پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ احتجاجی مظاہروں میں سرگرم رہنے والے دو سٹوڈنٹ رہنماؤں کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
جن دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ان میں ایک خاتون طالب علم بھی شامل ہیں، جنھیں عباس پور پولیس نے گرفتار بھی کر لیا ہے۔ دوسرے طالب علم رہنما کے خلاف بھی راولاکوٹ کے ایک تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تاہم ان کی گرفتاری اب تک عمل میں نہیں آئی۔
ان دونوں افراد نے انڈیا کے شہر کولکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے پر ایک نظم سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔ یہ نظم پاکستان میں بھی متعدد افراد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی ہے۔
خاتون سٹوڈنٹ رہنما کے بھائی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’فیس بُک پر پوسٹ کے بعد میری بہن اور ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں، لوگ ہمارے آبائی علاقے میں جمع ہو جاتے اور نعرے بازی کرتے۔‘
ان کے مطابق علاقے میں خوف کی فضا پیدا کی جا رہی تھی اور اس سبب ان کی بہن نے گرفتاری دے دی کیونکہ ’کم از کم پولیس کی حفاظت میں ان کی جان کو تو خطرہ نہیں ہو گا۔‘
فیس بک کمینٹ