پاکستان میں بداعتمادی کی فضا اس حد تک سنگین اور پریشان کن ہے کہ کوئی بھی فرد یا گروہ مسائل حل کرنے کے لیے متوازن، مؤثر، دیرپا اور عقلی جواز پر استوار کوئی راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے اپنی محدود سوچ کے مطابق کسی بھی مسئلہ کاحل تلاش کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ کسی مخصوص رائے یا حل کے برعکس آنے والی ہر تجویز کو بددیانتی اور غیر منصفانہ قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کے خط کے حوالے سے دیکھنے میں سامنے آئی ہے۔
اس معاملہ کو چند روز گزرنے کے بعد سپریم کورٹ اور حکومت کے اتفاق رائے قائم ہونے والے ایک رکنی انکوائری کمیشن نے ابھی کام شروع نہیں کیا لیکن ابھی سے اس کمیشن کی کمزوری، ناکامی یا اس کے ممکنہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے اندیشوں کی بنیاد پر ایسا بیانیہ استوار کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس سے قوم مسلسل انتشار و بحران کا شکار رہے، حکومت پر دباؤ بنا رہے اور سپریم کورٹ کی نیک نیتی ، انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت اور نظام درست کرنے میں ناکامی کا تاثر قوی ہو۔ اس طرز عمل کو سیاسی ایجنڈے کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا لیکن اسے ’عوام کی مایوسی‘ کے نعرےمیں لپیٹ کر ایک حقیقی مسئلہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستانی عوام ضرور مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں لیکن اس مایوسی کو پیدا کرنے میں کسی ایک واقعہ نے کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کا ایک پراسرار خط اچانک اس مایوسی کی وجہ بنا ہے۔ قومی سطح پر پائی جانے والی مایوسی کی دو بڑی وجوہات ہیں:
ایک: یہ کہ ملک کے شہریوں کی آمدنی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ خاص طور سے بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے بلوں کی وجہ سے عام گھرانوں کو جس شدید معاشی دباؤ کا سامنا ہے، اس کا فوری حل کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ البتہ اس صورت حال کو حل کرنے کے لیے کوئی قومی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ حکومت اگر یہ کام کرنا چاہتی ہے یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے تو بداعتمادی اور الزام تراشی کے شدید ماحول میں پہلے سے ہی اس کے عزائم، صلاحیت یا ارادوں کے بارے میں رائے عامہ تشکیل دینے کا کام شروع کرد یاجاتا ہے۔ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہوئے یہ سمجھنے یا دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ پاکستان کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے وسیع تر افہام و تفہیم بے حد ضروری ہے۔
دوئم: معاشی دباؤ اور عوام کی مجبوری و محرومی کو سیاسی ہتھکنڈا بنانے والے عناصر مسلسل سوشل میڈیا اور مواصلت کے دیگر ذرائع کے ذریعے یہ تاثر استوار کرنا چاہتے ہیں کہ عوام بہت پریشان ہیں اور حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ اس کی ایک وجہ پہلے انتخابی دھاندلی کو قرار دیا جاتا رہا ہے اور اب حکومت کو ’ناجائز‘ بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ناکامی ہی موجودہ حکومت کا مقدر ہے کیوں کہ عوام اسے قبول نہیں کرتے اور یہ مسلط کردہ حکومت ہے۔
