احتساب،انقلاب،کرپشن کا خاتمہ اور سسٹم میں بنیادی تبدیلیوں کا نعرہ لے کر آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو نہ صرف ناکامی بلکہ مزید مشکلات کا سامنا ہے،معاشی اور سیاسی دونوں محاذ کنٹرول میں نظر نہیں آرہے،حالانکہ ملکی تاریخ کی شاید یہ پہلی حکومت ہوگی جس کو اتنی ”کمزور“بلکہ نااہل اپوزیشن ملی ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومتیں برے طریقے سے ناکام نظر آرہی ہیں اور اس وقت حالت یہ ہورہی ہے کہ گڈ گورننس تو کیا کہیں گورننس نام کی چیزدیکھنے کو نہیں مل رہی،لاک ڈاؤن کا بہانہ بناکر گو سرکاری دفاتر بند ہیں لیکن بیک ڈور سے تمام ایسے امور نمٹائے جارہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں سرکاری اہلکار کسی ”فریادی“کی آواز بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اور ہروہ کام ہورہا ہے جس کیلئے عام آدمی کو انکار ہے۔یہی وجہ ہوگی کہ ہر روز نئے ایشو سامنے آرہے ہیں مگر ان کے حل کیلئے ان کے پاس صلاحیت نہیں ہے،سرکاری اہلکاروں کا یہ عالم ہے کہ وہ جہاں چاہتے ہیں اپنی تعیناتی کروا لیتے ہیں جو ایسا نہیں کرسکتے وہ رولنگ سٹون ہیں۔
وفاق او ر صوبوں سمیت وزراء کے نہ بیانات آپس میں ملتے ہیں اور نہ ہی خیالات میں ہم آہنگی ہے،عید الفطر کے چاندکو خوامخوا ایک ایشو بنا کر نہ صرف قوم کو تقسیم کردیا بلکہ ان کا حکومت پر اعتماد بھی متزلزل ہوا۔اب حالت یہ ہے کہ عوام تو پہلے ہی تنگ تھے اب تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی اپنی ہی جماعت کی حکومت کے خلاف آواز اٹھا شروع کردی ہے۔ایسی صورت میں عوام نے ایک مرتبہ پھر ان سیاسی جماعتوں کی طرف رجحان کرلیا ہے جن پر کرپشن کے میگا الزامات ہیں،یقینا ان میں سے کوئی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ یورپ اور پاکستان کے اندر انتہائی مراعات یافتہ زندگی گزار رہے یعنی آسان لفظوں میں ان کا بال بھی نہیں اکھڑا۔حالانکہ حکمران جماعت کے منشور کے مطابق ان دو سالوں میں میگا کرپشن کے ”سپر ہیروز“کو اگرسزا نہیں تو جیل کی کال کوٹھڑی میں تو ضرور ہونا چاہیے تھا،ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہاں البتہ مہنگائی،بے روزگاری،غربت اور معاشی بحران کی تبدیلی ضرور آئی ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور جس کے بارے میں عالمی بینک سمیت بین الاقوامی مانیٹری اور تحقیقاتی ادارے آواز لگا رہے جنوبی ایشیا ء کے تمام ممالک خصوصا پاکستان میں خوفناک معاشی بحران کی پیش گوئی کررہے ہیں۔باقی ممالک کو چھوڑیں لیکن پاکستان معاشی نمو منفی ایک اعشاریہ آٹھ تک جاسکتی ہے۔ویسے جنوبی ایشیا ء میں خیر سے پاکستان ہی ایسا ملک ہوگا جو منفی میں جائے گا،اس کے بارے میں جو نشاندہی کی گئی ہے اس میں بغیر ہوم ورک اور پلاننگ کے لاک ڈاؤن کرنا تھا حالانکہ یہ ضروری تھا مگر دنیا کے باقی ممالک کی طرح یہاں بروقت اور موثر اقدامات کا فقدان تھا یہی وجہ ہے کہ اس وقت روزمرہ کی اشیاء خصوصا زراعت سے متعلقہ اجناس اور پولٹری کی صنعت میں بحران آرہا ہے جو آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے باوجود اس کے کہ شادی بیاہ سمیت ریستوران صرف ہوم ڈیلیوری کیلئے کھلے ہیں اور عوام نے بھی گھرو ں میں کھانا معمول بنا لیا ہے لیکن حکومت اس اہم ترین مسئلہ پر سنجیدہ نہیں ہوپارہی جس کا اثر آنے والے دنوں میں انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب معاشی مسائل کے خاتمے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے لاک ڈاؤن کے حکومتی فیصلے کے رزلٹ کورونا کے پھیلاؤ کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ملک میں اس وقت 50ہزار سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور اسی طرح اموات کی شرح میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کسی طور بھی طویل ترین لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک میں کورونا سے کم بھوک سے زیادہ افراد مرجاتے مگر اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس کورونا