تصور کیجیے کہ آپ ایک سرنگ میں ہیں اور آپ کو وقفے وقفے سے آکسیجن مل رہی ہے۔ جس وقفے میں آکسیجن نہیں ملتی، آپ کی طبیعت بگڑنے لگتی ہے۔ آکسیجن کی بحالی آپ کو پھر سے تازہ دم کرتی ہے۔ لیکن پھر آکسیجن نہ ملنے کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے، آپ کی سانس تنگ ہونے لگتی ہے، ذہن پہ غنودگی چھا رہی ہے۔ آپ سرنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جلد از جلد لیکن سرنگ کا راستہ کچھ ایسا پیچدار ہے کہ چاہنے کے باوجود فوراً نکلنا ممکن نہیں۔ آکسیجن کی سپلائی کم سے کم ہوتی جاتی ہے، دماغ کی غنودگی بڑھتی جاتی ہے لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا۔
آپ کو دور سے ایک آواز آتی ہے، اس راستے سے نکلنا مشکل لگ رہا ہے۔ کیا ہم دوسرے راستے سے نکالیں اس مسافر کو؟
آپ کہنے کی کوشش کرتے ہیں، پلیز جلدی کرو، میرا سانس گھٹ رہا ہے، میرے جسم سے قطرہ قطرہ جان نکل رہی ہے۔
لیکن دور سے کئی اور آوازیں آتی ہیں۔
کیوں؟
ابھی تک تو سب ٹھیک تھا؟
یہ کیا بات ہوئی؟
سب لوگ آخر نکل ہی آتے ہیں اس سرنگ سے؟ پھر یہ کیوں نہیں؟
نہیں، ہمیں دوسرا راستہ قبول نہیں، یہیں سے نکالیے۔
آپ یہ سب سن کر کراہتے ہیں، پلیز، میں مشکل میں ہوں، ہمت نہیں ہے مجھ میں۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا ہے۔ خدارا دوسرے راستے سے مجھے باہر نکال لو، ورنہ میں مر جاؤں گا۔ آپ کی فریاد پہ کوئی کان نہیں دھرتا۔ باہر موجود سب لوگوں کی منشا یہ ہے کہ آپ اسی سرنگ سے باہر نکلیں۔
آخر کار آپ کو کرین کی مدد سے کھینچنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک اوزار آپ کے سر پہ لگا دیا جاتا ہے جو آپ کے سر کی جلد کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ اس اوزار کے ساتھ ایک رسی بندھی ہوتی ہے۔ اس رسی کو سرنگ کے باہر کھڑے ہوئے لوگ پکڑ کر کھینچتے ہوئے آپ کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر بار آپ تھوڑا سا اپنی جگہ سے سرکتے ہیں۔ آکسیجن کی سپلائی مزید کم ہو چکی ہے، آپ ہاتھ پاؤں چھوڑ چکے ہیں، جسم ڈھیلا پڑ چکا ہے، آپ زندگی اور موت کی سرحد پہ کھڑے ہیں۔
اوزار سے کھینچتے کھینچتے بالآخر آپ سرنگ سے باہر نکل آتے ہیں لیکن آپ نیم بے ہوشی میں ہیں۔ جسم کی رنگت نیلی پڑ چکی ہے۔ آپ نہ تو آنکھیں کھولتے ہیں اور نہ ہی کچھ بولتے ہیں۔ آپ کو فرسٹ ایڈ دی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کی سانس بحال ہونا شروع ہوتی ہے لیکن جسم ابھی تک نڈھال ہے۔ اردگرد والے خوشی سے بے حال ہیں کہ آپ سرنگ سے باہر نکل آئے ہیں اور متبادل راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ لیکن آپ کی بھوک پیاس ختم ہو چکی ہے، باتیں کرنا، ہنسنا کھلکھلانا آپ کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔
دن گزرتے ہیں اور آپ بہتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی آپ وہ نہیں جو سفر سے پہلے تھے۔ سفر میں آکسیجن کی کمی اور سفر کی طوالت نے آپ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کا دماغ اب ویسے کام نہیں کرتا جیسے کرنا چاہیے تھا اور دماغ کے سست پڑ جانے کا اثر جسم پہ بھی نظر آتا ہے۔
آپ کو ڈاکٹرز کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ کسی کی تشخیص آٹزم ہے تو کوئی مرگی تجویز کرتا ہے۔ کوئی آپ کو کم آئی کیو کے خانے میں ڈالتا ہے تو کسی کے نزدیک آپ کو سی پی cerebral palsy ہے۔ جو بھی ہو لیکن کسی بھی تشخیص کا علاج اب آپ کو اس حالت میں واپس نہیں لے جا سکتا جس میں آپ سرنگ کے سفر سے پہلے تھے۔ اب آپ کی زندگی نارمل لوگوں سے مختلف طریقے سے گزرے گی، جدوجہد میں، علاج میں، بہت سی مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں۔
آپ سوچتے ہیں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اگر سرنگ میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی تو مجھے متبادل راستہ کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ سرنگ سے نکلنا ہی کیوں ضروری تھا؟ کیا سرنگ سے نکلنے میں مجھے کوئی میڈل ملا یا نکالنے والوں کو؟ میری زندگی ادھوری کیوں بنا دی گئی؟
سوچئے ایک ہی ماں باپ کے گھر پیدا ہونے والے بچے زندگی کی دوڑ میں ایک جیسا پرفارم کیوں نہیں کرتے؟ خاص طور پہ جب سب کو برابر سہولیات میسر ہوں اور ایک جیسا ماحول۔ کچھ لوگ اس کا جواب جنیاتی عناصر میں ڈھونڈیں گے مگر ایک بہت بڑا عنصر حمل اور زچگی میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔
ماں کا پیٹ وہ غار ہے جہاں ماں کی سوچ، خواہش، خوشی، غم، درد، اضطراب، بے چینی اور بے بسی اس مسافر تک لمحہ بہ لمحہ پہنچتی ہے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ماں کیا کھاتی ہے؟ کیا سنتی ہے؟ کیا محسوس کرتی ہے؟ روتی ہے یا ہنستی ہے؟ اس پہ کیا گزرتی ہے؟ یہ سب اس پہ بھی گزرتی ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور ایک ایک بات سنتے ہوئے وہ محسوس کرتا ہے۔ ماں کا ہمدم و رفیق۔
پھر اس غار سے نکلنے کا وقت آتا ہے اور سرنگ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ سفر ہموار ہو تو ستے خیراں لیکن ناہمواری کی صورت میں بچہ بہت سی ایسی چیزیں کھو دیتا ہے جنہوں نے زندگی میں اس کا پوٹینشل بننا تھا۔
اگر نطفہ بننے سے لے کر زچگی تک سب کچھ بہترین ہوتا تو نہ جانے کون آئن سٹائن بنتا اور کون شیکسپئیر؟ کون غالب ہوتا اور کون ٹیگور؟ کون نوبل پرائز لیتا اور کون ایجادات میں حصہ لیتا؟
سوچئیے!
زچگی کی انجریز injuries اگلی بار!
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