انتخابی دھاندلی، سول معاملات میں عسکری قیادت کی مداخلت اور عدلیہ کی بے بسی کا منتر دہائیوں پر محیط تجربات، غلط فہمیوں، حرص اور اختیارات سے تجاوز کے درجنوں چھوٹے بڑے واقعات کی بنیاد پر استوار ایک ایسا تاثر ہے جو اس وقت قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستانی سماج و نظام کے حوالے سے آفاقی حقیقت تو یہ ہے کہ نہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے، نہ قانون پر عمل کرنا چاہتا ہے، نہ اپنے حصے کا ٹیکس دینے پر تیار ہے اور نہ ہی چوری کا موقع ملنے پر کوئی اس ’ترغیب‘ سے دامن بچانا ضروری سمجھتا ہے لیکن جب بھی قومی مسائل یامعاشی پریشانیوں کا ذکر ہوگا، تو یہ سب ہی عناصر مل کر بلند آواز سے ایک ان دیکھی اسٹبلشمنٹ کے طرز عمل کو ملکی مسائل کی جڑ قرار دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ حالانکہ قومی آمدنی میں اضافہ کے لیے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ روکنے کی بجائے اس ملک کے ہر شہری کو اپنے حصے کاکام کرنے ، ٹیکس ادا کرنے اور سرکاری وسائل میں اضافہ کی کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تو یہ نوبت ہے کہ پی آئی اے کے چند ہزار ملازمین سال ہا سال سے قومی خزانے میں سیند لگائے ہوئے ہیں لیکن اپنی نوکریوں کی ’حفاظت‘ کے نام پر قومی خزانے کو مسلسل زیر بار کرنے کے لیے سیاسی دباؤ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
ملکی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور عدلیہ کی بالواسطہ اعانت کے ذریعے من مانی کرنے کے رویوں نے ملکی نظام کو کمزور کیا ہے۔ اس طریقے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہؤا ہے کہ اب ملک کا کوئی بھی سیاست دان یا سیاسی پارٹی خالص جمہوریت یا عوامی تائد پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ سیاسی مہم جوئی بھی کرتے ہیں، خود کو عوام کی مرضی کا تابع بھی قرار دیتے ہیں لیکن ان سب سیاسی گروہوں کا اولین مقصد کسی بھی طرح عسکری قیادت کے ساتھ ’پاور شئیرنگ‘ کے کسی فارمولے کے تحت اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ جمہوریت پر اس بے یقنی نے باقی ماندہ دیگر مسائل کو جنم دیا ہے لیکن یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لیے باہمی تعاون کی کوئی فضا تیار نہیں ہوپاتی کیوں کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مسائل حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی، معاشی انتظام اور سیاسی استحکام کی بات کرنے کی بجائے ایک لیڈر کا نام لے کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر معاملات کو اس کے سپرد کردیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے کہ متعلقہ لیڈر کو جب بھی موقع ملے گا تو وہ عوامی تائید پر بھروسہ کرکے عوام کی خدمت گزاری کا عزم نہیں کرے گا بلکہ طاقت کے نام نہاد مراکز کے ساتھ ’افہام و تفہیم‘ کو ہی محفوظ اور مناسب راستہ سمجھے گا۔
اس وقت انتخابات کا ڈھونگ رچا کر شہباز شریف کو اقتدار میں لانے کا سارا الزام اسٹبلشمنٹ پر لادا جاتا ہے۔ یہ الزام لگانے والے یا اس الزام کی بنیاد پر بے بنیاد پروپیگنڈا عام کرنے والے ،کسی بھی مسلمہ فورم پر اپنا مؤقف ثابت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت پاکستانی سیاسی منظر نامہ میں کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن اس بات کا ثبوت بہر صورت موجود نہیں یا کم از کم اسے کسی عدالتی فورم پرکسی بھی جماعت یا شخص نے ثابت نہیں کیا ہے کہ 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ نے مرضی کی حکومت لانے کے لیے انتخابی نتائج کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا تھا۔ اگر ایسا ہؤا ہے اور تحریک انصاف یا مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے پاس اس کے ٹھوس شواہد اور ثبوت موجود ہیں تو وہ اس الزام کی بنیاد پر سیاسی انارکی پیدا کرنے کی بجائے، عدالتوں سے ریلیف لینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ ایسے ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اور اصل شکایت دھاندلی کی نہیں بلکہ حقیقی افسوس حصول اقتدار میں ناکامی پر ہے۔ جس ملک کے سارے سیاستدان ا ور سیاسی پارٹیاں محض اقتدار کی سیاست کرتے ہوں اور اپوزیشن پارٹی کے طور پر کردار ادا کرنے پر یقین نہ رکھتے ہوں، وہاں اصلاح احول کے لیے کیسے جمہوری طریقے کارآمد ہوسکتے ہیں؟
