مجھے اپنے دور جاہلیت کا وہ زمانہ یاد ہے جب میں احمد فراز ایسے محب وطن شاعر کو بھی ملک دشمن سمجھا کرتا تھا اور فیض احمد فیض ایسے صوفی منش کے بارے میں بھی دل میں کچھ وسوسے سے تھے۔ چنانچہ ان دنوں بجا طور پر میری اس جاہلیت سے نفرت کرنے والے بھی موجود تھے۔ ’’موراوور ‘‘ کے طور پر میں نے تحریک نظام مصطفیٰ میں ایک’’ قلمی مجاہد‘‘کا کردار بھی ادا کیا۔ میرے جیسے لاکھوں مخلص مگر لاعلم لوگ اپنے طور پراس تحریک کو نظام کی تبدیلی کے لئے چلائی گئی تحریک سمجھتے تھے۔ میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فاشسٹ سمجھتا تھا جس نے پی پی پی کے بانی رکن جی اے رحیم سے لے کر میاں طفیل احمد اور دوسرے متعدد رہنماؤں پر تشدد کیا تھا یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ یہ سی آئی اےکی اسپانسرڈ تحریک تھی اور اس کا مقصد بھٹو کو اس کی پیدا کی ہوئی خرابیوں کی نہیں بلکہ ملک و قوم کے لئے کئے ہوئے اس کے مثبت کاموں کی سزا دینا تھا۔ میں اپنے ماضی کی اس سوچ پر آج تک شرمندہ ہوں اور جب اپنی یہ احمقانہ حب الوطنی یاد آتی ہے تو خود سے منہ چھپا لیتا ہوں۔
ان دنوں معزول وزیر اعظم میاں نواز شریف کو غدار قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی بنیاد ان کے بمبئی حملوں پر دئیے گئے بیان کو بنایا جا رہا ہے حالانکہ میاں صاحب نے بالکل ویسی ہی باتیں کی تھیں جو اس سے پہلےکئی جرنیل خود کہہ چکے تھے بلکہ ایک جرنیل نے تو پوری کتاب لکھ ماری تھی مگر میں سوائے اس بات کے کہ نواز شریف کو غیر محب وطن قرار دینا ویسی ہی سوچ ہے جس سوچ کا میں ماضی میں اسیر رہا ہوں۔ چنانچہ اب میں اس سے اگلی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور اس کی ایک وجہ ہماری وہی روایتی حب الوطنی بھی تھی۔ مگر صرف یہی ایک وجہ نہیں امریکہ کی موجودہ قیادت تمام اسلامی ممالک کو اکیلا اکیلا کر کے تباہ وبرباد کرتی چلی آ رہی ہے ۔ قذافی اور صدام وغیرہ ڈکٹیٹر تھے مگر امریکہ نے ان کے ملکوں کو برباد ان کے ڈکٹیٹرشپ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اس بیانئے کی وجہ سے کیا تھا جو مغربی استعمار کے حوالے سے تھا۔ اب ایک بار پھر شام ، عراق ان کے نشانے پر ہیں اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کروایا جا رہا ہے۔ داعش امریکہ کی بنائی ہوئی تنظیم ہے جو صرف اسلامی ممالک کی تباہی میں ہی نہیں،اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے مشن میں مشغول ہے۔ ان کے ’’ہمدرد‘‘ پاکستان میں بھی موجود ہیں، بلکہ ایک دو ’’قلمی مجاہد‘‘ بھی انہی کی لائن ’’فالو‘‘ کر رہے ہیں چنانچہ اس وقت میرے مخاطب پاکستان کی فوج، ہماری ایجنسیاں اور حکومت اور اپوزیشن کے رہنما بھی ہیں۔ جنہیں اس نازک وقت میں پاکستان کو اسی آفت سے بچانا ہو گا جس کے حوالے سے ہمارے جنرل جنجوعہ نے ’’رد فساد‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو چالیس سال سے ہم بو رہے تھے۔
میں یہاں واضح کردوں کہ ہماری آرمی اور سول کی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ہیں۔ انہیں جو ٹاسک دیا جائے اسے پوری کامیابی سے نبھاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی نظروں سے کوئی ملک دشمن چھپا ہوا نہیں ہے۔خصوصاً سیاسی رہنماؤں کی ہر نقل و حرکت اور ان کی تمام گفتگوئیں ان کے ریکارڈ میں موجود ہوتی ہیں۔ میری مودبانہ گزارش ہے کہ جب ٹھوس بنیادوں پر کسی شخص یا کسی جماعت کی غداری ان کے نوٹس میں آ جائے تو پھر اسے معاف نہ کیا جائے بلکہ اسے نشان عبرت بنا دیا جائے۔
اورجہاں تک ہماری اپوزیشن جماعتوں اور موجودہ برائے نام حکومت کا تعلق ہے ۔میں ان سب سے اختلاف اور اتفاق کے درمیان رہتے ہوئے ان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں ۔ نواز شریف ہوں یا زرداری ۔ عمران خان ہوں ، مولانا فضل الرحمان ۔ سراج الحق ہوں اسفند یار ولی ۔ بلوچی رہنماہوں ان میں سے کوئی بھی غدار وطن نہیں ۔ ان کے کسی رویے کو ملکی مفاد کے منافی تو قرار دیا جا سکتا ہے اور اس میں بھی دو آرا موجود ہوتی ہیں چنانچہ میری مودبانہ درخواست یہ ہے کہ ہم باہمی پسند و ناپسند کے جھگڑوں میں الجھے رہنا چاہتے ہیں تو الجھتے رہیں مگر ایک حد ایسی ہوتی ہے۔جسے کراس کیا جائے تو حسن ظن رکھنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہےسو ہمیں آپس میں ’’سرحدی جھڑپیں‘‘ جاری رکھنے کے باوجود پاکستان کے اصل دشمن انڈیا اور اس کی مغربی سرزمین کی بدمعاشیوں کو نہیں بھولنا چاہئے یہ میری استدعا نہیں، یہ پاکستان کی استدعا ہے۔ جس نے آپ کو عزت دی ہے ، اب آپ کا فرض ہے کہ اس کی عزت کی رکھوالی میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