سوچتا ہوں محمد علی جناح کو آج اُن کے یومِ وفات پر کس انداز میں خراجِ تحسین پیش کروں یا شرمندہ ہوں کہ ماسوائے اِسکے کہ اُن کا جو بیانیہ تھا وہ ہم نے اُن کی وفات کے ایک سال بعد ہی ’دفن‘ کر دیا۔
اُن کے پاکستان کی ابتدا ہی جمہوری فورم سے ہوئی تھی1940ء کی قراردادِ پاکستان سے لے کر 11؍ اگست 1947ء میں ایک دستور ساز اسمبلی سے خطاب تک جس میں انہوں نے مملکت کے خد و خال بیان کئے تھے۔ پہلے اُن کی تقریر کو ’سنسر‘ کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر ’ماشاءاللہ‘ اُس کا ’ریکارڈ‘ ہی غائب کردیا گیا۔ تصور کریں جو قوم اپنے محسن کی تقاریر کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ریاست کی کیسے حفاظت کر سکتی ہے لہٰذا اگر اِس اہم ترین اور پالیسی ساز تقریر کا ریکارڈ غائب ہوسکتا ہے تو اِس ملک کے شہری کیوں نہیں لاپتہ ہو سکتے۔
آج کا پاکستان ’جناح کے تصور پاکستان‘ سے یکسر مختلف ہے۔ وہ روشن خیال ملک بنانا چاہتے تھے ہم نے روشنیوں کو ہی گُل کردیا۔ وہ ویلفیئر اسٹیٹ چاہتے تھے ہم نے سیکورٹی اسٹیٹ بنادیا۔ میں نے جس پاکستان میں آنکھ کھولی، اپنا بچپن گُزارا وہ ’جناح کا نہیں ایوب کا پاکستان تھا‘ لہٰذا جناح کی وفات کے فوراً بعد جو ملک دیکھنے کو ملا وہ پہلے 25 سال میں ہی دو مار شل لا دیکھ چُکا تھا اور تقسیم ہو گیا تھا۔ آخر اُس تقریر میں ایسا کیا تھا کہ وہ ہماری ریاستی اشرافیہ کیلئے قابلِ قبول نہیں رہی شاید اسی لیے اُسے نہ کسی آئین کا حصّہ بنایا گیا نہ دستور کا۔ حد تو یہ ہے کہ چند سال پہلے ہی ایک چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی عمارت پر اُس تقریر کا متن آویزاں کیا تھا بعد میں آنے والے ایک اور چیف جسٹس نے اُسے ’دیوار‘ میں چنوا دیا ’انار کلی‘ کی طرح۔
آج ہمارے جو تضادات سامنے آرہے ہیں چاہے وہ مذہبی عقائد کے حوالے سے ہوں یا لسانی حوالے سے، انہی سے تو بچنے کا حل دیا تھا 11؍اگست کی تقریر میں۔ جناح نے کہاکہ آگے بڑھنے کا راستہ یہی ہے کہ ملک سے ’بدعنوانی‘ رشوت‘ اقربا پروری کا خاتمہ کرنا ہو گا ہم نے یہ تمام صلاحیتیں رکھنے والوں کو حکمران بنا دیا۔ جناح جمہوریت پر کامل یقین رکھتے تھے ہم نے آمریت کو ’آرڈر آف دی ڈے‘ قرار دیا۔ اسی لئے ہمیں جو جمہوریت کی شکل آج نظر آ رہی ہے اُس نے آمروں کے بطن سے جنم لیا ہے اسی لئے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی سوچ اور رویوں میں جمہوریت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ہم اُس پاکستان سے بہت پہلے ہی بہت دور چلے گئے ہیں ورنہ پارلیمنٹ ایسا بل کبھی نہ لاتی جو آمرانہ سوچ کی عکاسی کر رہا ہو۔ ہمارے حکمران تو سیکشن 144 سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں ’اسلام آباد‘ والا بل کن کن صوبوں میں آگے جاکر لاگو ہوتا ہے۔ آج اپوزیشن والوں کو تین سے 10 سال تک کی سزا ہوسکتی ہے تو کل یہی حکومت والے اپوزیشن میں ہونگے۔ پھر کیا ہوگا کیونکہ ہماری تو سیاسی سوچ ہی یہی رہی ہے کہ ’کالے قانون‘ کو ختم کرنے کے بجائے ہم حکومت آنے کے بعد اُسے ہی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
مجھے نہیں پتا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ ’فوجی عدالت‘ میں چلتا ہے، جنرل فیض حمید کا مستقبل کیا ہے مگر پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر ایوب خان کا کورٹ مارشل ہو جاتا تو بات فیض حمید تک نہ آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کے جس ادارے کے سربراہ جنرل حمید گل سے لے کر فیض حمید تک رہے ہوں اُس ’ادارے‘ کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے تاکہ کوئی اور فیض حمید نہ آ سکے۔
