رانی بات ہے کہ ہم لوگوں سے اور کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ دادی اماں اور نانی اماں رات کو سوتے وقت اپنے بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھی سچی بات تو یہ ہے کہ نہ تو ہماری دادی امی نے ہمیں کوئی کہانی سنائی اور نہ ہی نانی اماں نے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اس زمانے کے بزرگوں کے بے شمار بکھیڑے تھے ان بکھیڑوں میں بھلاکہانی کہاں یاد رہتی ہے پھر اس کے بعد کہا گیا کہ رات کو سوتے ہوئے مائیں بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں ۔بھئی یہ کلیہ بھی ہماری باری ختم ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تب گھر کے کام کاج کرنے کے لیے کوئی نوکر نہیں ہوتے تھے اور ماں ہی سب کام کر کے رات کو جب بستر پر اتی وہ خود ایک ایسی کہانی بن چکی ہوتی تھی کہ جس کو نہ کچھ سن سکتا تھا نہ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی دیکھ سکتا تھا۔
اب کہانی نے اگلا موڑ یوں لیا کہ ہم نے کہانیاں پڑھنی شروع کر دی ،والدین ہمیں اتنے پیسے کہاں دیتے تھے کہ ہم بچوں کے رسائل خریدتے البتہ ایک اخبار اتا تھا اور اس اخبار میں ہفتے بعد بچوں کے لیے ایک صفحہ موجود ہوا کرتا تھا ،اس صفحے نے ہمیں کہانیاں پڑھنے اور پھر کہانیاں لکھنے پر لگا دیا حالات کچھ بہتر ہوئے تو ہم نے بچوں کے رسائل خریدنے شروع کر دیے کیا شاندار زمانہ یاد اگیا اس وقت بچوں کے بہت ہی خوبصورت رسائل شائع ہوا کرتے تھے جن میں بچوں کی دنیا، بچوں کا ڈائجسٹ، جگنو ، پھول ،تعلیم و تربیت، ہونہار اور نو نہال شامل تھے اس زمانے کے رسائل نے ہمیں یوں فائدہ پہنچایا کہ ہم لکھنے کی طرف اگئے۔ اس کے علاوہ ہمارے گھر میں چچا حسین سحر بچوں کے لیے نظمیں لکھا کرتے تھے ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ اقبال رشد بھی کم و بیش حسین سحر صاحب کے نقش قدم پر تھے کہ وہ ریڈیو ملتان پر بچوں کے پروگرام ،نظمیں اور ڈرامے لکھا کرتے تھے بہت عرصے بعد جا کر ہمیں علم ہوا کہ ملتان میں ایک مہان شخصیت جس کا نام ڈاکٹر پروفیسر اسد اریب ہے ،انہوں نے بچوں کے ادب پر پی ایچ ڈی کر رکھی تھی لیکن وہ بچوں کے ادب سے دور تھے انہوں نے اپنے تخلیقی میلان میں تنقید،فکشن، تحقیق اور مذہب کے مختلف حوالوں کو شامل کر رکھا تھا لیکن ملتان میں جب بھی بچوں کے لیے کوئی تقریب ہوتی ہے تو اس میں یہ تینوں شخصیات نمایاں ہوتی ۔
پھر ایک زمانہ ایسا ایا کہ پاکستان کے سابق گورنر رحیم الدین خان کی بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے چلڈرن اکیڈمی کے نام سے تنظیم بنائی چونکہ رحیم الدین جنرل ضیا کے قریبی ساتھی تھے اور رحیم الدین کی بیٹی ضیا کے بیٹے اعجاز الحق کے ساتھ بیایی ہوئی تھی تو اس تعلق کی وجہ سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین کو پہلے کوئٹہ میں چلڈرن اکیڈمی کے لیے جگہ فراہم کی گئی پھر پورے پاکستان سے لوگوں کو اکٹھا کر کے چلڈرن اکیڈمی کی تقریبات کے لیے ھدایات جاری کی جاتی ۔ملتان کے ہر چھوٹے بڑے لکھنے والے کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کو اپنی شکل دکھا دیں تاکہ کوئٹہ اور اسلام اباد میں منعقدہ تقریبات کا دعوت نامہ مل سکے چلڈرن اکیڈمی کی تقریبات ملتان میں علی گڑھ ماڈل سکول اور مسلم سکول کے علاوہ بے شمار ایسی جگہوں پر منعقد کی جاتی کہ وہاں جانا اسان نہ ہوتا،وقت گزرتا رہا ضیا کے دور کے بعد جمہوریت اگئی اور آمریت کی بنائی ہوئی چلڈرن اکیڈمی اپنے انجام کو پہنچ گئی اس کے بعد ہم نے کبھی بیگم ثاقبہ رحیم الدین کو بچوں کی کسی پروگرام میں نہ دیکھا اور نہ ہی ان کا آج کل کہیں ان کا ذکر ملتا ہے، مطلب یہ ہے کہ آرٹیفیشل طریقے سے جو لوگ ادب میں مسلط کیے جاتے ہیں ان کی زندگی انتہائی مختصر ہوتی ہے۔
