ملکی تاریخ کا خوفناک اور شدید سیلاب پورے ملک میں ہلچل مچاتا ہوا اب سندھ کی طرف رواں دواں ہے۔ اس سیلاب نے ہزاروں موضعات کو متاثر کیا ہے، کئی ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ مکانات گر چکے ہیں۔ مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوئے ہیں اور کئی قمیتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
جنوبی پنجاب میں راوی ستلج اور جناب نے وہ تباہی مچائی ہے کہ الامان الحفیظ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہو کر خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سیلابی ریلوں کے بعد اب متاثرین سیلاب کی آ باد کاری کا مرحلہ آ یا ہے۔ اگرچہ یہ سیلاب ایک عرصے کے بعد آ یا ہے ،اس لئے حکومت بھی یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ تاہم یہ سیلاب عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ متعلقہ اداروں اور حکومت کے لئے بھی سبق آ موز ثابت ہوا ہے۔
ماضی میں دریاؤں کی زمین پر بھی قبضہ مافیا نے غیر قانونی طور پر تعمیرات کیں جس کا خمیازہ بھی بیچاری عوام کو بھگتنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ناجائز تعمیرات کرنے والوں درختوں کا کاٹ کے ہاوسنگ کالونیاں بنانے والوں کا بھی محاسبہ ہوتا تاکہ آ ئیندہ کسی کو ناجائز قبضوں کا شوق نہ ہوتا۔ دریا اپنی زمینوں کو واگزار کرانے کے لئے جس جوش و خروش سے آ یا ہے، اس نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اگرچہ سیلاب کی شدت میں بھارتی آ بی جارحیت بھی شامل رہی لیکن ڈیم نہ بنانا اور پہلے سے موجود بندوں کی دیکھ بھال نہ کرنا اور مستقبل کی حکمت عملی وضع نہ کرنا، حکومتی نااہلی میں شامل ہوتا ہے۔ دریاؤں کے آ گے راتوں رات بند نہیں باندھے جاتے بلکہ اس کے لئے مربوط حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ طویل المدتی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں دریائے چناب نے ملتان مظفرگڑھ علی پور اور شجاع آ باد میں معمولات زندگی کو متاثر کیا ہے۔ جلال پور پیروالہ میں بروقت لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل نہ کرنے اور بندوں کے ٹوثنے کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم فوج ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کے بروقت اقدام نے صورت حال کو سنبھال لیا ہے۔
ایسے میں پرائیوٹ کشتی والوں کی بے حسی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے مواقع پر انتظامیہ کو چوکس رہنا چاہیے۔ بعض جگہ سیاسی دباؤ اور اراکین اسمبلی کے تعلقات اور دباؤ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
فیلڈ مارشل، وزرا، پنجاب کی وزیر اعلی اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور ریلیف کیمپوں کے دورے بھی کئے ہیں۔ تاہم انتظامیہ نے سیلاب کے بعد جس ذمہ داری اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہے، ایسی ہی جانفشانی اور مہارت سیلاب اور آفات سے قبل بھی نظر آ نی چائیے۔ انتظامیہ کو حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹ دینے کی بجائے حالات کے پیش نظر موقع پر اپنی فہم و فراست اور صحیح لوگوں کی مشاورت سے فیصلے کرنا چاہیں۔ دباؤ یا اپنے اردگرد مفادات پرستوں کے مشوروں پر نہیں چلنا چائیے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کا اپنے گھر بار اور مال مویشیوں کو چھوڑ کر حکومتی کیمپوں میں جانے سے ہچکچاہٹ اور انکار کی ایک وجہ ان کے گھروں کا غیر محفوظ ہونا، امن وامان کی صورتحال کا ناقص ہونا اور پولیس پر عدم اعتماد ہونا بھی قرار دیا جارہا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آ یا ہے کہ کئی وزیروں، مشیروں نے سیلابی علاقوں کا دورہ محض فوٹو سیشن تک رکھا۔ اب جب کہ سردی کا موسم بھی شروع ہونے کو ہے اور سیلابی پانی کو اترنے میں بھی کچھ وقت لگے گا تو رفاعی اداروں، سیاسی جماعتوں اور فلاحی تنظیموں کو سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کرنا ہوگی۔ ان علاقوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی صرف فوٹو سیشن اور بیان بازی تک محدود نہ رہیں۔ بلکہ دل کھول کر سیلاب زدگان کی اپنی جیب خاص سے امداد کریں۔
ایک عرصے سے کالا باغ ڈیم متنازعہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ جب بھی کہیں سے اس کو شروع کرنے کی کوئی آ واز سنائی دیتی ہے، اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا یے کہ ہم بھلے سیلاب کے پانی سے ڈوب جائیں مگر یہ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اس اہم مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرے تاکہ آئیندہ کے لئے سیلابی نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ اگلے سال زیادہ بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس لئے اقدامات بھی زیادہ کرنا ہوں گے۔ پی ڈی ایم اور دیگر اداروں کو مستعد اور فعال کرنا ہو گا۔ ضلعی حکومتیں بھی ہر سال ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ عین وقت پر بھاگ دوڑ کرنے کی بجائے پہلے سے حفاظتی تدابیر کی جا سکیں۔
دریائی آ بادیوں کے نزدیک بسنے والوں کو متبادل جگہوں پر آ باد کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ ہاؤسنگ کالونیوں کے قیام کے لئے سفارش دباؤ اور رشوت کلچر کو ختم کیا جائے۔ سیلاب کا فوری مقابلہ کرنے کے لئے لائف بوٹ لاہف جیکٹس اور تجربہ کار غوطہ خوروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ قدرتی آ فات سانحات حادثات اور سیلاب روکے نہیں جا سکتے مگر ان کا تدارک کرتے ہوئے نقصانات کو روکا ضرور جا سکتا ہے۔ سیلابی صورت حال میں بے حسی کا مظاہرہ کرنے والے منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا سے آ ہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے
سیاسی جماتیں فلاحی ادارے اور سیاسی جماعتیں مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے دردمندوں کے کام آئیں۔ سیلاب میں پھنسے عوام کی داد رسی کریں کہ یہی انسانیت کا تقاضا ہے:
کسی دردمند کے کام آ کسی ڈوبتے کو اچھال دے
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )