برطانوی سیاست میں شخصیت پرستی کو ایک ناقابل قبول سیاسی گناہ اور سیاستدانوں کے قول و فعل کے تضادات اور جھوٹے وعدوں کو سیاسی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ اس لئے یہاں کے سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد بہت سوچ سمجھ کر بولتے ہیں۔انہیں اس حقیقت کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جو گرہ وہ آج ہاتھوں سے لگائیں گے وہی گرہ کل انہیں دانتوں سے کھولنی پڑے گی جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کا کام ہی جھوٹے دعووں اور وعدوں سے چلتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے اور اختیار حاصل کرنے کے بعد انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ جب وہ بے اختیار اور حکومت سے باہر تھے تو عوام سے کیسے کیسے وعدے کرتے اور انہیں کس طرح کے سبز باغ دکھاتے تھے۔ ہمارے سیاسی قائدین کی زندگی ایسے تضادات سے بھری پڑی ہے جن کی نشاندہی انہیں بہت ناگوار گزرتی ہے لیکن ہمارے وہ سیاسی کارکن جو شخصیت پرستی کے خبط میں مبتلا ہیں ان کو یاددہانی کے لئے ان تضادات کی گاہے بگاہے نشاندہی کرنا اور یہ بتانا ضروری ہے کہ جب تک کوئی لفظ سیاستدان کی زبان سے ادا نہیں ہوتا وہ لفظ اس کا غلام رہتا ہے لیکن جب وہ لفظ اس کی زبان سے نکل جاتا ہے تو پھر اس سیاستدان کو الفاظ کا غلام ہونا پڑتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت جب ہماری کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ نہ جیت سکی تھی تو عمران خان نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ اس فیصلے کو کبھی واپس نہیں لیں گے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے پر انہوں نے ایک سوال کے جواب میں دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میں ہرگز سیاست میں نہیں آئوں گا۔ جمائما سے طلاق کے بارے میں ایک برطانوی اخبار نے خبر شائع کی تو کپتان نے کہا کہ خبر جھوٹ ہے۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے بار بار کہا کہ کامیابی کے بعد اپنی کابینہ میں نئے اور ایماندار سیاستدانوں کی ٹیم لے کر آئوں گا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کہا کہ میری حکومت ہو گی تو شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہیں رکھوں گا۔ انتخابی جلسوں میں اس دعوے کا اعادہ کرتے رہے کہ خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے نہیں جائوں گا۔ کہا تھا کہ مڈل ایسٹ کے کسی ملک کے سامنے امداد کے لئے ہاتھ نہیں پھیلائوں گا۔ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے تین ماہ بعد جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنادوں گا۔ کہا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کی بڑی بڑی عمارتوں کو یونیورسٹیز میں تبدیل کر دوں گا۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے، غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے وعدے اس کے علاوہ تھے۔ کہا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہئے۔ قول اور فعل کے اور بھی درجنوں تضادات ایسے ہیں جن کی نشاندہی کا متحمل یہ مختصر سا کالم نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح میاں نواز شریف جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے گہوارے میں پرورش پائی تھی اور ان کی ہلاکت پر کہا تھا کہ ہم شہید ضیاء الحق کے مشن کی تکمیل کریں گے۔ اب یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ پاکستان کو (فوجی) آمریتوں نے تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔ وہی سابق وزیر اعظم جو بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک اور بھٹو خاندان کو نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دیتے تھے وقت پڑنے پر ان کے ساتھ میثاق جمہوریت کر کے اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل میں شامل ہو گئے۔ وہی نواز شریف جنہوں نے عوام کو’’ قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ دیا تھا آج پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا چھوڑ کر اپنے ارب پتی بیٹوں کے پاس لندن میں مقیم ہیں۔ وہ خادم اعلیٰ پنجاب جو آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے علی الاعلان دعوے کرتے تھے اب ان کی حمایت کے حصول کے لئے ان کے در پر حاضری دینے پر بھی نہیں شرماتے۔ وہی نواز شریف جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو قرار دیتے رہے ہیں اب ان کی صاحبزادی مریم پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے مزار پر حاضری دینے کو اپنے لئے سیاسی اعزاز سمجھتی ہے۔ وہی بلاول بھٹو جو عمران خان اور نواز شریف کو بھائی بھائی اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار دیتا تھا اب مریم نواز کے ساتھ سیاسی مفاہمت کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہی آصف زرداری جو نواز شریف کو خود غرض اور مفاد پرست شخص کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اب عمران خان دشمنی میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر سے ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔
