بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ایک ہفتے سے جاری احتجاج اوردھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ احتجاج لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کا احترام کرنے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود مظاہرین نے گوادر کے علاوہ متعدد دوسرے مقامات پر دھرنا دیا اور احتجاج کیا۔ تاہم اب احتجاج صرف اس یقین دہانی پر ختم کیا جارہا ہے کہ اس دوران میں گرفتار ہونے والے افراد کو بلا تاخیر رہا کیا جائے گا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاج اور اس کے پر امن خاتمہ سے یہ واضح ہونا چاہئے کہ بلوچ عوام امن پسند اور خود دار ہیں۔ وہ ملک میں انتشار یا امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ حکومت کی توجہ ان حالات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اس وقت بلوچستان کے عوام کو درپیش ہیں۔ وہاں ہر دوسرے گھر سے کسی نہ کسی المیہ کی اطلاع ملتی ہے اور سال ہا سال کی جد و جہد اور توجہ دلاؤ مہمات کے باوجود حکومت محض زبانی یقین دہانی اور کسی عبوری معاہدے کے ذریعے احتجاج ختم کرانے کو اپنی کامیابی سمجھتی رہی ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت کو اب اس سراب سے باہر نکلنا چاہئے اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ سنجیدہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے ان تمام امور کا جائزہ لینا چاہئے جن کے بارے میں اس صوبے کے عوام میں بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تحت اس احتجاج کے حوالے سے چند امور قابل توجہ ہونا چاہئیں۔ سب سے اہم اور افسوسناک رویہ میڈیا کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ایک حقیقی اور عوامی تحریک ہے لیکن ملکی میڈیا نے اس احتجاج کے بارے میں کوئی خبر شائع یا نشر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ بلوچ احتجاجیوں نے کسی بھی طرح نہ تو ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور نہ ہی کسی مقام پر اشتعال دلانے کی کوشش کی۔ جب بھی تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ سکیورٹی فورسز نے ذبردستی احتجاج اور دھرنے کے لیے جانے والے مظاہرین کو روکا اور ایسے میں فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مظاہرین جاں بحق ہوئے لیکن بلوچ یک جہتی کمیٹی کی پرعزم قیادت نے سرکاری دھونس کے سبب مشتعل ہونے کی بجائے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پرامن طریقے سے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا سرکاری خوشنودی کے لیے ایسے احتجاج کے بارے میں خبریں یا رپورٹیں شائع یا نشر کرنے سے گریز کررہا تھا۔ البتہ ذمہ دار مدیران کو میڈیا مالکان سے سنجیدہ مکالمہ کرنا چاہئے کہ ادارتی اختیار پر کس حد تک سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف جو احتجاج کیا اور گزشتہ 6 روز سے لیاقت باغ راولپنڈی میں دھرنا دیا ہؤا ہے، اس کی خبریں تواتر سے شائع ہورہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں شدید اضافہ عوام میں بے چینی اور غصہ پیدا کررہا ہے اور اس قسم کے احتجاج کی کوریج قومی و عوامی مفاد کے عین مطابق ہے۔ لیکن اسی دوران میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاج کو نظر انداز کرنا کسی ذمہ دار قومی میڈیا کو زیب نہیں دیتا۔ انگریزی اخبارات میں اکا دکا مضامین ضرور شائع ہوئے ہیں جن میں بلوچستان میں پکنے والے لاوے کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن جب تک میڈیا مؤثر طور سے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم نہیں کرے گا ، اس وقت تک ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی تقسیم گہری ہوتی رہے گی۔
بلوچستان کے عوام ہمیشہ سے پنجاب کے سیاست دانوں اور نوکر شاہی سے شکوہ کناں رہے ہیں لیکن اب میڈیا بھی اگر اسی صف میں شامل ہوجائے گا تو عوام کے درمیان پل بنانے، غلط فہمیاں دور کرنے اور جائز مطالبات کے لیے ہونے والی مہم جوئی کی حوصلہ افزائی کا کام کون کرے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب ایک چھوٹے صوبے کے عوام ایک دیرینہ اور انسانی مطالبے کے لیے احتجاج کررہے ہیں تو ملکی میڈیا ان کا ترجمان بن کر حقیقی زمینی حالات کے بارے میں رپورٹیں اور جائزے پیش کرتا۔ ملک کا دانشور اور ادیب آگے بڑھ کر نوجوان بلوچ قیادت کے سر پر ہاتھ رکھتا اور انہیں یقین دلایا جاتا کہ ان کے مطالبات صرف ایک صوبے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں انسانی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ایسے ہی احساسات و جذبات پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو خلا سیاست دانوں کی لاپرواہی اور مجبوری کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے ملک کا الیکٹرانک میڈیا اسے پر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن دیکھا گیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حالیہ احتجاج کے دوران میں اس فرض کو پورا نہیں کیا گیا اور سنگین کوتاہی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسی کوتاہی دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ پاکستان موجودہ حالات میں مزید دوریوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اسی حوالے سے بلوچستان کی حکومت کے علاوہ مرکزی حکومت کا رویہ اور طرز عمل بھی افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے احتجاج کو محض ایک دور دراز علاقے میں ایک چھوٹے سے گروہ کی کارروائی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ملاحظہ کیا گیا ہے کہ اب یہ آواز بلوچستا ن کے گھر گھر جا پہنچی ہے اور ہر گھر کسی نہ کسی صورت اس احتجاج میں شرکت کررہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزرا اس دوران میں سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کے حق میں دیے گئے ایک فیصلے پر حیران و پریشان اس کا توڑ کرنے میں سرگرداں رہے ہیں۔ کوئی معتبر لیڈر پریس کانفرنس کررہے تھے یا قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ناکارہ بنوانے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ان سب اقدامات کا تعلق کسی بھی طرح ملکی عوام کے بنیادی حقوق یا کسی جمہوری اصول سے نہیں ہے بلکہ یہ اقتدار پر قابض موجودہ سیاسی دھڑوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے طریقے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس بلوچستان میں ہونے والا احتجاج بلوچ عوام کی ایک بنیادی اور ہمہ گیر محرومی و پریشانی کی عکاسی کررہا تھا۔ اس موقع پر اگر کسی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف خود بلوچستان نہیں جاسکتے تھے تو انہیں اپنے سینئر معاونین کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے بھیجنا چاہئے تھا۔
اگر حکومت کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا کوئی اقدام کرنے میں ناکام تھی تو کم از کم بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے نمائیندے گوادر بھیج کر بلوچ مظاہرین کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی شکایات سنتے۔ تاکہ اعتماد کی فضا پیدا ہونے میں آسانی ہوتی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے سابقہ دور میں کوئٹہ کے دورہ کے دوران میں لاپتہ افراد کے حوالے سےا پنی ’بے بسی‘ کا اظہار کرچکے ہیں ۔ انہوں نے اس مطالبے کے جواب میں کہا تھا کہ وہ متعلقہ لوگوں تک یہ مطالبہ پہنچادیں گے۔ اس حد تک تو اب یہ بات عام فہم ہے کہ ملک کی سیاسی حکومت شہریوں کو لاپتہ کر نے میں براہ ارست ملوث نہیں ہے لیکن جس عسکری قیادت کے تعاون سے سیاست دان اقتدار حاصل کرتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اس اہم مسئلہ کو اصولی نکتہ کے طور پر پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ اس کے برعکس حالیہ بلوچ احتجاج کے دوران میں دیکھا گیا ہے کہ میڈیا پر سرکاری کنٹرول کے سبب اس احتجاج کی خبر باقاعدہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ شہباز شریف کی حکومت کو اپنی اس پالیسی پر ندامت ہونی چاہئے۔ اگر کوئی حکومت ملکی عوام کے جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتی تو کم از کم ان کے پاس جاکر اس بات کا اقرار تو کرسکتی ہے کہ ہم سب اس حوالے سے بے بس ہیں۔ لیکن اس کے برعکس حکومتی کنٹرول کے سبب بلوچ احتجاج کا بلیک آؤٹ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ حکمت عملی کسی سیاسی و جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتی۔
بلوچ یک جہتی کمیٹی کے احتجاج کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کی قیادت میں خواتین نمایاں ہیں اور ان کی سرکردگی میں بلوچ بیٹیاں گھروں سے نکل کر اپنے حقوق کی آواز بلند کررہی ہیں۔ اس طرح یہ احتجاج امن کی ضمانت اور بلوچستان میں وسیع تر عوامی اتحاد و یک جہتی کا سبب بنا ہے۔ صوبے میں عرصہ دراز سے علیحدگی پسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ بعض قوم پرست گروہ مسلح جد و جہد بھی کرتے رہے ہیں۔ دراصل اسی بغاوت کو کچلنے کے لیے طویل مدت سے بلوچستان میں امن و امان بحال رکھنے کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز نے سنبھالی ہوئی ہے۔ تاہم ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو یکساں طور سے سمجھنا چاہئے کہ کسی ایک صوبے پر فوجی طاقت سے امن قائم رکھ کر اعتماد پیدا نہیں ہوسکتا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی عوامی جذبات کی عکاسی کرتی ہے لیکن وہ قوم پرستانہ شدت پسندی کی بات نہیں کرتی اور نہ اس کے لیڈر تشدد کا پرچار کرتے ہیں۔ اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کمیٹی کی قیادت کے ساتھ حقیقی سیاسی مذاکرات کے ذریعے ایسی قوم پرست قوتوں کا زور توڑا جاسکتا ہے جو صوبے میں جنگ کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔ البتہ اس مقصد کے لیے ملکی قیادت کو بلوچ عوام کے جائز مطالبات مان کر ان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔
ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یک جہتی کمیٹی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کروانے کے علاوہ صوبے کے وسائل میں مقامی آبادی کے حصے کی بات بھی کرتی ہے۔ یہ مطالبہ جائز اور اصولی ہے۔ دنیا بھر میں یہ طریقہ مروج ہے کہ جہاں سے قدرتی وسائل حاصل ہوں اور انہیں قومی تعمیر نو پر صرف کرنے کا منصوبہ بنایا جائے تو مقامی لیڈروں کو اعتماد میں لیا جائے اور اس علاقے سے ہونے والی آمدنی میں وہاں کے عوام کو جائز اور مناسب حصہ دینے کا کوئی قابل عمل فارمولا تسلیم کیا جائے۔ ایسے مطالبات کو نظرانداز کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ دوری اور غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اور مفاد پرست عناصر انہیں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ ستر کی دہائی سے چلا آرہا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا کوئی باوقار حل تلاش کرنے کی بجائے اس کی شدت میں اضافہ ہؤا ہے اور سرکاری ادارے کسی طور اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ملکی سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ اس غیر انسانی اور غیر قانونی طریقے کو ختم کروایا جائے اور ان تمام افراد کے بارے میں معلومات سامنے لائی جائیں جو اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ قومی وحدت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اب اس معاملہ کو مزید نظرانداز کرکے پاکستان کے لیے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
( بشکریہ : کاروا ن ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