ذکر ہو رہا تھا بچوں کی کہانیوں کا تو ہم نے اپنے بچپن میں جہاں اخبارات کے بچوں کے صفحات میں کہانیاں پڑی وہاں بچوں کے رسائل نے ہمیں ادب کے طالب علم بنانے میں بڑا کردار ادا کیا اس کے علاوہ شہر میں ہونے والی ادبی تقریبات نے بھی ہمیں ادب کے ساتھ جوڑے رکھا ،لیکن بنیادی طور پر بچوں کے رسائل اور اخبارات نے ہمیں لکھنے میں مدد دی ۔ ایک زمانے میں ہم نے پاک گیٹ ملتان النگ پر واقع یوسف برادران سے بے شمار کتابیں خریدی جن میں ٹارزن، انگلو بانگلو ،عمران سیریز اور چھنگ چھنگلو پر لکھی ہوئی کتابیں شامل تھیں ان کتابوں نے ہمیں کتابی کیڑا بنا دیا اور پھر جب کبھی ہمارا لاہور جانا ہوتا تو مال روڈ پر واقع فیروز سنز پر ہم بہت شوق سے جاتے ہیں کہ ہمیں وہاں سے بچوں کی ادب کے حوالے سے اتنی کتابیں مل جاتی کہ ہمیں کئی مہینے کا کوٹہ مل جاتا ہے ہمارا یہ معمول کئی برس تک جاری رہا کہ ملتان اور لاہور کے مختلف جگہوں کے بکس سٹالوں پر ہم ایسی کتابیں تلاش کرتے ، جو بچوں کے لیے لکھی جاتی تھی ۔ اور ہم سے زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ بچوں کی ادب کو چھوڑ کر ہم نے بڑوں کی ادب میں لکھنا شروع کر دیا اور یہ غلطی ایسی ہے جس کی اب کوئی تلافی نہیں ہو سکتی ۔ باوجود یہ کہ میں نے بچوں کے لیے لکھنا بہت پہلے چھوڑ دیا تھا ۔لیکن لکھنے کے اغاز میں بچوں کے لیے جو کچھ لکھا اس پر ہمیں اج بھی فخر ہے ۔مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بچوں کے لیے اج بھی جب کہیں پر کوئی کتاب یا معیاری رسالہ شائع ہوتا ہے تو اسے میں لازمی اپنی لائبریری کا حصہ بناتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب کے حوالے سے میرا پہلا پیار اب بھی بچوں کا ادب ہی ہے۔
ملتان میں گزشتہ 20 برسوں میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے میں اگر ان کے نام لکھنے بیٹھ جاؤں تو یہ مضمون مزید طویل ہو جائے گی لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ جنوبی پنجاب میں بچوں کے لیے نوجوان لکھ رہے ہیں ان سب سے میرا ذاتی تعلق ہے تمام لکھنے والوں میں مجھے اپنا ماضی دکھائی دیتا ہے کہ ہم بھی کبھی ایسے بچوں کے لکھا کرتے تھے اور اب ان لکھنے والوں میں بہت سی ایسے نام ہیں جن کو نہ صرف صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے،بلکہ ملک کی سطح پر بھی ان کو مختلف اعزازات سے نوازا گیا ہے گزشتہ دنوں علی عمران ممتاز نے ملتان میں بچوں کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا وہ کانفرنس بچوں کے لیے لکھنے والے اہل قلم کا ایک ایسا کٹھ تھا جس میں پورے پاکستان سے نامور لکھنے والے شریک ہوئے حافظ مظفر محسن سے لے کر ندیم اختر ،ابن آس،احمد عدنان طارق سمیت درجنوں معروف نام ایسے تھے جن سے پہلی ملاقات ہوئی اور یوں لگا جیسے ان سب سے برسوں کا تعلق ہے اس کانفرنس کے پہلے فیصل اباد سے بچوں کے لیے لکھنے والے احمد عدنان طارق نے رابطہ کیا ،اور کہا اس کانفرنس کے بعد میں اپ لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں تو کیا ہم کہیں چائے کی میز پر بیٹھ سکتے ہیں میں نے احمد عدنان طارق کو کہا ،نیکی اور پوچھ پوچھ ۔