وہی مولانا فضل الرحمن جو عورت کی حکمرانی کے مخالف تھے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے بخیے ادھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور بوقت ضرورت نواز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے اب مریم اور بلاول کے ساتھ خوشی خوشی جلسوں سے خطاب کرتے اور اپوزیشن کے کان بھرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کے قول و عمل کے ان تضادات کے باوجود ہمارے ملک کے بے وقوف اور سادہ لوح عوام ان کی اندھی تقلید سے باز نہیں آتے۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ جو سیاسی اور مذہبی رہنما اپنی کہی ہوئی باتوں اور دعووں پر قائم نہیں رہ سکتے ان کی پیروی کرنا اور ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے سیاست کو خدمت کی بجائے تجارت کا ذریعہ بنا لیا ہے اور جو کوئی سیاستدان ایک بار اقتدار میں آ جاتا ہے تو اس کا کاروبار اور اثاثے زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ انہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اپنی شوگر ملز، فیکٹریز اور کارخانے اور ایئرلائن تو ہمیشہ منافع کماتی ہیں لیکن ان کے اپنے ادوار حکومت میں پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، ریلویز اور دیگر سرکاری تجارتی اداروں کا خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عوام کے چندے اور خیرات سے شوکت خانم ہسپتال کامیابی سے چل رہے ہیں اور وہاں عملے کی بھرتی بھی سو فیصد میرٹ پرکی جاتی ہے مگر پاکستان کے سرکاری ہسپتال تما م تر حکومتی وسائل کے باوجود مریضوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں فراہم نہیں کر سکتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کو دیانتدار، بااصول اور ایک نمبر قیادت کیوں میسر نہیں آتی؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کے عوام ہوتے ہیں انہیں اسی طرح کی قیادت ملتی ہے۔کسی بھی ملک کی لیڈر شپ وہاں کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے اگر کسی ملک کے عوام کی اکثریت ایماندار، صفائی پسند، اصول پرست اور قانون کی پاسدار ہو گی تو ان میں سے قیادت اور نمائندگی کرنے والے لوگ بھی ویسے ہی ہوں گے اور اگر کسی قوم کی اکثریت بددیانت، ٹیکس چور، دو نمبر، ملاوٹ کی ماہر، رشوت پسند اور ہیرا پھیری کو ہنر سمجھتی ہو گی تو اس قوم کے رہنما بھی ویسے ہی ہوں گے اور انہی ’’خصوصیات اور اوصاف‘‘ کے حامل ہوں گے۔اگر ہم کسی گدلے پانی کے تالاب سے ایک گلاس پانی کا نکالیں گے تو وہ بھی گدلا ہی ہو گا جبکہ اگر کسی شفاف پانی کے تالاب سے ایک گلاس پانی لیا جائے تو وہ بھی صاف اور شفاف ہو گا۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت خود تو بددیانتی سے باز نہیں آتی قانون اور ضابطے کا احترام نہیں کرتی لیکن حکمرانوں اور رہنمائوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ دیانتدار قانون پسند ہوں۔ برطانیہ اور یورپ میں اگر ہمیں انصاف اور قانون کی بالادستی اور ترقی نظر آتی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہاں کے عوام کی اکثریت ترقی پسند ہے اور جو انصاف اور قانون کے احترام کو مقدم سمجھتی ہے۔ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور ہرفرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے ۔ جس دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا اس دن سے وہ کسی دیانتدار اور اصول پسند سیاستدان یا رہنما کی راہ دیکھنے یا انتظار کرنے کی بجائے خود کو دیانتداری اور اصول پسندی کا نمونہ بنانے کا تہیہ کر لیں گے اُسی قوم کو باشعور اور انصاف پسند قیادت میسر آتی ہے جو خود بھی باشعور اور انصاف پسندی کے تقاضوں پر پوری اترے اور ویسے بھی یہ بات ہم سب بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ خدا بھی ان قوموں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک ان کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ آئے یا ضرورت محسوس نہ ہو۔٭٭٭٭٭٭
( بشکریہ : اخبار جہاں )
فیس بک کمینٹ