کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس میں محصور مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن رات گئے تک جاری تھا۔ آخری خبریں آنے تک 104 مسافر رہا کرائے گئے تھے جبکہ ٹرین پر حملہ کرنے والے 16 شدت پسند ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ دہشت گرد کچھ مسافروں کو ریل گاڑی سے اتار کر پہاڑوں میں لے گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق جعفر ایکسپریس پر سرکاری ملازم اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی سوار تھے۔ جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی کہ ڈھاڈر مشکاف اسٹیشن کے قریب ٹرین پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ فائرنگ میں انجن ڈرائیور زخمی ہوگیا تھا تاہم بعد میں وقفے وقفے سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں مسافروں کے زخمی یا جاں بحق ہونے کے بارے میں معلومات فراہم نہیں ہیں۔ اس دوران کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹرین پر قبضہ کرنے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ بی ایل اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے فوج کے متعدد اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں ہؤا۔
اس دوران صدر مملکت اور وزیر اعظم سے لے کر وزرا اور صوبائی وزیر اعلی کی طرف سے دہشت گردوں کی مذمت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر آصف زرداری نے اس افسوسناک المیہ کو بلوچ روایت کے خلاف قرار دیا۔ وزیر اعظم نے اسے دہشت گردی کا شاخسانہ کہتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے شدت پسند عناصر کے لیے کوئی جائے امان نہیں ہے اور انہیں پوری قوت سے کچل دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملہ ہماری قومی سلامتی پر حملہ ہے۔خون بہانے والوں کو زمین پر جگہ نہیں ملے گی، دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا۔انہوں نے عوام خوفزدہ نہ ہونے کا مشورہ دیا اور دعویٰ کیا کہ دشمنوں کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے تعاقب میں ہیں۔بچ کر کوئی نہیں جائے گا۔وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ پوری قوم اپنی بہادر فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔ دہشت گردوں کی مکمل بیخ کنی کریں گے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ بیانات کی حد تک مرکزی و صوبائی حکومتوں کے نمائیندے دہشت گردی کی بیخ کنی کے بعد سب لوگوں کو پر امن زندگی فراہم کرچکے ہیں لیکن ایسے کسی بھی واقعہ کے بعد بیانات کا ایسا ہی سلسلہ دراز ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی سیاسی یا سرکاری حیثیت کے مطابق پر زور الفاظ میں باغی عناصر کا خاتمہ کرکے لوگوں کو شاد و آباد رہنے کی نوید سناتا ہے ۔ لیکن کسی بھی وقوعہ کے چند روز بعد معاملات معمول پر آجاتے ہیں لیکن کوئی ایسا قومی منصوبہ سامنے نہیں آتا جو ملک میں انتشار و بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کی روک تھام کرسکے ۔ انٹیلی جنس کا کوئی ایسا نظام استوار ہوسکے جس کے تحت حکومت اور سرکاری اداروں کو کسی دہشت گردی کے بارے میں کارروائی ہونے سے پہلے ہی خبر ہو اور لوگوں تک شدت پسندوں کی رسائی سے پہلے ہی ان کا سراغ لگا کر ایسے کسی منصوبے کا قلع قمع کیا جاسکے۔ دنیا بھر میں انٹیلی جنس کارروائیوں کے ذریعے ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاتا ہے ۔ متعدد ممالک نے جاسوسی اور معلومات کی ترسیل کا ایسا منظم انتظام استوار کیا ہے کہ کوئی واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی منصوبہ ساز کی گرفت کرلی جاتی ہے۔ یوں متعدد معاملات میں کسی جانی نقصان سے پہلے ہی سکیورٹی فورسز سماج دشمن عناصر تک پہنچ جاتی ہیں۔ البتہ پاکستان میں یہ طریقہ دیکھنے میں نہیں آتا حالانکہ پاکستان کو دہشت گردی کا کئی دہائیوں سے سامنا ہے۔
دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد اکیسیوں آئینی ترمیم کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف متعدد اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں قومی ایکشن پلان بھی شامل تھا۔ اس منصوبہ کے تحت ہی انٹیلی جنس اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا تھا کہ نظام کو ہر وقت مستعد و ہوشیار رکھا جائے تاکہ کسی گروہ کی طرف سے تشدد کا پہلے سے تدارک کیا جاسکے۔ البتہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ملک میں ناقص نظام حکومت کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کو سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر جان قربان کرناپڑتی ہے۔ اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی نگرانی اور نقل و حرکت کے بارے میں اہم معلومات کو ایک چینل سے دوسرے چینل اور ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک پہنچتے اور اس کے سد باب کے لیے منصوبہ بندی سے پہلے ہی دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن میں جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹدیز (پی آئی پی ایس) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 کے دوران ملک میں دہشت گردی اور تشدد کی صورت حال 2014 کی سطح پر آچکی تھی۔ رپورٹ کے مطابق گو کہ 2014 کی طرح اس وقت کسی دہشت گرد گروہ کا کسی خاص علاقے پر تسلط نہیں ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں امن و اما ن کی صورت حال تشویشناک ہے۔ گزشتہ سال ملک میں ہونے والے پچانوے فیصد دہشت گرد حملے ان دو صوبوں ہی میں ہوئے تھے۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی شدت پسندانہ کارروائیوں میں 119 فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران بلوچستان میں ان دو کالعدم گروہوں نے 171 حملے کیے۔ اس دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہےاور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ افغان حکام ان حملوں کی سرپرستی کر تے ہیں۔ سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے اور محفوظ سرحدی پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔ افغانستان میں 20 دہشت گرد تنظیمیں فعال ہیں۔ کالعدم بی ایل اے، سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور شواہد ہیں کہ افغان حکام ان حملوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کابل حکام ٹی ٹی پی کے حملوں سے واقف ہیں اور سرحد پار حملوں میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی افغانستان میں بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی دیگر دہشت گردی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ان کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنا ہے۔
اس رپورٹ اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی نام نہاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے اور بلوچستان کے قوم پرست علیحدگی پسند گروہ صوبے کی خود مختاری کی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مقصد میں دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔ ان گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ ان عناصر کو ہمسایہ ملک میں پناہ ملتی ہے اور حملے کرنے کے لیے ضروری تربیت اور وسائل میسر آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فورسز اگرچہ بہادری سے ان عناصر کا مقابلہ کررہی ہیں لیکن ملک میں انٹیلی جنس رابطہ کاری کمزور ہے اور بروقت معلومات ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پہنچنے کے سبب زیادہ نقصان ہوتا ہے اور دہشت گرد قوتیں طاقت پکڑتی ہے۔ قوم پرست اور مذہب کی بنیاد پر جنگ کرنے والے گروہوں میں تعاون و یک جہتی پاکستانی حکام کے لیے تشویش کا سبب ہونی چاہئے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف بہادر فوجیوں ہی ضرورت نہیں بلکہ بہتر منصوبہ بندی اور انٹیلی جنس کو مؤثربنانا اہم ہے۔
بلوچستان کے قوم پرست عناصر کی ناراضی کی بنیادی وجہ صوبے کے سیاسی حالات ہیں۔ یہ عناصر یوں بھی طاقت ور ہوتے ہیں کہ علیحدگی پسند عناصر کے مقابلے میں جو سیاسی گروہ متحدہ پاکستان کے حامی ہیں، ان کے ساتھ رابطہ کاری اور سیاسی حل کے لیے کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بلوچستان کے عوام سیاسی و معاشی محرومیوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان کی نمائیندگی کرنے والے سیاسی لیڈر وں اور جماعتوں کے ساتھ آسانی سے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سیاسی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں بے چینی پیدا ہوتی ہے جس سے علیحدگی پسند عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں کو حکومت پاکستان آسانی سے بعض ٹھوس اقدامات کے ذریعے اپنا ہمنوا بنا سکتی ہے ، انہیں انتہاپسند گروہوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ یہ کسی بھی سیاسی و حکومتی نظام کی مکمل ناکامی کہلائے گی۔
اس سے پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ بلوچستان میں دو اہم ترین مسائل درپیش ہیں۔ ایک مقامی قدرتی وسائل میں صوبے کے عوام کا متفقہ حصہ اور لاپتہ افراد کا معاملہ۔ علیحدگی پسندوں کے خلاف آتشیں بیان دینے والے لیڈروں کو کبھی خود یہ بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے صوبے کے عوام کو علیحدگی پسند رجحانات سے دور کرنے کے لیے کون سا اقدام کیا ہے۔ کسی بھی شدت پسندی کی بنیاد سیاسی محرومیوں میں ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی حکومت کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے ساتھ ان عوامل کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو عوام میں پریشانی و ناراضی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بلوچستان میں شروع کیے گئے معاشی منصوبوں سے پاکستان کی معاشی تقدیر تبدیل کرنے کے خواب دیکھے جارہے ہیں لیکن جس علاقے سے یہ وسائل حاصل ہورہے ہیں ، وہاں کے عوام کو اس میں شامل کرنے اور سیاسی اتفاق رائے کا کوئی منصوبہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اسی طرح لاپتہ افراد کا معاملہ ایک قومی ناسور کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ حکومت عسکری قیادت کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو فوری طور سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن کمزور سیاسی قیادت اس بارے میں کوئی مناسب لائحہ عمل بنانے اور فوجی اداروں کو حکمت عملی تبدیل کرنے کے لیے آمادہ نہیں کرپاتی۔
بلوچستان ہو یا خیبر پختون خوا، کہیں بھی دہشت گردی کے واقعہ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد اسلام آباد سے بیانات کا سلسلہ ضرور شروع ہوجاتا ہے لیکن کبھی وزیر اعظم یا وفاقی وزیر داخلہ کو توفیق نہیں ہوتی کہ ایسے سانحہ کے بعد وہ متعلقہ مقام پرپہنچیں اور متاثرین کے ساتھ مل کر ان کے تاثرات جاننے اور ان کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ سیاسی قیادت کا موجودہ رویہ معاملات حل کرنے میں سرگرمی دکھانے کی بجائے لاتعلقی کا ہے۔ اس رویہ سے نہ تودہشت گردی ختم ہوگی اور نہ ہی عوام کا اعتماد جیتا جاسکے گا۔
( بشکریہ: کاروان ۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