متعدد بار اس کالم میں آندرے میر نامی محقق کا ذکر ہوا ہے۔ وہ روس کا صحافی تھا۔ اپنے ملک میں آزادیِ صحافت سے محروم محسوس کیا تو کینیڈا منتقل ہوگیا۔ یہاں کچھ برس گزاردینے کے بعد دریافت کیا کہ ’صحافت‘ نام کی شے کینیڈا جیسے ملک میں بھی موجود نہیں رہی۔ صحافت چھوڑ کر تحقیق کو راغب ہوا اور ٹھوس اعدادوشمار جمع کرنے کے بعد ان کے تجزیے میں مصروف ہوگیا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکالا کہ ہم ’مابعدازصحافت‘ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ اسی محقق نے یہ اعلان بھی کررکھا ہے کہ 2024ء ’اخبار کی موت‘ کا سال ہوگا۔یہاں تک پڑھ لینے کے بعد آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا چاہے کہ اگر رواں برس اخبار کی موت لکھ دی گئی ہے تو میں اس کے آٹھویں مہینے کے آخری ہفتے میں یہ کالم کیوںلکھ رہا ہوں۔ مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ ’اخبار کی موت‘ ایک مخصوص تناظر میں ہے ۔ بتدریج ہمارے گھروں میں کاغذ پر چھپے اخبار آنا شاید بند ہوسکتے ہیں۔ ان میں خبریں اور کالم وغیرہ لکھنے کا مگر جوانداز ہے وہ زندہ رہے گا۔اس انداز کو Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔ کاش میں اس کا اردو متبادل ڈھونڈ سکتا۔ آسان ترین لفظوں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انسانی فطرت ’خبر‘ کی متلاشی رہتی ہے۔ اسے ڈھونڈ کر بیان کرنے کا ہنر اپنی جگہ سلامت رہے گا۔ خبر کے اظہار کے ذرائع اگرچہ بدلتے رہیں گے۔ نئی نسل مثال کے طورپر کتاب اب اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ پر پڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگاکر پڑھنے کے بجائے سنتے ہیں۔ ’خبر‘ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اب اخبار ہی نہیں ریڈیو اور ٹیلی وژن کی بدولت بھی میسر ہوتی ہے۔آندرے میر کی کلیدی دریافت مگر یہ تھی کہ انٹرنیٹ کی بدولت سوشل میڈیا کے نت نئے پلیٹ فارم خاص طورپر ٹوئٹر وغیرہ انسانوں کو زمانہ جاہلیت والے تعصبات کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ’دوسروں‘ کو سمجھنے کی بجائے آپ ان کے بارے میں منفی باتوں کا پتا لگانا چاہتے ہیں۔ یہ رحجان ویسا ہی ہے جس نے ہمیں ’غیبت‘ کا عادی بنایا تھا۔ امریکا اور یورپ کے بے تحاشا ممالک کساد بازاری کی زد میں آئے۔ مزید ترقی کے امکانات سے محروم محسوس کیا تو اپنے ہاں مقیم تارکین وطن کو معاشی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے نسل پرستوں نے بے روزگار سفید فام افراد کے دلوں میں ابلتے غصے کو سیاسی انداز میں بیان کرنا شروع کردیا اور نفرت انگیز پیغامات سے اپنی سیاست چمکانے لگے۔ صحافیوں نے بھی ’معروضی حقائق‘ کی تلاش چھوڑ کر ایسی ’خبریں‘ ایجاد کرنا شروع کردیں جو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم گروہوں میں سے کسی ایک کے دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات کو اثبات فراہم کرتی ہیں۔صحافت کی موت کو فلسفیانہ حوالوں سے بیان کرتے ہوئے آپ کو جمائی لے کر یہ کالم ادھورا چھوڑنے کو مجبور نہیں کروں گا۔ اصل موضوع کی طرف بڑھتا ہوں جس نے مجھے دو دن سے پریشان کررکھا ہے۔ اس کو زیر غور لانے سے قبل مگر یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کا ایک طاقتور گروہ رواں برس کے آغاز سے یہ دعویٰ کیے چلے جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی کی راہ روکی۔ اس جماعت سے اس کا انتخابی نشان-بلا- چھین لیا۔ انتخابی نشان سے محروم ہوجانے کے باوجود تحریک انصاف8فروری کاانتخاب ’جیت‘ چکی تھی۔ اس کے نتائج زور زبردستی’بدل‘ کر موجودہ بندوبست حکومت تشکیل دیا گیا۔ یہ بندوبست مگر انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ چیف جسٹس ہی اسے آئینی اور قانونی سہارا فراہم کرتے ہوئے کھڑا رکھے ہوئے ہیں۔مزید بڑھنے سے قبل یہ وضاحت لازمی ہے کہ ذاتی طورپر میرا مذکورہ بالا سوچ سے اتفاق ضروری نہیں۔ فقط ایک سوچ کو ہوبہو بیان کیا ہے جو ذہن سازوں کے ایک مؤثر ترین حلقے میں پائی جارہی ہے۔اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس کو بچپن میں سنی ان کہانیوں میں بیان کردہ وہ ’طوطا‘ بناکر دکھایا جارہا ہے جس میں ایک طاقتور ترین ’جن‘ کی ’جان‘ ہوتی ہے۔ طوطے سے نجات پالو تو جن بے اثر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اگر موجودہ چیف جسٹس توقع کے مطابق رواں برس کے اکتوبرکے درمیان اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تو 8فروری کے انتخابات کی بنیاد پر اٹھایا حکومتی ڈھانچہ دھڑم سے گرجائے گا۔ موجودہ بندوبست حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لہٰذا ضروری ہے کہ چیف جسٹس صاحب ریٹائرہوں۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ کیسے روکی جائے۔ 1985ء سے 2022ء تک ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ہر اجلاس کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے انگریزی میں پریس گیلری والا کالم لکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد تھک گیا۔ 37برس کی پارلیمانی رپورٹنگ نے سکھایا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے معیاد عہدہ میں توسیع کے لیے آئین میں ترمیم درکار ہے۔ ممکنہ ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی اجتماعی تعداد میں سے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ جو نمبر درکار ہیں وہ حکومت کو فی الحال میسر نہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ تین دنوں سے مسلسل دہائی مچائی جارہی ہے کہ اگست کا آخری ہفتہ شروع ہوتے ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جو اجلاس ’اچانک‘ بلالیے گئے ہیں ان کا مقصد آئین میں ترمیم کے ذریعے ’عدالتی اصلاحات‘ کے نام پر متعدد نئے قوانین متعارف کروانا ہیں۔میں اس خیال کو رد کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ حکومت وقت مبینہ طورپر اپنی بقا کے لیے موجودہ چیف جسٹس کی معیاد عہدہ میں توسیع چاہ رہی ہوگی۔ اپنی خواہش کو عملی صورت دینے کے لیے اس کے پاس وہ نمبر ہی مگر موجود نہیں جو آئین میں ترمیم کے لیے درکار ہیں۔ یاد رہے کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے نہیں ہوتی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ انھیں الگ الگ منظور کرتے ہیں۔ 28اگست کو قومی اسمبلی اورسینیٹ کا جو مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے اس کے ذریعے کچھ اور کام لینا مقصود ہوسکتا ہے۔عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں بہت دکھ سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ میرے نوجوان ساتھی اپنے ذہن میں پہلے سے موجودہ سوچ کو سچا ثابت کرنے کی کاوشوں میں مبتلا ہیں۔ میں دیانتداری سے یہ سوچ رہا تھا کہ ان میں سے چند اس حقیقت کا فی الفور ادراک کرلیں گے کہ حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت میسر نہیں۔ عدلیہ کو مبینہ طورپر وہ واقعتا چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ’قابو‘ میں رکھنا چاہ رہی ہے تو اس کے لیے ’کچھ اور نوعیت‘ کے قوانین بھی متعارف کروائے جاسکتے ہیں۔ آئین،قانون اور عدلیہ کے معاملات پر کامل توجہ دینے والے ساتھیوں سے مجھے توقع تھی کہ وہ پوری لگن سے ’اندر کی خبر‘ کا کھوج لگاتے ہوئے مجھے اور آپ جیسے بے خبروںکویہ سمجھائیں گے کہ حکومت کون سی ’جگاڑ‘ کے ذریعے ’مابعدفائزعیسیٰ‘ عدالتی ماحول میں اپنی بقا کو یقینی بنانا چاہ رہی ہے۔ آئین میں ترمیم ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا فی الحال اس حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ذہنی اعتبار سے وہ میری دانست میں موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے لیے بھی تیار ہوچکی ہے۔ تیاری نئے عدالتی بندوبست کے دوران اپنی بقا یقینی بنانے کے لیے ہورہی ہے۔ اس کے لیے کون سے پتے کھیلے جائیں گے رپورٹر کی ذمہ داری ہے کہ ان کا پتا چلائے۔ کاش ’آتش‘ٹمٹما بھی رہا ہوتا تو میں متوقع ’جگاڑ‘ کی تلاش میں جت جاتا۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