سے پیچھا چھڑانے کا لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہے کیونکہ تاحال اس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستانی اس موذی وباء سے چھٹکارہ پانے کیلئے احتیاط کررہے ہیں جس کے باعث یہ مرض شدت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اگر حکومت کرونا کے پھیلاؤ کو کم کرنے کیلئے دوبارہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتی ہے تواس کے مضر اثرات ملکی معیشت پر پڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کا جینا بھی دو بھر کر دیں گے،اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ دوبارہ لاک ڈاؤن کرنے کی بجائے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ کورونا کے ساتھ ہی زندگی کے سفر کو جاری رکھا جاسکے۔
اسی طرح کورونا کے ساتھ ہی ٹڈی دل کے حملوں میں بھی شدت دیکھنے میں آرہی ہے،کروڑوں کی تعداد میں ٹڈی دل فصلوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ باغات کا بھی صفایا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،جس سے جہاں کپاس و سبزیوں کی فصل کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے وہاں پھلو ں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے کیونکہ ملک بھر میں خطہ جنوبی پنجاب کو آم کی پیداوار کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ٹڈیوں کے حملے سے جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژ نز ملتان،بہاولپور اور ڈی جی خان اس کی لپیٹ میں ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں ٹڈیاں کاشکاروں کی سالانہ محنت کو تباہ و برباد کرنے میں لگی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود محکمہ زراعت سمیت دیگر حکومتی اہلکاروں و افسران کی کارکردگی صرف فوٹو سیشن تک ہی محدود ہے اور ستم ظریفی تویہ ہے کہ موثر تدارک کی بجائے اوپر تک سب اچھا ہے کی رپورٹ بھی دی جارہی ہے جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ کاشتکار اپنی فصلات و باغات کو ٹڈیوں سے بچانے کیلئے شور کا روایتی طریقہ اپنانے پر مجبور ہوچکے ہیں مگر یہ ٹڈی دل کے خاتمے کا مستقل حل نہیں ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹڈی دل کے تدارک کیلئے نیشنل ایکشن پلان متعارف کراتے ہوئے اس کے خاتمے کو یقینی بنائے اور جو اس صحرائی کیڑے کی وجہ سے کاشتکاروں کا نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کیلئے بھی ریلیف پیکیج کا اعلان کرے تاکہ ملکی زراعت جو پہلے ہی حکومتی عدم توجہی اور نااہلی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے وہ بحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور ملک کا کسان طبقہ خوشحال ہو کیونکہ کاشتکاروں کی خوشحالی میں ہی ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
بیرون ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ عید کے دنوں میں بھی جاری رہا،گزشتہ 24گھنٹوں میں شارجہ اور مسقط سے 285مسافروں کو دو الگ پروازوں کے ذریعے ملتان لایا گیا جن میں سے 106کو قرنطینہ سنٹر لودھراں،102کو لیبر کمپلیکس قرنطینہ سنٹر ملتان جبکہ 76مسافروں کو ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا۔جہاں پر ان مسافروں کے کورونا ٹیسٹ ہوں گے اور کلیئر ہونے والوں کو ان کے گھر روانہ کردیا جائے گا۔دوسری جانب وزارت مذہبی امور نے حکومتی ایس او پیز کے تحت اوقاف کے زیر انتظام ملک میں موجودمزارات کو کھول دیا ہے جس سے ملتان سمیت جنوبی پنجاب بھر میں اولیاء کرام کے مزارات بھی زائرین کیلئے کھول دئیے گئے ہیں۔عید کی چھٹیوں کے باعث زائرین کی کثیر تعداد مزارات پر دکھائی دی۔ایسے میں محکمہ اوقاف کی اہلکاروں و افسران کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ درباروں پر آنے والے زائرین کو حکومت کی طرف سے عائد کردہ ایس اوپیز پر سختی سے عملدرآمد کرائیں اگر اس میں بھی کوتاہی برتی گئی تو اس کے نقصانات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوجائے گا۔
فیس بک کمینٹ