جناح نے اپنی اُس پالیسی ساز تقریر میں جو 12؍اگست، 1947ء کے اخبارات میں چھپی تھی ایک تاریخی بات بھی کی۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے علم ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں تقسیم ہند، پنجاب اوربنگال کی تقسیم اوربٹوارےکے ساتھ اتفاق نہیں تھا مگر اب یہ قطعی ہے۔ میری رائے میں اِس کا حل یہی تھا۔ ہو سکتا ہے یہ رائے درست ہو اور یہ بھی کہ یہ درست نہ ہو لیکن اِس کا فیصلہ وقت کرے گا‘‘۔ اُن کی اِس تقریر میں ایک جمہوری رویہ نظر آتا ہے وہ رائے کو مسلط نہیں کر رہے۔ ذرا غور کریں تقریر کے اِس حصّے پر، ’’اگر ہمیں پاکستان کو خوش و خرم دیکھنا ہے تو ہمیں اپنی پوری توجہ عوام الناس اور غریب لوگوں کی فلاح و بہبود پر دینا ہوگی پھر وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آئے گی۔‘‘ پھر وہ تاریخی بات کرتے ہیں۔’’اب آپ آزاد ہیں۔ اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں اپنے مندر جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدہ سے تعلق ہو کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، (ڈیلی گزٹ، کراچی)
ہم بھی کیا بدقسمت قوم ہیں کہ جس کی آبادی 65فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہو وہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے کی عمر میں بھی اسکول نہ جاسکیں ۔
اگر ہم صرف ایک ہی پالیسی پر عمل کرلیتے ’تعلیم اور معیاری تعلیم سب کے لیے‘ تو آج کا پاکستان جناح کا پاکستان بن جاتا مگر ہم نے تو تعلیم کو بھی تجارت بنا ڈالا۔ مہذب معاشروں میں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر برسوں پہلے ریاست اِس سے دستبردار ہوگئی۔ آج ہم بناسمت آگے بڑھ رہے ہیں دیکھتے ہیں آگے کونسی منزل یاسمت ہمارے نصیب میں آئے گی۔
آج 11ستمبر ہے جس نے 2001ء میں ’دُنیا‘ کو ہی بدل ڈالا۔ اسے اب 11/9کہا جاتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر، امریکہ میں ہونے والےاِس واقعے کے بعد دُنیا میں ایک نہ رکنے والی دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں اِس کی شدّت زیادہ محسوس کی گئی کیونکہ ہمیں طالبان اور القاعدہ کےسہولت کار کے طور پر دیکھا گیا۔ اب کیا کریں کہ اِن سب کے سرکردہ لوگ ملے بھی ہماری ہی سرزمین سے چاہے وہ اسامہ بن لادن ہو یا خالد شیخ۔ ’امریکی امداد‘نے ہمیں پہلی افغان جنگ کا حصہ بنا ڈالا جس نے ہمارے پورے معاشرہ کو ہی تباہ کردیا۔ پھر ہم دوسری افغان جنگ کا بھی حصہ بنے۔ پچھلے چالیس سال سے ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑر ہے ہیں ابتک ہم اِس سے نمٹ نہیں پائے ہیں۔ یہ ’کینسر‘ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کی مختلف شکلیں نظر آ رہی ہیں۔’ کراچی سے خیبر تک‘ اور ’بلوچستان سے خود پنجاب تک‘۔
جناح کا پاکستان بنانا ہے تو ملک کو ویلفیئر اسٹیٹ بنانا ہو گا۔ قانون بھی سب کیلئے ہونا چاہئےاور احتساب بھی۔ 16؍ دسمبر 1971ء ہمارے لئے ایک سبق تھا کہ 1954ء اور 1970کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کے نتائج کتنے بھیانک نکل سکتے ہیں مگر ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی وقت ہے علم و تعلیم کا راستہ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اِ س 65 فیصد نوجوانوں کی آواز اور بےچینی کو سمجھیں۔ جناح نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا۔ ’’آگے بڑھنا ہے تو میرٹ کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ بدعنوانی، کرپشن (کمیشن) اور اقربا پروری کو ختم کرنا ہو گا۔‘‘ ہم نے اِس میں ملوث لوگوں کو نہ صرف تخت پر بٹھایا بلکہ اب تو ’اعلیٰ سول‘ ایوارڈ سے بھی نواز دیا۔
ایسے چلے گا پاکستان تو کیسے چلےگا پاکستان۔
(بشکریہ:جیونیوز)
فیس بک کمینٹ