روح کیا ہے؟ جسم کے اندر روح کہاں ہوتی ہے؟ کیا روح پورے جسم میں ہوتی ہے، یا کسی خاص حصے میں موجود ہوتی ہے؟ روح مادی شے ہے یا غیر مادی؟ اگر مادی ہے تو اس کی کمپوزیشن کیا ہے؟ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم روح کو محفوظ کر سکیں او ر کسی مرنے والے کے جسم میں اس روح کو داخل کرنے کے بعد اس کو مزید زندگی دی جا سکے؟ کیا روح جسم سے ایک ہی بار موت کے وقت نکلتی ہے یا پھر جو لوگ کومہ کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں ان کے جسم سے روح کی خاص مقدار نکل جاتی ہے اور باقی موت کے وقت نکلتی ہے؟ کیا مرنے کے بعد روح زندہ رہتی ہے یا روح بھی مر جاتی ہے؟
بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو دنیا کے تمام انسان بظاہر گوشت پوست سے بنے ہوئے ہیں ، اور گوشت سے بنے ہوئے کچھ اعضا بولتے، سنتے، دیکھتے اور چلتے پھرتے ہیں جبکہ انہی اعضاء میں سے اگر کچھ اعضاء جیسے دل یا دماغ اٹیک ہونے یا چوٹ لگنے سے معطل ہو جائیں تو بھی سانسیں رک جاتی ہیں۔یہاں پھر سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دل اور دماغ کو کنٹرول کرنے والی چیز بھی روح ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ جسم کے مختلف حصے ایک ہی وقت میں نہیں مرتے بلکہ بتدریج مرتے ہیں کیا جسم کے ہر حصے کی الگ روح ہوتی ہے؟ یا پھر مرنے سے پہلے کچھ لوگ اپنے جسم کے اعضاء عطیہ کر جاتے ہیں توسوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا کسی شخص کا کوئی عضو کسی دوسرے شخص میں لگانے کی صورت میں روح بھی منتقل شدہ عضو کے ساتھ منتقل ہوجاتی ہے۔؟ اور منتقل شدہ عضوصاحب عضو کے مرجانے کے بعد زندہ کیسے رہتا ہے؟ انسان جوں جوں ترقی کرتا گیا ہے اسی طرح سے میڈیکل سائنس نے بھی ترقی کی بدولت بہت سی بیماریوں کے علاج دریافت کر لیے، اب بہت سے مصنوعی اعضاء کی بدولت بھی انسانی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ تو روح مصنوعی طور پر کیوں نہیں بنائی جا سکتی؟
دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانی جسم میں روح موجود ہوتی ہے، او ر کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کوئی انرجی انسانی جسم میں موجود ہوتی ہے، اور جیسے ہی روح یا وہ انرجی جسم سے نکلتی ہے تو وہ جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ روح آج تک دکھائی نہیں دی لیکن روح کا سراغ پانے کے لئے نیو یارک کے ڈاکٹر ایل جان اور ڈاکٹر ابراہم نے سینکڑوں تجربات کیے۔ اور بالآخر اعلان کیا کہ انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے۔ روح کا سراغ تو وہ بھی نہیں لگا سکے بس انسان کے مرنے کے بعد اس کے پھیپھڑوں سے آکسیجن کی جو مقدار خارج ہوتی اس سے انہوں نے اندازہ لگایاکہ انسانی روح کا وزن صرف 21 گرام ہوتا ہے۔
روح اگر ہے تو انسان زندہ ہے ، وہ طاقت اور فعالیت کا سرچشمہ ہے، وہ چلتا ، پھرتا، کام کرتا سوتا اور جاگتا ہے اور دنیا میں اس کی ایک پہچان ہوتی ہے ، احساسات و جذبات ، غم و غصہ، پیار و محبت بھی تب تک انسان کے اندر رہتے ہیں جب تک اس جسم میں روح ہوتی ہے لیکن جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو جسم کی ماہیت تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے انسان کچھ ہی لمحوں میں حال سے ماضی بن جاتا ہے۔اور وہی جسم مرنے کے بعد کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے۔
روح وہ قوت ہے جو بدن کو زندہ رکھتی ہے روح کا وجود جسم کو زندگی بخشتا ہے اور اس کی جدائی جسم کو موت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ یہ قوت محض ہمارے پھیپھڑوں میں دوڑنے والی سانس یا ہوا نہیں ہو سکتی، اسلئے کہ سانس بند ہوجانے کے بعد بھی زندگی کچھ وقت تک جسم کے خلیوں میں باقی رہتی ہے، لیکن جب ایک مرتبہ جسم کے خلیوں سے زندگی ختم ہوجائے توپھر بحال نہیں ہو سکتی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روح جسم کے خلیوں میں پائی جانے والی زندگی ہے۔
اس حوالے سے دنیا کی تمام الہامی کتابیں انسانی جسم میں روح کی تصدیق کرتی ہیں۔ اگر قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو سورۃ الواقعہ آیت 83-87 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ” جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو، اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں۔ مگر تم دیکھ نہیں سکتے، اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے؟
اگر ہم انسان اپنے آ پ پر غور کریں تو ایک وقت تھا جب ہم بالکل موجود ہی نہیں تھے، پھر ہماری پیدائش ہوئی، ہم دنیا میں لائے گئے ہم اپنی مختصر زندگی جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، مرنے کے بعد روح جسم سے نکل جاتی ہے اور بعد ازاں قدرت روز قیامت اس روح کو جسم میں داخل کرے گی اور پھر سے ہمیں زندگی دی جائے گی۔ سورۃ القیامہ آیت نمبر 3-4میں ارشاد ہوا ” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکھٹی نہیں کریں گے، ضرور کریں گے، اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کر دیں۔ اور سورۃ الملک آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوا کہ ” اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے” ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ رب کائنات نے اس کائنات کو اور اس کائنات کی تمام چیزوں کوتخلیق کیا۔روح کے حوالے سے بھی ارشاد ہوا کہ یہ امر ربی ہے اور انسان اس بارے میں بہت کم جانتا ہے
روح کے سراغ کے حوالے سے انسانی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ دنیا کے سائنسدانوں نے کچھ عشرے پہلے جب ہبل ٹیلی سکوپ کی بدولت یہ انکشافات کیے کہ زمین سے سینکڑوں گنا بڑے سیارے ،ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں۔اور ہمارا نظام شمسی اس وسیع و عریض کائنات کا ایک بہت ہی مختصر حصہ ہے تو یہ انتہائی حیران کن انکشاف تھا، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں سائنسدانوں کی دن رات محنت کی بدولت ابھی تک انسا نی قدم صرف چاند تک ہی پہنچے ہیں جبکہ مریخ کی طرف ابھی سیٹلائیٹس بھیجے جا رہے ہیں، زمین سے لاکھوں، کروڑوں میل کے فاصلوں پر موجود سیاروں اور ستاروں تک انسان کیسے پہنچے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ اس وسیع کائنات کی گتھیاں سلجھانے میں ابھی انسان کوبہت وقت چاہیے ہوگا ، شاید اس وقت تک انسان روح کا سراغ لگا سکے۔ !
فیس بک کمینٹ