سپریم کورٹ میں ساری عمر کلرک کی نوکری کرتے عمر اور سینیارٹی کا زینہ طے کرتے کوئی ڈپٹی رجسٹرار بن جائے تو کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے اسکو بتائے بغیر اور نوٹس بورڈ پر کاز لسٹ کے بغیر وضاحتی حکم نامہ کیسے جاری کر دیا۔ ایسے جاہلوں کی وجہ سے ہی چیف جسٹس صاحبان نے رجسٹرار کی پوسٹ پر ہمیشہ سول سروس افسران تعینات کرنے کا رواج بنایا۔ چیف جسٹس کی شہہ یا دباؤ کے بغیر ایسے ملازمت پیشہ لوگ ایسی چٹھیاں نہیں لکھ سکتے۔ ایک مجبور اور کمزور ملازم سے اگر کوئی بھی ایسی شعبدہ بازی کروائے تو اُسے کم ظرف دشمن کہتے ہیں۔
کسی شعبدہ باز کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ سپریم کورٹ کے وضاحتی حکم نامے کے یوں اچانک جاری ہونے سے اُسکی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ آئینی ترمیم پر کی گئی "دو سال کی محنت” ضائع ہوتی نظر آ رہی ہے- اسی لئیے آٹھ ججوں کو پہلے اپنے قاصدوں پھر اِس نالائق ڈپٹی رجسٹرار سے منظوری کروا کر فائل چیف جسٹس کے سامنے رکھوانی تھی اور اُس پر چیف جسٹس نے اِس ایک دو دن دبا کر رکھنا تھا تاکہ حکومت مولانا اور دیگر اتحادیوں کو اپنی دو تہائی اکثریت کا یقین دلا سکتی۔ مگر ۱۳ ججوں کی فل کورٹ کے آٹھ اکثریتی ججوں نے بروقت قاضئِ وقت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اب اگر ڈپٹی رجسٹرار نما اس کلرک کی قانونی منطق کا بھی جائزہ لیں تو یہ واضح ہے کہ جب سپریم کورٹ کسی فریق یا ادارے کو اپنے چیمبر کے اندر اپنے کسی فیصلے کی وضاحت مانگنے کا تحریری حکم دیتی ہے تو پھر اُسی حکم کے تسلسل اور نتیجے میں جاری وضاحت کے لئیے عدالت کا دوبارہ بیٹھنا ضروری نہیں ہوتا۔
اور جاری شدہ وضاحت پہلے سے جاری شدہُ مختصر حکم کا تسلسل ہوتا ہے جسکے لئیے عدالت لگانا ضروری نہیں۔ ویسے بھی جس سپریم کورٹ کا چیف جسٹس دو بار پریس ریلیز وں سے اپنے فیصلوں کی وضاحت کر چکا ہوُاور اُسی کیس میں تیسری بار ایک فریق کو چیمبر میں بلا کر اُس سے پوچھ کر فیصلہ لکھ کر عدالت میں سنا چکا ہو اُس عدالت کے نالائق ڈپٹی رجسٹرار کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتی۔ اور پھر ایسا نوٹ لکھ کر اُسے میڈیا کو لیک کرنے کا ہنر تو ہمارے ایک ہی جج کو آتا ہے۔
فیس بک کمینٹ