چند روز قبل خبر تھی کہ بچوں کی لڑائی میں بڑے بھی لڑ پڑے اور اس طرح لڑے کہ پانچ افراد شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے، بالکل ایسا ہی ایک واقعہ ہے جس کا راقم خود چشم دید گواہ ہے کہ چند لوگ مل کر ایک بوڑھے آدمی کو مار رہے تھے، ہم نے جھپٹ کر بیچ بچاﺅ کرایا جو خاصہ مشکل تھا مگر ہو گیا، جب معاملہ رفع دفع ہوا تو پتہ یہ چلا کہ بچے راستے پر آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے آرہے تھے کہ بڑے صاحب سے ٹکرا گئے، بڑے صاحب لگے گالیاں دینے بچوں نے بہت معافیاں مانگیں مگر بڑے صاحب کسی طور معاف کرنے پر راضی نہ ہوئے اور دونوں بچوں کو ایک دو دو ہاتھ جڑ دئیے، بچے روتے ہوئے گھر پہنچے تو گھر سے ان کے بڑے نکل آئے اور انہوں نے بھی بلا تکلف بڑے صاحب کی دھلائی کردی۔ یہ دونوں واقعات ہمارے قومی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں جو بڑی وضاحت سے اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ہر شخص شدید ترین مایوسی کا شکار ہے اور بدلے کی آگ میں جل رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں ناانصافی و بد عنوانی کا شکار ہوا ہے، جسکی وجہ سے وہ ایک خاص نفسیاتی دباﺅ کا شکار رہتا ہے چونکہ وہ کسی اپنے سے بڑے کا ڈسا ہوا ہوتا ہے تو اپنے سے چھوٹے کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اپنا بدلہ خود سے نیچے والے سے لیکر کر اپنی نفسیاتی الجھن کا حساب پورا کرنا چاہتا ہے۔ یہ نفسیاتی دباﺅ پوری قوم میں بدرجہ اتم موجود ہے اور کثرت سے رائج ہے۔ اور اب آہستہ آہستہ ہمارا قومی مزاج بنتی جا رہی ہے، جس کا جواز لوگ اب یہ کہہ کر پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی تو فلاں موقع پر ایسا ہی ہو ا تھا ، لہذا اب ان کا بھی ایسا کرنا کوئی معیوب یا بری بات نہیں ہے۔
کیا ہم کبھی ان عوامل پر غور کرتے ہیں کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ ہمارے معاشرے میں نا انصافی، بدعنوانی، تنازعات کثرت سے نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ دن بہ دن ان میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ نئے نئے اسلوب بھی متعارف ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو بنے ستر سال سے ہوچکے ہیں اور تب سے اب تک ہم مسلسل اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں لگتا کچھ ایسا ہے کے لوگوں نے ضمیر بھی کسی روحانی آپریشن کے ذریعے نکلوادیا ہوتا ہے۔ لہذا جہاں نگا ہ ڈالی جائے بے ضمیری، بدکرداری، بے ایمانی و بے راہ روی عام نظر آتی ہے، ایک خوانچہ فروش سے لیکر ملک کے اشرافیہ تک سب ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ایک پھل فروش سیب تولتے ہوئے پلڑے میں تھیلی کے پیچھے دو سیب رکھ دیتا ہے اور تھیلی اتارتے وقت وہ نہایت چالاکی سے ان دونوں سیبوں کو خوانچے میں گرادیتا ہے جو تول میں تو آجاتے ہیں مگر خریدار کو نہیں ملتے، کہانی یہاں سے شروع ہوکر وزیروں، سفیروں، ججز، بیوروکریٹس، سرکاری ملازمین، سرمایہ کار، تاجر سے ہوتی ہوئی ایک عام گداگر تک آپہنچتی ہے، جس کا جہاں داﺅ چل رہا ہے چلا رہا ہے۔ نتیجہ معاشرے میں بڑے پیمانے پر انارکی کا پروان چڑھنا، اخلاقی اقدار کا مٹ جانا اور بے ایمانی و نا انصافی کا عام ہوجانے کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
