہیں روک سکتے ہیں تو روک کر دکھا ئیں۔
جمعہ کو ہی وزیراعظم نے نیب قوانین میں ترمیم کرکے سرمایہ کاروں کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے، حالانکہ انکے حوالے سے بھی موصوف کا دعویٰ تھا کہ نہیں چھوڑ وں، واقفان حال کے مطابق وزیراعظم پر اپنے سرمایہ دار دوستوں کا بھی دباؤ تھا،اسی لیے اسے دوستوں کا این آر او بھی کہا جارہا ہے، حکومت نہ رہی تو نیب سے کون بچائے گا، اسی لئے پیش بندی ہورہی ہے، یاددہانی کیلئے میں روزنامہ ایکسپریس میں جولائی کے الیکشن کے فوری بعد اپنی تحریروں میں کہا تھا کہ عمران خان کی ” ان گنت“ خدمات کے باعث کچھ عرصہ کیلئے حکومت دینا فیصلہ سازوں کی مجبوری ہے، اور یہ عرصہ ڈیڑھ، دو سال کا بتا یا تھا، دیکھیں بلاول کا الوداع کا خواب کب پورا ہوتا ہے، لیکن آخر میں ایک اور بات بلاول کی ہتھیلی پر وزیراعظم کی لکیر نہیں، شاید آصفہ بھٹو اپنی شہید والدہ کی جگہ لے سکیں، بہرحال ابھی کئی چہرے منظر نامے سے غائب ہونے والے ہیں، تھوڑا انتظار ۔۔
فیس بک کمینٹ