پریشان خیالی کے اس پس منظر میں اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی شکایت اور اس پر اٹھنے والے طوفان کو دیکھا جائے تو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ نہ تو عدلیہ کی آزادی اصل مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس بات سے پریشانی ہے کہ کچھ عدالتی فیصلے کہیں سے خفیہ اشارے موصول ہونے کے بعد کیے جاتے ہیں۔ اصل پریشانی یہ ہے کہ یہ ’اشارے‘ ہمارے حق میں کیوں نہیں کیے جاتے۔ اب ملک کے تین سو سے زائد وکیلوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ’ 6 بہادر ججوں‘ کی پریشانی حل کرنے کے لیے آئینی شق 184(3) کے تحت براہ راست نوٹس لے کر انصاف فراہم کیا جائے۔ اس صورت حال کو مضحکہ خیزی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے کہ شکایت کنندہ 6 جج ایک ایسے سابق جج کے الزامات کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ مضبوط کررہے ہیں جسے عہدے سے برطرف کروانے کے عمل میں کسی ایک جج کو بھی یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ کسی جج کو ایک تقریر کی بنیاد پر برطرف کرنے سے عدلیہ کی اتھارٹی کمپرومائز ہوجائے گی۔ اور اس مقدمہ میں آگے بڑھ کر ناانصافی اور عدلیہ کی خودمختاری کی دہائی دینے والے وہی عناصر ہیں جن کے دور حکومت میں ایک جج کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا لیکن نہ انصاف کے چہرے پر داغ لگا اور نہ کسی عدالت کی کوئی توہین ہوئی۔
ملک کے تین سو وکیل اب سپریم کورٹ سے ایک ایسے اختیار کوبروئے کار لانے کا مطالبہ کررہے ہیں جس کی آئینی حیثیت و ضرورت کے بارے میں خود ملک کے وکیل اور ان کی تنظیمیں سوال اٹھاتی رہی ہیں اور جسے بروئے کار لاتے ہوئے ماضی میں متعدد چیف جسٹس ناانصافی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی لاتعداد مثالیں قائم کرچکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اب ایک سادہ معاملہ میں اعلیٰ سطحی تحقیقات ’ناانصافی‘ لگتی ہیں اور انہیں ناقابل قبول قرار دیا جارہا ہے۔ 70 سال میں پہلی بار ایک چیف جسٹس کی سربراہی میں یکے بعد دیگرے ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں عام طور سے قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ کوئی عدالت ایسا حکم دینے کا حوصلہ نہیں کرسکتی کیوں کہ اس سے عسکری قیادت کا اختیار چیلنج ہوگا۔ ان میں پرویز مشرف کیس، ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس اور شوکت صدیقی کیس شامل ہیں۔ ان تینوں معاملات میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں انصاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں فوج نے انہیں خوش دلی سے قبول کیا ہے اور ان فیصلوں پر کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے باوجود ملک میں عدالت بھی خطرے میں ہے اور اسٹبلشمنٹ ’عوام کے حقوق‘ بھی غصب کررہی ہے۔
یہ قوم اور اس کے پرجوش نمائیندے اگر تھوڑی دیر کے لیے جذباتی کیفیت سے باہر نکل کر عقل کے ناخن لیں اور اس سچائی کو تسلیم کرسکیں کہ ملکی عدلیہ اور فوج نے جمہوری نظام مستحکم کرنے کے لیے درست راستے پر قدم اٹھانے شروع تو کیے ہیں۔ اب اگر 70 سال کا فاصلہ سات دنوں یا ہفتوں میں طے کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا تو اس سے شاید مسئلہ حل ہونے کی بجائے خرابیوں کا ایک نیا سفر شروع ہوجائے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