وزراء ناجائز ذرائع سے پیسے بٹور کر ملک سے باہر جائیدادیں بنا رہے ہیں جو اربوں کھربوں کی مالی بدعنوانی سے حاصل کردہ آمدنی سے خریدی جاتی ہیں، عدلیہ اور انصاف کا لگتا ہے آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں، نذیراں بی بی کئی دھائیوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے انصاف کی منتظر ، سندھ کے دو بھائی پھانسی چڑھ جانے کے تین ماہ بعد بے قصور قرار پائے، ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں جن میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے یا تو لوگ مر جاتے ہیں یا مار دیئے جاتے ہیں اس کے برعکس اگر ملزم کوئی بڑا آدمی ہو تو عدالت چھٹّی والے دن بھی لگ سکتی ہے، اور واضح شواہد کے باوجود من چاہی مراعات حاصل کی جا سکتی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ججز اور وکلاء کا کردار بھی مشکوک ہے، اسی طرح اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ وہ اتنے باصلاحیت ہیں کہ پتھر میں بھی جونک لگا سکتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیں کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، کچھ دن خبروں میں رہنے کے بعد وہ کہیں بیٹھ کر چین کی بانسری بجا رہے ہوتے ہیں۔
کاروباری حضرات جہاں اپنی مصنوعات میں ملاوٹ یا غیر معیاری مصنوعات مہنگے داموں بیچ کر ملک و ملت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں وہیں ٹیکس چوری ان کی ایک عام واردات ہے جس کے ذریعے خاص قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں جو ملک و ملت کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
من حیث القوم ہم شقی القلبی کے اس درجے تک آچکے ہیں کہ درندے بھی معصوم و بے ضرر نظر آتے ہیں، ہم کسی کی بھی جان و مال کی پرواہ بالکل نہیں کرتے، بچوں کے دودھ سے لیکر کھانے پینے کی عام اشیاء تک کوئی بھی شے ملاوٹ سے خالی نہیں، اب تو نقلی دودھ synthetic milk عام فروخت کیا جاتا ہے، جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر اور جان لیوا ہے، اس کے علاوہ لوگوں کو مردار کھلانا دینا یا گدھے اور کتّے کا گوشت کھلا دینا معمول کی بات بن کر رہ گئی ہے، بات یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اگر مجرم سے سوال کریں تو خود ہی نکّو بن کر رہ جائیں گے یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ۔ آخری بچتا ہے غریب ترین آدمی جو خوانچہ لگا رہا ہے یا بھیک مانگ رہا ہے، خوانچہ فروش بھی بے ایمانی سے نہیں چوک رہا وہ کم تول رہا ہوتا ہے یا غیر معیاری شہ فروخت کررہا ہوتا ہے ، جبکہ گداگروں میں نوّے فیصد فریبی اور دھوکہ باز ہوتے ہیں، معدودے چند ہی حقیقی ضرورتمند اور نادار ہوتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم من حیث القوم کیوں اتنا زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں اور اسے برا بھی نہیں مانتے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جہاں جزاء و سزا کا نظام موجود نہ ہو وہاں لوگوں میں سزا کا ڈر نہیں رہ جاتا پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ معاشرے میں برائی کا بنیادی تصور ہی بدل دیا گیا ہو، ساتھ ساتھ گھر سے ہونے والی تربیت کا فقدان بھی بڑا سبب ہو سکتا ہے، لوگ اب برائی کو برائی نہیں مانتے یا وقت کی ضرورت جان کر کسی عذر لنگ کی آڑ لیکر کر مطمئن ہوجاتے ہیں، ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، کونکہ وہ خود بد عنوانیوں میں ملوث ہیں، یعنی پورا کا پورا معاشرتی نظام ہی بد عنوانی و انتشار کا شکار ہے۔
ہمارے معاشرے کو کردار سازی کی شدید ضرورت ہے، بلا تفریق اور ایمانداری کے ساتھ اوپر سے نیچے تک سب پر یکساں قانون کا نفاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، بگاڑ کی ایک وجہ افلاطون کے قول کا عملی طور پر ہمارے معاشرے میں موجود ہونا ہے۔ یعنی قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے بڑے جانور آسانی سے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں مگر کیڑے مکوڑے اس میں پھنس جاتے ہیں۔ لہذا جب تک قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں نہیں ہوگا انصاف نہیں ملے گا اور اگر انصاف نہیں ملے گا تو حالات درست نہیں ہوں گے کہتے ہیں کہ ایک وقت کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔
فیس بک کمینٹ