وجہ یہ ہے کہ احمد عدنان طارق بچوں کے ادب کے حوالے سے اتنا بڑا نام ہے کہ اب تک ان کی سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں کے قریب کہانیاں شائع ہو چکی ہیں وہ کچھ عرصہ پہلے تک پنجاب پولیس میں اعلی عہدے پر فائز تھے لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے اپ کو لائبریری کے حوالے کر دیا ہے جہاں بیٹھ کر اب وہ صرف بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا کریں گے احمد عدنان طارق کی شخصیت اتنی شاندار ہے کہ ایک مرتبہ ان سے ہم مل لیں تو جی چاہتا ہے کہ بار بار ملاقات ہو اور وہ بچوں کے لیے لکھنے والے واحد ادیب ہیں جو مختلف زبانوں کے بچوں کے ادب کو اردو میں ترجمہ کرتے ہیں اور اس کو پھر خوبصورت انداز سے شائع کرواتے ہیں،کام اتنا معیاری اور سنجیدہ ہے دو مرتبہ وہ یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنا کام کسی ایوارڈ کے لیے نہیں کرتے بلکہ نئی نسل کے لیے کر رہے ہیں تاکہ وہ کتاب کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھیں حال ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے احمد عدنان طارق کی( کلاسکی ادب جس میں داستان امیر حمزہ شامل ہے )کہانیوں کا انتخاب شائع کیا ہے جو اپنی زبان و بیان کی اعتبار سے اتنا شاندار کہ اسے ہر بچے کو اپنے والدین کو تحفے میں دینا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ داستان امیر حمزہ کا سن کر بڑے سے بڑا ادمی بھی اس کتاب کو اٹھا کے رکھ دیتا ہے کہ ہم اسے کیسے پڑھیں لیکن احمد عدنان طارق نے اس مشکل کام کو آسان کر دیا کہ وہ ہر مشکل کام کو چیلنج سمجھ کر کرتے ہیں اور پھر کامیابی ان کا مقدر ہو جاتی ہے احمد عدنان طارق کا کہنا ہے کہ وہ لمحہ موجود میں بچوں کے لیے سب سے زیادہ لکھنے والے ادیب ہیں کہ ان کی لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں اور ہزاروں کتابوں میں جب وہ غیر ملکی ادب میں بچوں کے لیے تخلیق کی گئی کتابوں کو پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ان کا اردو میں ترجمہ میں ہی کروں گا اور اب سننے میں یہ ایا ہے کہ فیصل اباد ارٹس کونسل والوں نے ان سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بچوں کو کہانی سنایا کریں وہ کہانی جس کی روایت اب ختم ہو گئی ہے، وہ کہانی جہاں ہمیں پریوں کے قصے ملتے تھے، جہاں پر شہزادہ شہزادی کی تلاش میں کئی برس تک صحراؤں میں بھٹکتا رہتا تھا اور وہ کہانی جو کبھی ہمارے گھروں میں دادی اماں سنایا کرتی تھی جب وہ کہانی پاکستان کے بچوں کو سنائے گا تو وہ تمام کہانیاں نیا جنم لیں گی احمد عدنان طارق اب کہانی گھر میں لے کر بیٹھتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ آ جاؤ میں کہانی سنانے لگا ہوں کہ وہ جو کہتے تھے کہ اس ملک میں کہانی سنانے اور سننے والے ختم ہو گئے ہیں میں کہانی سناؤں گا ۔اس لائل پور میں جو اب فیصل اباد ہے اور جہاں پر بچے کہانیوں کی تلاش میں اس مل فیکٹری میں کام کر رہے ہیں جہاں پر کہانی کا نام روٹی ہے ۔
فیس بک کمینٹ