حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے اس لئے میں حکومت نہیں کرتا ۔حکومت کرنے کیلئے الیکشن کے دوران دس کروڑ عوام کی محکومی کرنا پڑتی ہے، ان سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے، ان سے گلے ملنا پڑتا ہے، ان کی جھگیوں میں جانا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ شوربے میں لقمہ ڈبو کر کھانا پڑتا ہے،وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھنا پڑتی ہے، مزاروں کو غسل دینا پڑتا ہے۔ امریکہ کو آنکھیں دکھانا پڑتی ہیں، کبھی یہ آنکھیں جھکانا پڑتی ہیں، جرنیلوں کو سلیوٹ مارنا پڑتا ہے، آئی ایس آئی سے بناکر رکھنا پڑتی ہے، کسی کو گرانا پڑتا ہے، کبھی اسے منانا پڑتا ہے، جمہوریت کی بات کرناپڑتی ہے، اسلام کی بات کرنا پڑتی ہے، غیروں کو نوازنا پڑتا ہے، اپنوں کو ٹرخانا پڑتا ہے، ایک سجدہ کرانے کیلئے سینکڑوں سجدے کرنا پڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں حکومت کرنا پسند نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ میں حکومت کرنے کی بجائے اخبار میں کالم لکھتا ہوں مگر کالم لکھنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ لوگوں کو ایمانداری کا درس دینا پڑتا ہے اور اپنے بیٹے کو ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘ بھرتی کرانا پڑتا ہے، اپنے لکھے ہوئے ہر لفظ کو کیش کرانا پڑتا ہے، کیشئر سے عزت کی توقع بھی کرنا پڑتی ہے، موجود حکمرانوں کے علاوہ متوقع حکمرانوں سے بھی تعلقات رکھنا پڑتے ہیں، کسی کو جاتے دیکھ کر آنے والے کے استقبال کی پیشگی تیاریاں کرنا پڑتی ہیں، جب کوئی آ جائے تو سابقہ حکمرانوں کے خلاف کوئی ایک آدھ ایسا ٹکڑا تلاش کرنا پڑتا ہے جو ’’گناہوں‘‘ کی کہانی کے کام آ سکے، کرائے کے قاتل کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور حریت پسندی کا تاج بھی سر پر سجانا پڑتا ہے، ماہوار ’’وظیفے‘‘ کو چھپانا بھی پڑتا ہے اور خود کو شاہ کا مصاحب بھی مشہور کرنا پڑتا ہے۔ غرض کہ کالم نگاری بھی کوئی آسان کام نہیں۔
چنانچہ ان دنوں میں کوئی آسان کام کرنے کی سوچ رہا ہوں۔ مثلاً میرا ارادہ برسراقتدار حکومت جوائن کرنے کا ہے، میں نے ایک سو کے قریب بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ان نوجوانوں کو میں نعرے بازی کی ٹریننگ دوں گا اور پھر جہاں صاحبان اقتدار کا جلسہ ہوگا اپنی اس فورس کے ساتھ وہاں پہنچ جائوں گا۔ یہ زندہ باد کے نو عدد نعرے صاحب جلسہ کے لئے اور ایک میرے لئے لگائیں گے۔ جس سے صاحب جلسہ کو میری قوت کا اندازہ ہوگا اور یہ بھی کہ ان کی ساری مقبولیت بھی میرے جیسے ’’مقبول لیڈروں‘‘ کی مرہون منت ہے۔ اس کے نتیجے میں مجھے صاحبان اقتدار کا قرب حاصل ہوگا اور میںسیاست دانوں کے پجارو گروپ میں شامل ہو جائوں گا تاہم میں اپنی قوت کے اصل سرچشمہ یعنی نعرے باز بے روزگار نوجوانوں کو نہیں بھولوں گا بلکہ انہیں روزگار فراہم کرنے کیلئے ابتدائی سرمایہ اور تحفظ فراہم کروں گا جس سے وہ اپنے اپنے علاقے میں ہیروئن اور جوئے وغیرہ کے اڈے کھول سکیں۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ کام بھی خاصا مشکل ہے کہ اس میں کمپیٹیشن بہت زیادہ ہے چنانچہ میرا ارادہ بیورو کریٹ بننے کا ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس عمر میں بیوروکریٹ بننے کیلئے میرے رستے میں کوئی قانونی بندش رکاوٹ بنے گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے، سارے قواعد و ضوابط جنبش قلم کی مار ہوتے ہیں۔ بیورو کریٹ بننے کے بعد میرے جنبش قلم سے صاحبان اقتدار کے بھی کام کسی قواعد و ضوابط کے بغیر ہوتے چلے جائیں گے، جس کے نتیجے میں میری عزت اور اقتدار میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوگی، مگر جب میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ یہ کام بھی خاصا مشکل ہے، مگر خدا بھلا کرے ایک صاحب کا جو عین اس کنفیوژن کے لمحے میں آن وارد ہوئے، پوچھنے لگے کیا مسئلہ ہے؟ میں نے مسئلے کی تفصیل بیان کی تو انہوں نے کان میں اڑسی ہوئی بیڑی نکالی اور سلگانے کے بعد ایک لمبا سوٹا لگاتے ہوئے کہا ’’یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں‘‘ آپ لمبے چکروں میں پڑنے کی بجائے سیدھی طرح وہ کریں جو میں کر رہا ہوں، اللہ مشکل آسان کرے گا۔ میں نے کرسی اس اجنبی کے قریب سرکائی اور پوچھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لایا اور سرگوشی کے انداز میں بولا ’’کچھ بھی نہیں‘‘ صرف اتنا کریں کہ مونچھیں رکھ لیں، کاندھوںپر پرنا ڈالیں اور شام کو جہاں میں کھڑا ہوتا ہوں وہاں آپ کھڑے ہو جایا کریں، میں ایک عرصے سے اس بازار میں بڑے لوگوں کی خدمت کر رہا ہوں، عزت کی روٹی مل رہی ہے اور ضمیر پر کوئی بوجھ بھی نہیں کیونکہ جو ہوں وہی نظر بھی تو آتا ہوں، یقین کریں جس طرح کی کالم نگاری آپ کرتے ہیں اس سےیہ بہتر اور آسان کام ہے۔ میں نے کہا تمہاری بات دل کو لگتی ہے، مگر میں پہلے پتہ کرلوں کہ اس دوران کہیں اس شعبے میں بھی کمپیٹیشن زیادہ تو نہیں ہوگیا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